ہمارے سیاسی کلچر کے اصلاح طلب پہلو

ہمارے سیاسی کلچر کے اصلاح طلب پہلو
محمدخلیل الرحمن
تعجب کی بات ہے کہ ہم اپنے اپنے تعصبات کے اسیر بن کر رہ گئے ہیں ۔ بدگمانی اور عدم برداشت ہماری فطرت ثانیہ بنتی جا رہی ہے ۔ اپنے لئے اور معیار پسند کرتے ہیں اور دوسروں کیلئے اور ۔ دینے کے باٹ اور ہیں لینے کے باٹ اور ۔ احمد پور شرقیہ میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی رولز کی عدم آگاہی اور حکومتی ادراوں کے تساہل کے سبب لوگوں کی قیمتی جانیں چلی جائیں تو ہم اسے عذاب ِ الہٰی قرار دے دیتے ہیں ، جیسے عذاب ِ الہٰی بھی ہماری خواہشات کے تابع ہو ۔ ہم اپنی سیاسی وابستگیوں کی بے جا وکالت بھی کرتے ہیں اور اپنے اپنے لیڈرز کی غلطیوں کا دفاع بھی اپنے اوپر لازم کر لیتے ہیں ۔ جائز مقاصد کے حصول کیلئے ناجائز ذرائع کو بھی جائز سمجھتے ہیں ۔ ادھر ہمارے سیاسی قائدین خواب بیچنے کے دھندے میں مشغول ہیں ۔ ہم ان خوابوں کی کرچیاں کرچیاں ہوتے بھی دیکھتے ہیں لیکن پھر یہ کرچیاں چننے میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ میرے ناقص خیال میں یہ اتنا اچھا مشغلہ نہیں ہے ، بالآخر اس سے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں ۔
تمام سیاسی جماعتیں پاکستانی ہیں اور ان کے وابستگان پاکستانی ہیں ۔ کسی سے پارٹی کے انتخاب میں خطا بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ پاکستانی اور محب وطن ہی رہتا ہے ۔ اس سے شدید نفرت ناقابل فہم ہے ۔ اگر یہ چلن رہا تو پوری قوم “بس ہم ہی حق پر ہیں ” کے خبط میں مبتلا ہو جائے گی ۔ میں سیاست کا طالب علم ضرور ہوں لیکن میرا عملی سیاست سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی ہوگا ۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ میں کار ِ سیاست کو گناہ سمجھتا ہوں بلکہ میرا ذاتی ذوق اور میلان اس طرف نہیں ہے ۔ بقول شاعر ِ مشرق
غواص تو فطرت نے بنایا ہے مجھے بھی
لیکن مجھے اعماق ِ سیاست سے پر ہیز
آج یہ چاہتا ہوں کہ دوستوں کے ساتھ مروجہ سیاسی کلچر پر بات کروں ۔ میری باتوں سے آپ کو اختلاف کا حق ہے لیکن اتنا حق مجھے ضرور دیں کہ جو کچھ میں محسوس کرتا ہوں اسے بیان کر دوں ۔ امید ہے کہ آپ مجھے برداشت کریں گے ۔
پہلی بات یہ ہے کہ مروجہ سیاسی جدوجہد کوئی دینی معرکہ ہر گز نہیں ہے چہ جائیکہ ہم اسے معرکہ ُ کربلا کا نام دیدیں ۔ یہ خالصتاً ایک سیاسی عمل ہے ۔ آج نہ تو کوئی یزید ہے اور نہ ہی کوئی امام حسین علیہ السلام جیسا کوئی کردار معاشرے میں نظر آتا ہے ۔ آج ہمیں سوشل میڈیا پر آزادی حاصل ہے اور تحریر و تقریر کی بھی آزادی حاصل ہے کہ ہم حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لے سکتے ہیں ۔ پھر ہر حکمران انتخابی عمل کے ذریعے حکمرانی کے منصب پر فائز ہوتا ہے ۔ آپ کو انتخابی عمل کی شفافیت پر اعتراضات ہو سکتے ہیں اور اس کو شفاف بنانے کیلئے آواز بھی اٹھائی جا سکتی ہے لیکن ہم خوشدلی سے انتخابی نتائج کو قبول کبھی بھی نہیں کرتے ۔ اگر ہار جائیں تو جیتنے والوں پر دھاندلی کا الزام اگر جیت جائیں تو ہم خود اس الزام کی زد پر ہوتے ہیں ۔
دوسری بات جمہوری حکومت کو غیر جمہوری انداز سے ختم کرنے کی تائید نہیں کی جا سکتی نہ ہی کار ِ حکومت میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کردار اور اس کے نتیجے میں مارشل لا کا جواز تلاش کرنا درست ہے ۔ فوج ہماری محسن اور ہمارا وقار ہے لیکن اس کا کردار ملکی دفاع تک ہی بنتا ہے ،البتہ اس حوالے سے یہ ضروری ہے فوجی قیادت اور سول حکمرانوں میں مکمل ہم آہنگی ہو ۔ اس ملک نے اس رسہ کشی کو بھی بہت بھگت لیا ۔ اب یہ معاملہ ختم ہونا چاہئے ۔
تیسری بات جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ شرعی اعتبار سے اس کا صرف ایک ہی جواز ہے کہ حکمران سے کفر بواح کا صدور ہو یعنی ایسا کھلا کفر جس کی کوئی تاویل ممکن ہی نہ ہو ۔ یہ مسلح بغاوت نہ تو عوام کے لئے جائز ہے اور نہ ہی فوج کیلئے ۔ ہاں منتخب حکمران اگر قانون کی زد میں آتا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی ضرور کرنی چاہئے اور اسکی غلط پالیسیوں اور مظالم کے خلاف پر امن احتجاج بھی کیا جا سکتا ہے ۔ اس کا مقصد البتہ حصول ِ انصاف اور حکمرانوں کی اصلاح ہونا چاہئے نہ کہ حصول ِ اقتدار ۔
چوتھی اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں کی بھڑاس نکالنے کیلئے مخالف جماعت کے وابستگان کی تضحیک کرنے سے نہیں رکتے بلکہ سیاسی قائدین کو برے القابات سے پکارتے ہیں ۔ اس میں کوئی جماعت بھی دوسری سے کم نہیں ہے ۔ شاید ہم یہ گناہ نا دانستگی میں کر بیٹھتے ہیں یا اس کا اپنا حق خیال کرتے ہیں یا اس گناہ بے لذت کو بہت ہلکا سمجھتے ہیں ۔ اس حوالے سے سورہ حجرات میں باری تعالیٰ نے جو ہدایات ہمارے لئے ارشاد فرمائی ہیں انہیں سمجھنا چاہئے ۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُـوْنُـوْا خَيْـرًا مِّنْـهُـمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْـرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ (11)

اے ایمان والو! ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھہ نہ کرے عجب نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے ٹھٹھہ کریں کچھ بعید نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو، فسق کے نام لینے ایمان لانے کے بعد بہت برے ہیں، اور جو باز نہ آئیں سو وہی ظالم ہیں۔
پانچویں بات ہمیں بدگمانی سے بچنے کی واضح ہدایت کی گئی ہے لیکن ہمارا آغاز ہی بدگمانی سے ہوتا ہے ۔ ادھر قرآن بعض بد گمانیوں کو گناہ کہہ رہا ہے ۔ ہم جھٹ سے اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں بد گمان ہو جاتے ہیں اور اسی بد گمانی کے عالم میں نہ جانے اسے کیا سے کیا بنا دیتے ہیں حالانکہ محض سیاسی اختلاف کوئی ایسی بات نہیں کہ اسے بدگمانی کا جواز بنایا جا سکے ۔ ہاں حکمران کے خلاف اگر آپ کے پاس ثبوت ہوں تو آپ قانونی کارروائی بھی کر سکتے ہیں ، تنقید و احتجاج کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں لیکن محض سیاسی اختلاف کی بنا پر بد گمانی کرنا مومن کے شایان ِ شان نہیں ہے ۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْـرًا مِّنَ الظَّنِّۖ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْـمٌ ۖ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْـمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ تَوَّابٌ رَّحِـيْـمٌ (12)

Advertisements
julia rana solicitors

اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو، کیوں کہ بعض گمان تو گناہ ہیں، اور ٹٹول بھی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے ۔
چھٹی بات یہ ہے کہ ڈس انفارمیشن ہم سب کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے ۔ ایک بات کو بلا تحقیق آگے چلا دینا بہت سے فسادات کو جنم دے سکتا ہے ۔ اس لئے قرآن نے اس سے روکدیا ہے ۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیں ۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُـوٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَـةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْـتُـمْ نَادِمِيْنَ (6)
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔
ساتویں بات یہ ہے کہ ہمارا فریضہ بہر حال دو گروہوں یعنی جماعتوں کے درمیان جھگڑوں کا ایندھن بننا ہی نہیں ہے بلکہ ہمیں اللہ رب العزت یہ بھی حکم دیتا ہے کہ دو مسلمانوں میں اگر جھگڑا ہو جائے تو ان کے مابین صلح کروا دیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ صلح وہی کروا سکیں گے جو غیر جانبدار ہوں گے ۔ باہمی تنازعات کے تصفیہ کیلئے ثالث اسے ہی مقرر کیا جاتا ہے جو جانبدار نہ ہو ۔ لہٰذا ہمارے اندر کچھ افراد ایسے ضرور رہیں جو صلح جو ہوں اور انکے وجود سے خیر خواہی اور اصلاح کے چشمے پھوٹیں ۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُـوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُـوْنَ (10)
بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سو اپنے بھائیوں میں صلح کرادو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اس سے پہلی آیت میں صلح کروانے والے کیلئے بھی احکام ہیں ۔ ضروری ہے کہ ان پر بھی نگاہ ڈال لی جائے ۔
وَاِنْ طَـآئِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَـهُمَا ۖ فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىْ تَبْغِىْ حَتّـٰى تَفِيٓءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّـٰهِ ۚ فَاِنْ فَـآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَـهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۖ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ (9)
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرادو، پس اگر ایک ان میں دوسرے پر ظلم کرے تو اس سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے، پھر اگر وہ رجوع کرے تو ان دونوں میں انصاف سے صلح کرادو اورانصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
آٹھویں بات یہ ہے کہ یہ انسانی کمزوری ہے کہ ہمیں جس سے محبت ہو جاتی ہے اس کی برائی بھی خوبی نظر آتی ہے اور جس سے عداوت ہو جائے اس کی خوبیاں بھی عیوب نظر آتی ہیں . یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے محبوب کی خطا کا پہاڑ بھی ریزہ نظر آتا ہے جبکہ مخالف کی بال برابر غلطی بھی شہتیر کی طرح نظر آ تی ہے ۔ ہمیں اس کمزوری کو دور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اللہ رب العزت بہر حال ہمیں راہ ِ عدل پر چلتے دیکھنا چاہتا ہے . ارشاد باری تعالیٰ ہے .
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُـوْنُـوْا قَوَّامِيْنَ لِلّـٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعْدِلُوْا ۚ اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (8)
اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے .
اس آیت کے مخاطبین بطور خاص منصب عدالت پر بیٹھے ہوئے لوگ ہیں اور عمومی خطاب میں ہم سب شامل ہیں جو محبت میں اس قدر غلو کے عادی ہو چکے ہیں کہ راہ ِ عدل ہم سے چھوٹ جاتی ہے .
نویں بات یہ ہے کہ کسی فرد یا جماعت کے ساتھ ہماری وابستگی اور تعاون و تناصر کیلئے ہمارا ایک ہی اصول ہونا چاہئے کہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کیا جائے اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کیا جائے . کسی کے ساتھ علی الاطلاق تعاون یا عدم تعاون کا کوئی جواز نہیں ہے . اس کا اطلاق حزب ِ اختلاف پر بطور خاص اور ہم سب پر بطور عام ہوتا ہے ۔
دسویں بات یہ ہے کہ مخالفت یا عداوت میں بھی اللہ رب العزت نے زیادتی کرنے سے منع فرمایا ہے . زیادتی کا مطلب یہ ہے کہ بدلے اور انتقام میں اسی حد تک جایا جائے جس حد تک آپ کے ساتھ برا کیا گیا . اگر آپ اس سے بڑھتے ہیں تو یہ زیادتی ہو گی ۔ نویں اور دسویں بات کے بارے میں احکام سورہ المائدہ کی درج ذیل ایک ہی آیت میں موجود ہیں .
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے .
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّـٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْـهَدْىَ وَلَا الْقَلَآئِدَ وَلَآ آمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّـهِـمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَاِذَا حَلَلْتُـمْ فَاصْطَادُوْا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ۘ وَتَعَاوَنُـوْا عَلَى الْبِـرِّ وَالتَّقْوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْـمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ (2)
اے ایمان والو! اللہ کی نشانیوں کو (بے حرمتی والے کاموں کے لیے) حلال نہ سمجھو اور نہ حرمت والے مہینے کو اور نہ حرم میں قربان ہونے والے جانور کو اور نہ ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ حرمت والے گھر کی طرف آنے والوں کو جو اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی ڈھونڈتے ہیں، اور جب تم احرام کھول دو پھر شکار کرو، اور تمہیں اس قوم کی دشمنی جو کہ تمہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو، اور آپس میں نیک کام اور پرہیزگاری پر مدد کرو، اور گناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
میں نے کوشش کی ہے کہ ” تلک عشرة کاملہ “کا مصداق ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دوں جو براہ راست احکام الہٰی سے ماخوذ ہو ۔ دعا گو ہوں کہ ہم سب اسے سمجھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں ۔

Facebook Comments

محمدخلیل الرحمن
بندہ دین کا ایک طالب علم ہے اور اسی حیثیت میں کچھ نہ کچھ لکھتا پڑھتا رہتا رہا ہے ۔ ایک ماہنامہ کا مدیر اعلیٰ ہے جس کا نام سوئے حجاز ہے ۔ یہ گذشتہ بائیس سال سے لاہور سے شائع ہو رہا ہے ۔ جامعہ اسلامیہ لاہور کا ناظم اعلیٰ ہے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا ممبر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply