• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اقتدار کا میوزیکل چیئر کھیل، تیسرا کھلاڑی جیت گیا۔۔۔۔عرفان علی

اقتدار کا میوزیکل چیئر کھیل، تیسرا کھلاڑی جیت گیا۔۔۔۔عرفان علی

پاکستان میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی نئی مدت کے اراکین کو منتخب کرنے کے لئے عام انتخابات کا انعقاد بدھ 25 جولائی 2018ء کو ہوا۔ رائے دہندگان کی رائے کو مدنظر رکھا جائے تو رجحان یہ پایا جاتا ہے کہ اس مرتبہ مرکزی حکومت کے لئے نئے کھلاڑی کو موقع دیا گیا ہے۔ اقتدار کی میوزیکل چیئر کا جو کھیل دو بڑی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ نواز المعروف نون لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی المعروف پی پی پی تک محدود تھا، اب اس میں تیسری جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف عرف پی ٹی آئی پہلے نمبر پر آکر ان دونوں کو بیک وقت پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ سب سے پہلے تو اس نکتے پر توجہ مرکوز کی جائے کہ امریکہ، بھارت اور برطانیہ کے بعض ذرایع ابلاغ نے ان عام انتخابات کی شفافیت پر شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی اور پاکستان آرمی، انٹیلی جنس اداروں یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو اوور اسٹیٹ کرنے کی کوشش کی۔

امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات 2018ء میں بھی بالکل اسی طریقہ کار یا رولز آف گیم کے تحت منعقد ہوئے جیسا 2013ء، 2008ء، 2002ء، یا اس سے قبل 1988ء تک عام انتخابات تھے۔ یعنی یہ کہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف زرداری اور انکے نامزد کردہ مرکزی حکومتی عہدیدار بھی بالکل اسی طرح ہی منتخب ہوا کرتے تھے، جیسا کہ 2018ء میں دیگر منتخب ہوئے ہیں۔ اداروں کے کردار کے لحاظ سے عام انتخابات میں کوئی نیا پن کہیں سے بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ اس لئے نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، بی بی سی و بھارتی میڈیا کو ٹینشن نہیں لینی چاہئے اور نواز جس طرح 1990ء سے 2013ء تک جیتتے آئے ہیں، اس کو مدنظر رکھ کر مدعی سست گواہ چست کا کردار ادا نہیں کرنا چاہئے، یہ ہم پاکستانیوں کا داخلی معاملہ ہے۔

میری نظر میں انتخابات یا الیکشن آرٹ آف منیجمنٹ ہوا کرتے ہیں۔ جو جتنی زیادہ اچھی منیجمنٹ کرے گا، وہ اتنا زیادہ کامیاب ہوگا۔ جہاں ملکی و غیر ملکی ادارے انتخابات پر قبل از انتخابات نگاہ رکھتے ہیں، ممکنہ نتائج مرتب کرتے ہیں اور وہ علل و اسباب معلوم کر لیتے ہیں کہ جن کی بنیاد پر کوئی جماعت کہیں سے جیت اور کہیں سے ہار سکتی ہے۔ یہ شعبہ بھی سب کے لئے کھلا ہے اور ہر کوئی انتخابی حلقوں میں سروے کرکے رجحانات کو معلوم کرسکتا ہے کہ کون کون سے عوامل رائے دہندگان کی نظر میں اہمیت کے حامل ہیں۔ ادارے بھی یہ سب کچھ معلوم کرکے اس کی بنیاد پر ہی کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں، علم غیب ان کے پاس بھی نہیں۔ اگر اداروں میں ایماندار شخصیات ہوں اور یہ کام ایمانداری سے انجام پائے تو انکے پاس درست معلومات کی بنیاد پر امکانی منظر نامہ واضح ہو جاتا ہے، لیکن اگر کام ایمانداری سے نہ کیا جائے اور ذاتی پسند و ناپسند یا زمینی حقائق معلوم کئے بغیر مفروضوں پر نتیجہ گیری کرلی جائے تو پھر مشرقی پاکستان کے بحران پر سابق جنرل کمال متین الدین کی کتاب ٹریجڈی آف ایررز سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کیا ہوتا ہے؟ سینیئر صحافی ناصر بیگ چغتائی نے حال ہی میں اس کتاب سے چند سطریں نقل کی تھیں کہ 1970ء کے عام انتخابات کے بارے میں قبل از انتخابات پاکستان کے مایہ ناز ادارے نے جو رپورٹ دی تھی، اس کا لب لباب یہ تھا کہ کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکتی، لیکن یہ غلط رپورٹنگ تھی اور شیخ مجیب کی عوامی لیگ تنہا اکثریت سے جیت گئی!

بات ہو رہی تھی منیجمنٹ کی۔ فرض کر لیں کہ وہ ادارہ جس کو سابق وزیراعظم نواز شریف خلائی مخلوق کہہ رہے تھے، اس نے عام انتخابات کو منیج کرنے کا کوئی پروگرام بنا رکھا تھا تو کیا ایسا پہلی مرتبہ کیا گیا؟ نواز شریف 2013ء میں خود کیسے برسر اقتدار آئے یا 1988ء سے وہ خود اس قابل تھے کہ اپنے سیاسی کردار کو منیج کرتے رہے تھے۔؟ سابق جنرل حمید گل مرحوم نے آئی جے آئی بنوائی یا سابق جنرل اسد درانی کے توسط سے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم ہوئی، یہ سب کیا تھا؟ عام انتخابات 2018ء میں عمران خان کی پی ٹی آئی پہلے نمبر کی بڑی پارلیمانی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے جبکہ عمران خان نے جیو نیوز چینل کے ٹاک شو ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں حامد میر کو بتایا تھا کہ 2013ء میں آرمی نواز شریف کو اقتدار میں لائی اور بریگیڈیئر رانجھا نے پنجاب میں نون لیگ کو جتوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔(1)۔ صوبہ سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی والے ماضی میں اس نعرے سے مانوس تھے، اوپر خدا نیچے ہدیٰ۔ یہ بریگیڈیئر طارق ہدیٰ تھے جنہیں سندھ کا ڈی فیکٹو وزی اعلیٰ کہا جاتا تھا۔(2)۔ نون لیگ اور اسکی قیادت خود بھی تو دیکھئے کہ خلائی مخلوق سے مدتوں بہرہ مند ہونے کے بعد کیا اسے یہ زیب دیتا ہے کہ وہ احسان فراموشی کرے؟!

چند اور نکات پر توجہ فرمائیں ۔ عام انتخابات 2018ء میں شمالی و جنوبی وزیرستان سے پشتون تحفظ موومنٹ کے دو امیدوار اراکین قومی اسمبلی بننے کی اطلاعات ہیں، کیا یہ گروہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست نہیں کر رہا، کیا انہوں نے الزامات نہیں لگائے؟ اس کے باوجود جیت گئے، کیوں؟ چلئے چوہدری نثار صاحب کی مثال لیجیے، وہ ہار گئے، کیوں؟ وہ تو پاک فوج کا بھرپور دفاع کر رہے تھے، انہیں کیوں نہیں جتوا دیا؟ اسکے لئے آپکو یہ سمجھنا ہوگا کہ انتخابی مقابلے منیجمنٹ کا ہنر بھی ہیں۔ آپ حلقے کے زیادہ سے زیادہ رائے دہندگان میں مقبولیت حاصل کریں۔ انکی خوشی و غم میں انکے ساتھ رہیں۔ انکی مشکلات برطرف کرنے میں مدد کریں، ان کے مسائل حل کریں۔ پھر عام انتخابات سے پہلے کی ممکنہ دھاندلی کی کوششوں کو ناکام بنائیں۔ رابطہ مہم کے ذریعے در در جا کر ووٹ مانگیں، ملاقاتیں کریں، انہیں ووٹ کاسٹ کرنے پر آمادہ کریں کہ وہ ہر صورت پولنگ اسٹیشن جائیں اور ووٹ ڈالیں۔

الیکشن کے دن ہر پولنگ اسٹیشن و بوتھ پر اپنے ایجنٹ تعینات کریں، رائے دہندگان کی رہنمائی کے لئے قریب ترین جگہ پر کیمپ قائم کریں اور انہیں ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار سمجھا کر پولنگ اسٹیشن تک پہنچائیں۔ وہاں پولنگ ایجنٹ جعلی ووٹ پر نظر رکھے، ووٹوں کی گنتی اپنے سامنے کروائے، متعلقہ انتخابی افسر سے درستخط شدہ فہرست لے کر امیدوار تک پہنچے اور وہ ساری پولنگ کے نتائج کو اسی طرح مرتب کرے۔ انتظامیہ بشمول پولیس کی غیر جانبداری بھی یقینی بنائے۔ اگر آپ اسی حلقے کے رہائشی ہیں تو پولیس کے حکام سے ویسے ہی پورے پانچ سال ہی رابطہ رہتا ہے تو یہ سب کچھ ویسے ہی ماحول کو آپ کے حق میں کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ منیجمنٹ کی کمزوری سے کسی کا لاڈلا بھی ہار جاتا ہے اور منیجمنٹ کی مہارت سے انکو ناپسند ٹولہ بھی جیت ہی جاتا ہے۔ ہر انتخابات کا سبق یہی ہوتا ہے۔

عمران خان 2013ء کی وہ بات 2018ء میں بتا رہے ہیں جبکہ آصف زرداری نے 2013ء کے عام انتخابات کو آر اوز کا الیکشن قرار دیا تھا، آر اوز یعنی ریٹرننگ افسران! بعد میں اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی کسی اور کو دی اور بعد ازاں اپنے بیان میں تبدیلی کر دی کہ نہیں یہ بات تو تحریک انصاف کے لئے کہی تھی! نواز شریف لندن میں تھے، ملتان سے ان کی جماعت کے امیدوار کے ساتھ بدسلوکی ہوئی، نواز شریف نے لندن میں میڈیا ٹاک میں ایک ادارے کا نام لے لیا کہ اس نے یہ حرکت کی، لیکن دوسرے دن انکی جماعت کے وہی امیدوار کہہ رہے تھے کہ محکمہ زراعت نے انکے خلاف قدم اٹھایا تھا، نواز شریف صاحب کے بیان کی کیا ساکھ رہ گئی۔؟ سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب جنرل حمید گل نے عمران خان پر شفقت کا ہاتھ رکھا تھا، تب نواز شریف ہی انکا لاڈلا تھا۔ اگر سب کچھ خلائی مخلوق کے بس میں ہوتا اور آناً فاناً جیسا چاہتے کر گذرتے تو جنرل حمید گل یا انکی باقیات پاکستان تحریک انصاف کے بنتے ہی عمران خان کو اقتدار میں لے آتے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی 1970ء کے عام انتخابات میں دوسری بڑی جماعت تھی اور مغربی پاکستان سے اکثریت اسکے پاس تھی۔ اس جماعت نے تو دیکھتے ہی دیکھتے اتنی شاندار کامیابی حاصل کرلی تھی، حالانکہ بھٹو نے جنرل ایوب خان کے خلاف اپنی الگ سیاسی جماعت بنائی تھی اور جنرل ایوب اس وقت اتنے طاقتور تھے کہ مادر ملت فاطمہ جناح کے خلاف بھی دھاندلی سے صدارتی انتخاب جیت چکے تھے اور اقتدار کی مسند پر انکا جانشین بھی کوئی سویلین نہیں بلکہ ایک وردی والا جنرل یحیٰ ہی براجمان تھا۔ حضور! حقیقت کی دنیا میں آئیں۔ آئی جے آئی یعنی لاڈلوں کا اتحاد، بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم بننے سے نہیں روک سکا تھا۔ سابق جنرل پرویز مشرف بھی نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کو ایک وقت تک ہی روک پائے تھے اور جب اقتدار کے اس کھیل کا اگلا مرحلہ شروع ہوا تو پرویز مشرف ایوان صدر سے بھی نکالے گئے اور آج تک سرگردان ہیں۔ کبھی دبئی تو کبھی لندن۔ کہاں گئی خلائی مخلوق۔؟

پرویز مشرف کی جرنیلی حکومت کے دور میں پنجاب کے ایک سینیئر صحافی و تجزیہ نگار نے گلیات میں اس ناچیز سے ملکی حالات پر تبادلہ خیال کیا تو انکی رائے یہ تھی کہ کب تک پاکستان نون لیگ اور پی پی پی سے تعلق رکھنے والے بدعنوان حکمرانوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ کا ذریعہ بنا رہے، بہتر ہوگا کہ ہم کسی بہتر متبادل کا سوچیں، کوئی تیسری سیاسی قوت اور انہوں نے مجھے بتایا کہ پنجاب کا متوسط طبقہ اس خلاء کو عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کے ذریعے پر کرنا چاہتا ہے۔ ہماری اس گفتگو کے بعد 2008ء میں عام انتخابات ہوئے، لیکن چونکہ سانحہ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا تو ہمدردی کے ووٹ پی پی پی کے حصے میں آئے اور پورے پانچ سال مکمل سویلین اقتدار اور 2013ء میں یہ اقتدار نواز شریف کی نون لیگ کو ملا اور اب عمران خان نے تین عشروں پر محیط اقتدار کے اس میوزیکل چیئر کھیل کے پچھلے دو فریقوں کو حیران و پریشان کر دیا ہے کہ اب کرسی پر وہ بیٹھ گئے ہیں اور دونوں پرانے حریف کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ اگر صوبہ خیبر پختونخوا نے ایک اور مرتبہ پاکستان تحریک انصاف کو بھاری مینڈیٹ دے دیا تو یہ بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ عمران خان اور اسکی صوبائی حکومت کے خلاف جتنے بھی الزامات لگائے، عوام نے ان پر کان نہیں دھرے، پنجاب میں بھی یہ الزامات نظر انداز کر دیئے گئے۔

بلاول بھٹو زرداری کا مالاکنڈ سے ہار جانا کوئی بڑٖی خبر نہیں، لیکن لیاری سے بدترین شکست اور ترتیب میں دوسرے کی بجائے تیسرے نمبر کے امیدوار کے طور پر ہارنا، یہ بہت واضح پیغام ہے کہ عوام کا شعور بلند ہے، وہ مسائل و مشکلات کا حل چاہتے ہیں، وہ جن کے لئے جئے جئے کے نعرے لگاتے ہیں، ان سے کسی بڑے اور مثبت کردار کی خواہش بھی رکھتے ہیں اور جب لیاری پانی سے محروم ہو، طویل ترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ہو، بے روزگاری ختم کرنے کا کوئی قدم کوئی نہ اٹھائے، گینگ وار میں بلوچ مارے جائیں، قید ہوں، کچھی بلوچ جھگڑے میں پی پی پی قیادت لاتعلق رہے، تو لیاری کا یہ فیصلہ کوئی اپ سیٹ نہیں کہلا سکتا، اگرچہ لیاری کے زمینی حقائق سے لاعلم افراد کے لئے یہ بہت بڑا اپ سیٹ ہی ہے۔ بڑی بڑی وکٹیں گرچکی ہیں۔ جیسے وہ جیتا کرتے تھے، ویسے اب کوئی اور جیت چکے ہیں اور جیسے انکے حریف ہارا کرتے تھے، بالکل اسی طرح انہیں اب شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خاص طور پر نون لیگ اب تک دوسرے نمبر کی بڑی جماعت ہے، تو نون لیگ خود ہی بتا دے کہ وہ کم از کم دوسرے نمبر کی لاڈلی جماعت اب بھی ہے اور پی پی پی تیسرے نمبر کی لاڈلی جماعت!؟ اب جو بھی الیکشن کمیشن اعلان کر دے، اسے ماننے میں ہی عافیت ہے۔

عوام تبدیلی چاہتے تھے، جو کسی حد تک آگئی ہے، لیکن واقعی تبدیلی ایک انتہائی مشکل ہدف ہے۔ عمران خان کا تازہ ترین خطاب عوام و خواص نے پسند کیا ہے، خاص طور پر کراچی کے عوام کا ایک وسیع حلقہ خوش ہے، لیکن عمران اور انکی پی ٹی آئی کو بھی آپ اندھوں میں کانا راجہ ہی سمجھیں، کیونکہ نہ تو عوام کے لئے سچویشن آئیڈیل تھی اور نہ ہی کوئی آئیڈیل چوائس۔ الیکشن صرف منیجمنٹ کا ہنر ہی نہیں بلکہ یہ بہت بڑی سرمایہ کاری کا نیازمند بھی ہے۔ ملک کے حقیقی نمایندگان یا قیادت تو اسی وقت منتخب ہوسکتی ہے، جب حقوق سے محروم عوام میں سے کوئی ان جیسا ہی، انہی جیسی زندگی گذارنے والا، انکا دکھ واقعی اپنا دکھ سمجھ کر حل کرنے والا جیت سکے اور اس مہنگے انتخابی معرکے کے لئے درکار خطیر رقم لانا ایسے پا برہنہ و ستم رسیدہ طبقے کے افراد کے بس کی بات نہیں!۔ خیر جیسی بھی ہے، اس تبدیلی کو انجوائے کرنے کا وقت ہے، موجودہ صورتحال میں اسی پر اکتفا کریں اور اگلے انتخابات میں اس سے بہتر کے لئے دعا کریں اور آئندہ اس سے بہتر کو ووٹ ڈالیں، ظاہر ہے کہ بہترین تو ہے نہیں، اس لئے جو بدترین میں کم ترین بد ہو، اسی پر گذارا کرنا مجبوری ہے۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

حوالہ جات
1۔ Army helped PML-N win 2013 elections: Imran…….by Imran Ayub May 4, 2018 Dawn
2۔ De facto Sindh CM finally transferred…The News
April 21, 2008.

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply