باسکٹ بال: قصہ ربع صدی کا۔۔۔احمد رضوان

ربع صدی قبل جب آتش جوان تھا تو خون پسینہ کھیل کے میدان میں بہانے کا شوقین تھا ۔کھیلوں سے رغبت بچپن میں ہی ایسی پیدا ہوگئی تھی کہ اسکول میں بریک کے دوران اور بعد از چھٹی گراؤنڈ میں بھاگ دوڑ یا کھیلوں میں مصروف رہنا پسندیدہ مشغلہ ٹھہرا تھا۔کرکٹ کا رسیا ہونے کی وجہ سے اولین محبت بیٹ اور بال سے تھی مگر ہاکی بھی تب اپنے عروج پر تھی۔ہاکی ،فٹبال،کرکٹ کے ساتھ گلی ڈنڈا سب کھیل کھیلے جاتے تھے ۔1994 میں یونیورسٹی کرکٹ ٹیم میں جب سلیکشن ہوگئی تو گویا سونے پر سہاگے والی بات ہوئی ۔ساری زندگی کھیلوں سے محبت رہی مگر گھر کے کے سخت ماحول کی وجہ سے تعلیم پر توجہ اولین ترجیح ٹھہری تھی۔اسی لیے اسکول اور کالج کی ٹیم کی طرف سے کھیلنے کی اجازت نہ مل سکی مگر یونیورسٹی میں آنے کے بعد یہ پابندی اٹھ گئی تو گویا سوکھے دھانوں پر پانی پڑگیا۔یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کی طرف سے کھیلتے ہوئے کرکٹ ٹیم کو پہلی بار فائنل راؤنڈ تک لے جانا تب یقیناََ اپنے آُپ میں ایک کارنامہ تھا ۔اس کی کہانی پھرکبھی مگر اتنا ضرور ہے یونیورسٹی کلر ملنا باعث صد افتخار بات تھی ۔

1994 کا سال کھیلوں کے حوالے سے پاکستان کے لیے بھی بہت سعید تھا۔پاکستان اپنے محدود وسائل کے باوجود چار ورلڈ کپ ٹائٹلز ہولڈر تھا۔کرکٹ میں 1992 ورلڈ کپ ( جسے اب کچھ یار لوگ آفٹر افیکٹس کے حوالے سے ایک ایسی تعبیر کا حصہ سمجھتے ہیں جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی, مگر تب یہ سب کے لئے فخر کی بات تھی ). شہباز سینئر کی کپتانی میں ہاکی ورلڈ کپ جیتنا ایک ایسا جادوئی کارنامہ تھا جس کی کوئی بھی توقع نہیں رکھتا تھا مگر ہماری ہاکی ٹیم نے یہ معجزہ کر دکھایا تھا۔تیسرے ہمارے ورلڈ چیمپیئن جان شیر خان تھے جو اسکواش میں جہانگیر خان کے بعد سب سے نمایاں کھلاڑی رہے۔چوتھے ورلڈ چیمپئن ایمیچور اسنوکر کے کھیل میں محمد یوسف تھے جنہوں نے بغیر کسی امداد کے اپنی محنت شاقہ سے یہ ٹائٹل اپنے نام کیا تھا ۔خیر ہماری آج کی اس تحریر کا موضوع نہ تو پاکستان کا کھیل کے کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانا ہے اور نہ ہی ذاتی طور پر کرکٹ میں جو کارنامے انجام دیئے اس پر لکھنا ہے بلکہ ایک ایسے کھیل کے بارے میں لکھنا ہے جس سے ربع صدی قبل محبت شروع ہوئی اور آج تک جاری و ساری ہے ۔ یہ کھیل باسکٹ بال کہلاتا ہے۔
نوے کی دہائی کے آغاز سے جب ایس ٹی این STN چینل نے نجی نشریات کا آغاز کیا تو گویا پی ٹی وی کے بعد یہ ایک ایسی تفریح تھی جو اس دور کے گھٹن والے ماحول میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا ثابت ہوئی ۔پی ٹی وی پر پر کھیلوں کی خبریں دی جاتی تھیں اور ہفتے کے اختتام پر سپورٹس راؤنڈ اپ بھی نشر ہوتا تھا مگر جو مزہ سی این این کی اسپورٹس کی خبروں کو دیکھنے کا ہوتا تھا اس کا ثانی نہیں تھا۔انہی دنوں شمالی امریکہ کی کی اسپورٹس نیوز میں میں باسکٹ بال اور آئس ہاکی جو اپنی اپنی ایسوسی ایشنز NBA اور NHL پر مشتمل ہوتی تھیں ان میں آہستہ آہستہ دلچسپی پیدا ہونا شروع ہوگئی۔باسکٹ بال کے اس دور کی ٹیم اور کھلاڑیوں کو کون بھول سکتا ہے ہے جب بھی شکاگو بلز(Chicago Bulls) کا نام آتا تو ساتھ ہی مائیکل جارڈن کا چہرہ ابھرآتا۔میجک جانسن LA Lakers, حکیم الاجوان اور ہیوسٹن راکٹس،ڈینس راڈمین، شکیل اونیل اور بڑے بڑے نامی کھلاڑی جنہوں نے کئی نسلوں کو متاثر کیا اور باسکٹ بال کے کھیل میں کئی بڑے کھلاڑیوں کی آمد کا سبب بنے۔


1994 میں ہی کینیڈا میں باسکٹ بال کی پہلی NBA فرنچائز لینے کی کوششوں میں مصروف ٹیم کو اپنی شناخت کے لئے نام کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا ۔ امریکا سے باہر یہ دوسری ٹیم تھی۔ وینکوور گرزلیز کے بعد جو ٹورانٹو میں باسکٹ بال کی نشاۃ ثانیہ چاہتی تھی ۔دوہزار سے زائد انٹریز میں سے فائنل ہونے والے چند ناموں میں سے ایک نام “Raptors” تھا ۔

1993 میں اٹیون اسپیل برگ کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم “جراسک پارک” نے دھوم مچا دی تھی ۔فلم کے ٹائٹل پر سب سے نمایاں تصویر ایک ایسے ڈائناسار کی تھی جسے ریپٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔لگ بھگ پچھتر ملین ا سال قبل پایا جانے والا یہ ڈائناسار ستر کلوگرام وزنی ہوتا تھا اور اڑ نہیں سکتا تھا مگر کافی تیز رفتاری سے بھاگ سکتا تھا ۔ تو اس ڈائنا سار کے نام پر نئی ٹیم کا اتفاق ہو گیا۔اسی لئے آج بھی ایرینا کے باہر عام لوگوں کے لئے بڑی اسکرین پر میچ دکھانے والے ایریا کو جراسک پارک کہا جاتا ہے ۔

NBA basketball fans cheer on the Toronto Raptors as they play the Philadelphia 76ers during first half NBA Eastern Conference semifinal action in Toronto on Sunday, May 12, 2019. THE CANADIAN PRESS/Tijana Martin


ادھر یہ سب چل رہا تھا تو کہیں دورایک نامانوس افریقی ملک کیمرون میں 2 اپریل 1994 کو ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جو کیمرون کی طرف سے باسکٹ بال کھیلنے والے پہلے کھلاڑی کے روپ میں سامنے آیا۔کیمرون انیس سو نوے کے فٹ بال ورلڈ کپ میں کافی ساری ٹیموں کو آپ سیٹ ہرا کرکوارٹر فائنل تک پہنچ کر سب کو حیران کر دیا تھا مگر اس کے بعد کارکردگی میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ذہنوں سے اتر گیا۔

اب پچیس سال بعد اسی کیمرون کے چھ فٹ نو انچ لمبے کھلاڑی” Pascal Siakam “نے دفاعی چیمپئن “Golden State Warriors” کے خلاف سب کو چونکا دینے والی پرفارمینس سے حیران کردیا۔باسکٹ بال کے کورٹ میں قلانچیں بھرتا ،زقندیں لگاتا چست اور پھرتیلا اکہرے بدن کے ساتھ ساتھ لوچ سے مالامال یہ کھلاڑی چشم زدن میں ایک کونےسے دوسرے کونے تک پہنچ جاتا ہے۔بچپن میں پادری بننے کی خواہش رکھتا تھا مگر اس کا منتظر تو باسکٹ بال کا کھیل تھا۔ ہائی اسکول میں کھیل کے وظیفے پر امریکہ باسکٹ بال کھیلنے کے لئے آیا اور سب کو اپنے جوش ،ولولے ، جذبے اور اسٹیمناسے متاثر کرگیا۔2014 میں جب وہ کالج باسکٹ بال کھیل رہا تھا تو ایک حادثے میں اسے اپنے باپ کی جان چلے جانے کا علم ہوا مگر ویزا کی کچھ مشکلات کی وجہ سے اس کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا جس کا قلق اسے آج تک ہے۔ وہ بلا تامل اپنی ہر گیم کو اپنے والد کے نام منسوب کرتا ہے۔2016 میں میں Raptors کے موجودہ صدر کی نظر ایک ٹرائل گیم میں میں اس پر پڑی اور انہیں پہلی نظر میں ہی یہ کھلاڑی بھا گیا ۔NBA ڈرافت میں اس کا انتخاب ٹورانٹو کی طرف سے کیا جانا اس کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس کا پہلا باسکٹ بال کا میچ ہی اس کا کورٹ پرافیشنل باسکٹ بال دیکھنے کا اولیں موقع تھا۔
Siakam

کھیل موجودہ دور میں درویشی سے کم نہیں اگر بغیر کسی میچ فکسنگ اور اور جوئے بازی کے ہوں اور کھلاڑی پوری ایمانداری سے مقابلے کے لئے اتریں اور اپنی جان لڑا دیں ۔ کینیڈا جیسے ملک میں جہاں دو سو سے زائد ممالک کی تقریبا تمام نمائندہ اقوام ،زبانوں اور ثقافت کا مجمع ہو وہاں سب کو ایک لڑی میں پرونا کھیل کا ہی خاصہ ہے ۔بھلے ہمارے مذہبی، ثقافتی ،معاشرتی رہن سہن مختلف ہوں مگر جب بات کھیلوں کی آتی ہے تو سب ایک خاندان بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی مشاہدہ حالیہ دنوں میں تب ہوا جب باسکٹ بال کی گیم نے پورے کینیڈا بھر کے باسیوں کو کو اپنی حمایت میں یکجان کر دیا۔ ہر طرف خوشی کا سماں تھا کہ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کینیڈا کی باسکٹ بال ٹیم NBAکا فائنل کھیل رہی ہے۔ امریکہ سے باہر NBA فائنلز کھیلے جانے کا یہ بھی پہلا موقع ہے۔اینبی اے کی 30 میں سے انتیس ٹیمز کا تعلق امریکہ کی مختلف ریاستوں کے شہروں سے ہے ۔ایسے میں “ٹورانٹو ریپٹرز” ہی وہ واحد ٹیم ہے جو امریکہ سے باہرفرنچائز ہے اور اس ٹیم کا باقی اٹھائیس ٹیموں کے مقابلے میں آ گےآنا یقیناََ ایسوسی ایشن ، ٹیمز کے ساتھ ساتھ ایک عام امریکی کے لیے بھی کافی حد تک احساس ندامت کا سبب بنتا ہے۔
امریکا کے شمال میں موجود ہونے کہ وجہ سے کینیڈا کی ٹیمز ” We the North” کے نعرے کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں ۔امریکا کے باسی بھی اسے شمال کی ٹیم سمجھتے ہیں اور اکثر اس بات پر جزبز ہوتے ہیں کہ امریکا کی ٹیمز کے مقابلے میں کینیڈا کی ٹیمز کیسے اچھا پرفارم کرتی ہیں چاہے وہ بیس بال ہو ،آئس ہاکی ہو یا باسکٹ بال۔طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ آئس ہاکی اور باسکٹ بال جیسے کھیلوں کی ایجاد کینیڈا اور کینیڈین موجدوں کی مرہون منت ہے ۔

1891 میں اونٹاریو ،کینیڈا میں پیدا ہوئے “James Naismith” کے سر پر باسکٹ بال کی ایجاد کا سہرا بندھتا ہے جنہوں نے ابتدائی طریقہ کار سے لے کر کھیل کے بنیادی اصول وضع کئے ۔

ٹورانٹو کی باسکٹ بال ٹیم کو شروع شروع میں کافی محنت کرنا پڑی کیوں کہ اس کے پاس وہ سٹار کھلاڑی نہ تھے جو اسے میچ جتوا کر کر اگلے راؤنڈ لے جانے میں کامیاب ہوتے۔ بہت دفعہ تو کھلاڑی منتخب ہونے کے بعد بھی اتنی دور امریکہ سے ٹورانٹو آنے میں متامل ہوتے اورسلیکشن ہونے کے باوجود نہ آتے۔ آہستہ آہستہ کوئی ربع صدی میں اپنی محنت شاقہ سے یہ ٹیم اس قابل ہوگئی ہے کہ کہ NBA کی کسی بھی دوسری ٹیم کو برابر ٹکر دے سکتی ہے. پچھلے سات سالوں سے اپنے موجودہ کپتان “Kyle Lowry” کی قیادت میں ٹیم متحد ہوکر کارنامے انجام دے رہی ہے . گزشتہ سالوں میں ڈویژنل چیمپیئن بننے کے بعد کوارٹر فائنل اور سیمی فائنل سے آگےنہ بڑھ پانا سب کے لئے مایوس کن تھا مگراس سال “Milwaukee Bucks” کو ہرا کر Eastern Conference Final جیتنا اور فائنل راؤنڈ کے لئے پہلی بار کوالیفائی کرنا ٹیم کی تاریخ میں سب سے بڑا اعزاز ہے۔

“Golden State Warriors” پچھلے پانچ سالوں میں لگاتار فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کرتی آرہی ہے اور اس میں سے 3 دفعہ یہ چیمپئن شپ جیت کر کر ایک ایسا کارنامہ انجام دے چکی ہے جو جو یقینا لائق تحسین ہے. صرف ایک بار ” Lebron James” کی ٹیم Cleveland Cavaliers” یہ مقابلہ جیت پائی۔
Lebron James

کھیل کی پنڈتوں کے خیال میں اس سال بھی گولڈن اسٹیٹ کی ٹیم چیمپئن شپ جیتنے کے لیے فیورٹ ہے کیونکہ اس کے پاس ایسے اسٹار کھلاڑی موجود ہیں جو اپنے مظبوط ڈیفنس اور اٹیک کی بدولت کسی بھی وقت گیم کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔”Steph Curry ، “Kevin Durant” ایک ایسی جوڑی ہے جو کسی بھی ٹیم کے خلاف جب میدان میں اترتی ہے تو پوائنٹس کا ڈھیر لگا دیتی ہے ۔فائنلز میں اس جوڑی کو ایک دھچکا اس وقت لگا جب کیون ڈیورانٹ زخمی ہوکر مقابلوں سے باہر ہوگئے اور سٹیف کری کو مارک اور کنٹین کرنا کچھ آسان لگ رہا ہے ۔
Steph Curry and Kevin Durant

بیسٹ آف سیون فائنلز پر مشتمل ان مقابلوں کا پہلا میچ جمعرات کی شام ٹورانٹو میں کھیلا گیا ۔ ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کے ایڈوانٹیج کے باوجود مبصرین گولڈن اسٹیٹ واریئرز کو فیورٹ قرار دے رہے تھے مگر پھر اس کورٹ پر Siakam اور Gasol” کی جوڑی نے وہ کمال کا کھیل پیش کیا کہ سب انگشت بدنداں رہ گئے ۔ سیاکم بتیس پوائنٹس اور گاسال 22 پوانٹس اسکور کرکے نمایاں رہے ساتھ ساتھ “Kawhi Leonard” اور Kyle Lowry نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔
Kyle Lowry and Kawhi

ہم نے بہت بار کھیلوں کی دنیا میں یہ معجزہ ہوتے دیکھا ہے کہ نسبتا کمزور ٹیم متحد ہوکر کھیلی اور میچ کے ساتھ ساتھ ٹورنامنٹ بھی جیت گئی۔ اب کی بار بھی یہی لگ رہا ہے کہ کینیڈا کے باسیوں کو باسکٹ بال کی یہ ٹیم چمپئین شپ جیت کر ربع صدی کے اس طویل انتظار کے بعد نہال کردے گی ۔ دیکھئے کیا ظہور میں آتا ہے میں بھی پوری شدت سے منتظر ہوں اور اس ٹیم کی کامیابی کےلئے دعاگو ہوں۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”باسکٹ بال: قصہ ربع صدی کا۔۔۔احمد رضوان

  1. لطف کے ساتھ ساتھ معلومات میں اضافہ ہوا ۔۔۔
    دیوان صاحب کی طرح تصویروں کی بھرمار نے حسب معمول پریشان کیا lol

    لیکن قارئین کو اچھی لگتی ہوُنگی ۔۔۔

  2. اچھی اور ٹھوس تحریر ہے ۔
    کھیلوں کے حوالے سے ایک تاریخی دستاویز بھی ۔۔
    اس کے مواد میں اتنی دلچسپی موجود ہے کہ تصویروں سے نہ بھی سجائی جائے تو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی پوری طاقت ہے ۔
    سپورٹس کالم لکھنا وقت کی عین ضرورت بھی ہے ۔
    سرفراز نے شلوار قمیض پہن کر ملک کی نمائندگی کی یا نیکر پہن کر اس سے فرق نہیں پڑتا ۔۔ کھیل کا معیار کیا ہے جس پر آپ نے زور دیا وہ زیادہ ضروری ہے ۔۔۔۔۔
    المیہ یہی ہوُگیا ہے کہ سجاوٹ اور ظاہر ۔۔۔ہر میدان میں اندرونی قابلیت کو کھا رہا ہے ۔۔۔۔۔
    ایک دفعہ پھر سے بہت مبارک ایسا شاندار کالم لکھنے پر ۔۔۔۔
    اہل ٹورنٹو ہونے کے نا طے raptors کے لیے دعا گو اور پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے ملک میں ہر کھیل کو عروج پر ایک دفعہ پھر سے دیکھنے کی خواہش اس کالم کو پڑھنے کے بعد پیدا ہوئی ۔۔۔۔۔ شیر ایک واری فیر۔۔۔

Leave a Reply