ٹارگٹ کلنگ

میری بیگم کئی دن سے مجھ سے شکایت کر رہی تھیں کہ گھر کا کچرا دان روز گرا ہوا اور کوڑا صحن میں بکھرا ہوا پایا جاتا ہے۔ ایک دفعہ آدھی رات کو اچانک میری آنکھ کھلی تو کھٹر پٹر کی آواز کا دبے پاؤں پیچھا کرتا ہوا صحن میں تشریف لایا تو دیکھا، تین مسٹنڈے قسم کے چوہے کچرا دان کو الٹا کر دعوت اڑا رہے تھے۔ میں ان کی آمد و جامد کے رستے کی کھوج کے ساتھ حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لینے لگا کہ اچانک مجھے ایک ترکیب سوجھی اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جیسے ہی میں پلٹا تو کیا دیکھتا ہوں، ایک صحت مند عورت جس کی بیچ کی مانگ نکلی ہوئی، کندھے تک کھلے بال اور کچھ منہ پر گرے ہوئے تھے، کھڑی تھی۔ ڈر کے مارے تو میری چیخ ہی نکل گئی، اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ سورتیں پڑھنے کے لئے منہ کھولا تو حلق ہی خشک پڑا تھا۔ بڑی مشکل سے تھوک نگلا.
” یہ آدھی رات کو آپ کیا کر رہے ہیں ؟”
آواز کچھ مانوس سی لگی تو ہوش ٹھکانے آنے لگے، اپنے آپ کوسنبھالتے ہوئے فوری سوال داغا
” یہ کیا تم میری جاسوسی کرتی پھر رہی ہو اور اتنی خاموشی سے میرے پیچھے آکر کھڑے ہونے کو کس نے کہا ؟؟؟ جاؤ جاکر اپنے بال باندھو اور مجھے ایک گلاس پانی پلاؤ، آئندہ انسانوں والا حلیہ بنا کر لیٹا کرو”۔

اتنی دیر میں معاملے کی نوعیت کو بھانپتے ہوئے تینوں چوہے وہاں سے رفو چکر ہو کر صحن میں موجود نکاسی کی نالی میں داخل ہوگئے۔ اب بندہ اس ڈراؤنے واقعے کے بعد چوہوں پر توجہ دے یا اپنا بلڈ پریشر کنٹرول کرے۔ خیر۔۔۔۔ بیگم نے پانی پیش کیا جسے ایک ہی سانس میں غٹک لیا، پھر صحن کی بتی بجھائی اور سونے چلا گیا. ایک آدھ بار پھر چوہے نظر آئے تو میں نے مؤدبانہ انداز میں انھیں متنبہ کیا کہ آئندہ اس گھر کا رخ نہ کریں ورنہ انجام برا ہوگا۔ یہ تنبیہ اس لئے کی کہ انسانیت کے نام پر سالہا سال سے چورن بیچنے والے اس کہانی کو پڑھ کر مجھے یہ نہ کہیں کہ ” وہ تو جانور تھے آپ کی انسانیت کو کیا ہوگیا تھا”۔
عید کے پہلے دن، رات دیر گئے، پھوپھی کے گھر دعوت سے واپسی کے بعد جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے تو صحن کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ آج گھر میں عید ملن پارٹی ہوئی ہے مگر اس بار چوہوں کا تعاقب کرنے کے بجائے پیچھے کھڑی بیگم کو پہلے دیکھا، کیوں کہ گزشتہ روز کا واقعہ کچھ اچھا نہ تھا. نہا دھو کر کپڑے بدلے، بچوں کو سلایا. جب سب سو گئے تو میں کتاب پڑھنے کے لئے مہمان خانے آکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد میرا بیٹا بھی اٹھ کر میرے پاس آگیا اور کہنے لگا کہ بابا مجھے نیند نہیں آرہی ہے مجھ سے باتیں کریں۔ کچھ دیر بعد، بیٹے نے فرمائش کی کہ:، بابا” اسپارٹن 300 مووی” دیکھتے ہیں۔

ہم دونوں فلم دیکھ ہی رہے تھے کہ آدھی فلم کے دوران پھر سے کھٹرپٹر کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ میں نے بیٹے سے کہا:
چل بیٹا۔۔۔۔۔آپریشن کلین اپ کی تیاری پکڑ لے۔ آج یہ چوہے جانے نہ پائیں.
بیٹا میرا فوراً تیار ہوگیا۔ سب سے پہلے میں نے صحن میں موجود نالی کا منہ بند کیا، پھر ہاتھ میں بلا اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور ایک زور دار آواز لگا کر بیگم کو کہا:
چوہوں کو مار رہا ہوں اس لئے دروازہ بند کر رہا ہوں اگر باہر آنا تو آواز لگا کر آنا، خاموشی سے نہیں۔
اتنی دیر میں، میرے بیٹے نے اپنے ہاتھوں میں جھاڑوں تھام لی۔ وہ جھاڑو کچھ اس انداز سے پکڑے ہوئے تھا جیسے تھنڈر کیٹ میں ہیرو لاین نو مقابلے کے دوران اپنے ہاتھوں میں تلوار پکڑے ہوئے ہوتا تھا.
بیٹا اس جھاڑو سے چوہے مرنے والے نہیں، میں نے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
بابا۔۔۔۔ میں جھاڑو سے کونے کھدروں میں چھپے چوہے کو آپ کی طرف بھگاؤں گا آپ انھیں ماریے گا۔ ۔۔وہ بہت پر عزم انداز میں بولا۔
ہم نے پلاننگ کے بعد اپنی اپنی جگہ سنبھال لی۔ بیٹے نے ایک چوہے کو دیکھ لیا اور اسے جھاڑو سے میری طرف بھگانے کے لئے تگ و دو کرنے لگا۔ چوہا جیسے ہی میری طرف بھاگتا ہوا آیا تو مجھے لگا جیسے اس کے چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں نمودار ہوگئی ہوں اور وہ ربن کا کالا چشمہ لگائے میری طرف حملے کے لئے بڑھ رہا ہو۔ اس سمے وہ مجھے عدالت عظمیٰ اسپارٹا کا پیشکار یودھا جیسا معلوم ہواجو وقت پڑنے پر سپاہی بھی بن جاتا ہے۔ میں نے ہوا میں بلا بلند کر کے اپنا بھرپور وار کیا مگر وہ کسی ماہر جنگجو کی طرح مجھے چکما دے کر دوسری جانب ہو لیا اور میرا وار خالی گیا. میں اس کے پیچھے بھاگا اور پھر ایک اور وار کیا۔
چوں چوں چوں کی آواز کے ساتھ چوہا وہیں ڈھیر ہوگیا۔ ہم دونوں باپ بیٹے نے ایک دوسرے کو تالی مار کر خوشی کا اظہار ایسے کیا، جیسے اکھاڑے میں اترا پہلوان اپنے ساتھی کو مدد کے وقت تالی مار کر اکھاڑے میں آنے کی دعوت دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب باری تھی دوسرے چوہے کی۔ ہم نے پھر سے اپنی اپنی کمان سنبھال لی۔ دوسرا چوہا مجھے ہربو کلاس کی صورت لگا جس کی چال ڈھال بتا رہی تھی کہ یہ ماضی میں یونان کا کوئی اعلیٰ پائے کا رنڈوا و رٹھرکی بڈھا ہے۔ جس کا تعلق اسپارٹا کی لیٹریچر کیٹی سے ہے۔ اس چوہے نے ہمیں کسی ماہر سینا پتی کی طرح بڑا پدایا۔ کافی بھاگ دوڑ کے بعد آخر کار ہم نے ہربوکلاس کو اس کے زیوس دیوتا کے پاس بھیج دیا۔
اب ہم نے تیسرے چوہے کی تلاش شروع کردی تو میرے بیٹے نے کہا:
بابا۔۔۔۔ آپ نے دو چوہے مار دیے ہیں تیسرا میں ماروں گا.
میں نے جواب دیا:۔۔۔ بیٹا یہ چوہا آپ سے نہیں مرے گا۔
اسی اثنا میں وہ چوہا میرے سامنے اچانک نمودار ہوا اور دوسری طرف رکھی میز کے نیچے جا گھسا. میں فوراً دوزانوں ہو کر اسے دیکھنے لگا اور بیٹے کو کہا،
اگر تم نے چوہے کو مارنا ہے تو جلدی سے ادھر آجاؤ۔
مگر بیٹے نے میری دوسری آواز پر بھی کوئی جواب نہ دیا تو میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ بھی اپنی جگہ سے غائب تھا۔ میں نے پھر اسے آواز دی:
کہاں چلے گئے؟ جلدی سے ادھر آؤ۔
وہ کمرے سے بھاگتا اور شور مچاتا ہوا میری طرف آیا اور اپنے ہاتھ میں پہنی ہوئی بین ٹین (Ben10) کی گھڑی پر زور سے ہاتھ مار کر بولا:
میں بین ٹین بن گیا، اب اس چوہے کو نہیں چھوڑوں گا۔
چرچر ٹائپ ایک نئی آواز نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔۔۔ دیکھا تو اسی میز کے نیچے سے ایک چھچھوندر نکلی، تیسرا چوہا جو مجھے سپارٹا کونسل کا سربراہ لیوناڈیس لگا اس کے پیچھے اپنی جان بچانے کی خاطر ساتھ ساتھ لگ کر بھاگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج کل ہمارے ادباء اپنے مفادات کو دوام بخشنے کی خاطر خواتین کا سہارا لے کر خود کو مخالفین سے محفوظ رہنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
میں نے جب اس چوہے کی یہ حرکت دیکھی تو بیٹے سے کہا
اسے ایسے ٹھکانے لگانا کہ اس کی نسلیں کبھی بھی میدان سے بھاگنے کے لئے چھچھوندر کا سہارا نہ لے سکیں۔
بیٹے نے کہا۔۔۔۔ بابا! پھر ان دونوں کو جانے دیں تاکہ یہ شادی کرلیں بعد میں ہم انہیں ماریں دیں گے۔
اچھا ۔۔۔ اچھا یار۔۔۔۔ جلدی مار، باتیں نہ کر۔
اس شور شرابے میں بیگم بھی کمرے سے باہر نکل آئیں۔
کیا ہوا۔۔۔ ابھی تک چوہے نہیں مرے، آپ لوگوں نے آدھی رات کو کیا ہنگامہ مچا رکھا ہے؟
ہم دونوں نے ان کی بات کو یکسر نظر انداز کیا اور میں نے جیسے ہی گملے کے پیچھے جھاڑو ڈالی، چوہا باہر آگیا۔ میرا بیٹا جو لاین نو کی تلوار کی طرح بلا پکڑے کھڑا ہوا تھا، ایسا زوردار وار کیا کہ اس بار چوہے کی چوں چوں کی بھی آواز سنائی نہ دی۔
اس خوشی میں، میرے بیٹے نے بلا ایک طرف پھینکا اور شاہد آفریدی کی طرح دونوں ہاتھوں کو ہوا میں بلند کر کے فتح یاب ہونے کا اعلان کیا۔ میں نے بھی جھاڑو پھینک کر اسے پھر سے تالی جڑ دی۔
بیگم نے بھی دیکھا کہ ہم نے تین تین چوہے مار دیے۔ وہ بھی ہمیں داد دینے لگیں مگر ہمیں پھر سے چھچھوندر کی چر چر آواز نے اپنی جانب متوجہ کیا اور ہم دونوں نے دوبارہ اپنے اپنے ہتھیار سنبھال لئے۔
اس بیچاری کا کیا قصور ؟ وہ تو ویسے ہی اندھی ہوتی ہے، اس کو جانے دیں.اس نے چوہوں کو تھوڑی کہا تھا کہ اس گھر میں میرے پیچھے پیچھے آؤ۔
ہائے ۔۔۔۔۔ یہ درد اور اس پر بیگم کے اس فیمنز م نے ہم دونوں کو ان کی جانب، حیرت سے دیکھنے پر مجبور کردیا۔

Facebook Comments

فیصل جوش
اپنی جیسی کا ایک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply