قلندر کی ہیر۔۔محمد خان چوہدری/قسط1

سول ہسپتال کے گیٹ پہ رش لگ گیا۔ سوزوکی پک اپ میں ڈالے کے فرش پہ  دری پر پڑا بوڑھا فقیر کراہ رہا تھا،سوزوکی ڈرائیور سب کی منتیں کر رہا تھا کہ اسے ہسپتال کے اندر پہنچانے کو گیٹ کھولا جائے اور اس کی مدد کی جائے۔فقیر کو لانے والے ملنگ اسے کرایہ دے کے غائب ہو گئے تھے، لوگ رُکتے ،فقیر کو دیکھتے، لیکن کوئی  اس کے قریب جانے کو تیار نہیں تھا، اس کے بدن سے چرس اور بدبو کے بھبھوکے  سونگھنے کو کوئی  تیار نہیں  تھا۔ جو اسے پہچان بھی گئے۔۔۔۔کہ یہ شہر کے جنوبی گاؤں کی خانقاہ کا مجاور سائیں غلام ہے وہ بھی دوسروں کو بتانے میں مصروف تھے،
پورے ہسپتال روڈ پر بات پھیل گئی۔ اس کی خبر ہسپتال میں بھی پہنچی تو اسی اثنا میں ایک معمر عورت زنانہ وارڈ کی طرف سے نمودار ہوئی،
اُس نے گیٹ کھلوایا، سوزوکی میں ڈرائیور کے  ساتھ بیٹھی اور اسے او پی ڈی کے سامنے لے گئی، وہاں اس نے دو میل نرس بلوائے ۔ وہ بھی متذبذب تھے، گندا ترین لباس، مٹی سے اَٹے بال، پھٹی ایڑیاں ، ساتھ بد بو۔۔۔۔

اس خاتون نے ڈرائیور سے بات کی ۔اس نے اپنا چہرہ  چادر کی بُکل مار کے ڈھانپ رکھا تھا۔ سوزوکی ہسپتال کے رہائشی بلاک میں چلی گئی، سٹاف کو کچھ شک ہوا کہ خاتون تو چائلڈ سپیشلسٹ کی والدہ ہیں،
جتنی دیر میں یہ خبر ہسپتال میں عام ہوئی ، سوزوکی واپس او پی ڈی میں آئی، سائیں کو نہلا کے ،کپڑے بدل کے لایا گیا۔۔۔۔
ایمرجنسی میں سٹریچر پہ  پہنچایا گیا، ڈاکٹرز نے چیک کیا، دو انجکشن لگائے گئے۔ ٹیسٹ  کیے اور  دو گھنٹے بعد اسے وارڈ منتقل کردیا گیا، وہ بی بی ساتھ موجود رہی، سائیں کی طبیعت سنبھل گئی تو ہر طرف چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں  کہ اس ڈاکٹر کی والدہ کا سائیں سے کیا رشتہ، تعلق یا واسطہ ہے، بات ڈاکٹر تک بھی پہنچ گئی ہو گی !

چھوٹے شہروں میں بڑی مصیبت یہی ہوتی ہے کہ اکثر لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ وہ سب کے شجرہ نسب سے بھی واقف ہوتے ہیں، منہ پہ  کسی کو نہ بھی جتلائیں پیٹھ پیچھے ساری تفصیل ضرور نشر کرتے ہیں ۔

سول ہسپتال اور کچہری ایسے شہروں میں نواحی گاؤں سے آنے والے لوگوں کی وجہ  سے سارے علاقے میں سینہ بہ سینہ ایسی خبروں کے تشہیری مقام ہوتے تھے۔ چند دنوں میں سائیں غلام کا واقعہ ہر گاؤں قصبے میں ہٹی ،بھٹی، چوپال، بیٹھک اور لاری اڈے کے ڈھابوں پر زیر بحث رہنے لگا، ہر داستان گو نے اپنی طرف سے نمک مرچ لگا کے یوں بیان کیا کہ پرانی رومانس کی کہانیاں مدھم پڑ گئیں۔

سائیں غلام شہر سے بائیس میل جنوب کے گاؤں میں جدّی پشتی میراثی کے گھر پیدا ہوا۔ گاؤں سے ملحق پہاڑی پر وڈے شاہ کی زیارت پر اس کے باپ نے اس کی پیدائش کی منت مانی کہ نام ” غلام شاہ” رکھے گا ۔
باپ کے پاس ہارمونیم تھا اور چچا طبلے کی جوڑی پر سنگت کرتا، شادی بیاہ ، تقریبات اور عرس پہ یہ گانے بجانے سے اچھی روزی روٹی کما لیتے تھے، غلام شاہ نے ہوش سنبھالا تو ایک اس کے سر کے بالوں میں منت کی لٹ تھی، دوسرا ہارمونیم بجانا خود سے سیکھ گیا۔ سب سے بڑھ کر اس کی آواز اور لَے پر بھی قدرتی گرفت تھی، کہہ سکتے ہیں بہت سُریلا میراثی گائیک تھا، یوں بچپن سے سائیں غلام مشہور ہوا۔
لیکن ٹریجڈی یہ ہوئی  کہ چار پانچ سال کی عمر میں اس کی ماں فوت ہو گئی باپ نے دوسری شادی کر لی، سوتیلی ماں کے ناروا سلوک کی وجہ سے آوارہ منش ہو گیا۔ان کا گاؤں نواحی چار گاؤں سے بڑا تھا ۔ پکی سڑک کے قریب ہونے کی وجہ سے ان پانچ دیہات کی یونین کونسل کا دفتر بھی یہیں تھا۔

مصنف:محمد خان چوہدری

ڈاکٹر کی والدہ گلاب بانو بھی اسی گاؤں کی تھی۔ جسے عرف عام میں گلاں پکارتے تھے، ان کا گھر وڈے شاہ کے مزار کے قریب تھا۔ گلاں کا باپ بھی اس کے بچپن میں فوت ہوا تو اس کی ماں کی دوسری شادی ممکن ہی نہ تھی اس نے گاؤں میں گزارے کے لئے دائی  کا کام شروع کیا۔ جب گاؤں میں دیہی صحت مرکز بنا تو اسے مڈ وائف کی جاب مل گئی۔ اسی مرکز سے گلاں نے نرسنگ سیکھی،
سائیں غلام اور گلاں کی زندگی میں بہت مماثلت تھی، غلام عام طور پر خانقاہ پہ  دن گزارتا۔ آتے جاتے گلاں کے گھر سے ہو کے جاتا۔ مزار پر نذر نیاز ملتی تو اسی گھر میں لے جاتا ، ان سے مل کے کھاتا۔ گلاں کی ماں نیک دل عورت تھی۔ وہ اس کی مرحومہ ماں کی سہیلی بھی تھی۔ اسے بیٹے کی طرح پیار کرتی تھی،غلام اور گلاں بچپن کی محرومیاں اور خوشیاں باہم بانٹتے ساتھ ساتھ پل رہے تھے۔
صبح کے ٹائم غلام دو ٹین پانی چشمے سے بھر کے سڑک کے بس سٹاپ پہ  لے جاتا۔ پکے گلاس پہ  اٹھنی کے سکے سے میوزک بجاتے عارفانہ کلام گاتا۔ پانی پینے والے مسافر اسے چونی، اٹھنی روپیہ جو دیتے جیب میں ڈال لیتا۔۔۔۔ایک دو گھنٹے میں ٹین خالی ہوتے تو گاؤں واپس آتا، اڈے سے واپسی پر وہ گلاں کے لئے کھانے کی چیز ضرور لاتا
ان کے گھر اسے بھی کھانے کو کچھ مل جاتا۔ صحن میں بیری کے درخت سے بندھی پینگھ  پہ  گلاں کو جھولے دیتے ہوئے اکثر وہ ہیر وارث شاہ گاتا۔ گلاں یہ ہیر سنتے جوان ہو رہی تھی۔

دن میں اکثر گلاں کی ماں کی بکریاں چرانے دربار پہ  لے جاتا، ویسے بھی شام کو وہاں ضرور جاتا کہ مزار پہ  چڑھائے گئے پیسے وہی چنتا تھا۔ عام طور پہ  وہ پیسے سوتیلی ماں کو دیتا ۔ کبھی باپ کی جیب میں ڈال دیتا، گھر سے اس کا تعلق یہ اور رات کو رسوئی  کے ساتھ والی کوٹھڑی میں سونا تھا۔ دوسرا بڑی شادی بیاہ کی تقریب میں باپ کے ساتھ جانا۔۔۔جہاں اس کی سُریلی گائیکی پے خوب ویلیں ملتی تھیں جو باپ اپنے  پاس رکھ لیتا۔ کپڑوں کی اسے پرواہ نہیں  تھی، فنکشن کے لئے نئے ملتے تو اگلے فنکشن تک وہی چلاتا ۔ ہاں بال بہت سنبھال رکھے تھے، تیل لگا کے کنگھی سے ایسے سیٹ کرتا کہ
گانے گاتے وہ چہرہ ڈھانپ لیتے ،جھٹک کے ہٹاتا تو تالیاں گونجتی۔ہارمونیم پہ  بیٹھ جاتا تو لمبی تان لگاتے، زلفیں سہرے کی طرح جھولتیں۔ شام کو دربار سے واپسی پر پہاڑی کی پگڈنڈی پر چلتے اکثر وہ قصیدہ پڑھتا ۔ جسے سنتے گھروں میں بیبیاں روٹیاں پکاتے تالیوں کی گونج اسی لے پر رکھ لیتیں ۔

پھر ایک شام جب غلام گلاں کے گھر گیا تو گلاں نے اس کے گانے کی کچھ زیادہ ہی تعریف کی۔ پراٹھا پکاتے گانے کی فرمائش بھی کر ڈالی ۔ غلام نے بھی دل سے الاپ اٹھایا۔ دونوں کے دل میں ایک ساتھ ایک جیسے ساز بج اٹھے۔
اور اس کی گونج گلاں کی ماں نے بھی سُن لی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply