ROGUE POEMS ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط 37

لنڈین میں ستر کی دہائی میں ایک شعری وبا  ء  سی انگلینڈ میں 1972-74کے برسوں میں پھیلی جب میں وہاں تھا۔نگریزی میں یہ نظمیں اس قدر مقبول ہوئیں کہ ”دی گارڈین“ سمیت کئی روزانہ اخباروں
نے باقاعدگی سے اپنے میگزین سیکشن میں انہیں جگہ دینے کا چلن شروع کر دیا۔ مجھ پر نہ جانے کیا بھوت سوار ہوا کہ میں نے بھی بیس پچیس کے قریب ایسی نظمیں اردو میں لکھیں۔ یہ ان میں سے کچھ ایک ہیں۔ تلاش کر رہا ہوں، شاید باقی کی نظمیں بھی پرانی ڈائریوں میں مل جائیں۔

دُم ایک چھپکلی کی!
چھپکلی کی دُم گری تھی
فرش پر اور چھپکلی دیوار پر تھی
دُم تڑپتی رہ گئی..اور چھپکلی دیوار پر
چھت کی طرف بھاگی تو مجھ کو یوں لگا
جیسے پڑوسن حاملہ عورت ڈلیوری کے لیے
(شاید کوئی ٹیکسی پکڑنے کی غرض سے)
تیز چلتی جا رہی ہو

چھپکلی کی دُم کی جانب دیکھتا ہوں
اور خود سے پوچھتا ہوں
حاملہ عورت نے آخر دُم کہاں چھوڑی ہے اپنی؟

بیمہ زندگی کا!
کہاں تو کل تک ہمیشہ رہتی تھی، نالہ کش
مبتلائے غم، روتی دھوتی ہوئی وہ بی بی
کہاں تو کل تک”سُرڑ سُرڑ‘‘ ناک میں ہمیشہ
سرکتی رہتی تھی اور آنکھوں میں ایک سیلاب ِ آب
ہاتھوں میں اشک شوئی کے واسطے ایک چیتھڑا…
اس کا خاص حلیہ تھا!

”یہ ذات مردوں کی…
اس میں کیڑے پڑیں..“.وغیرہ
ہزار صلواۃ، لاکھ بہتان، تہمتیں
مرد ذات، بھڑؤے، کمینے، کنجر
اُگال دانوں کے پیٹ سے نکلی
کیچٖ سی گالیوں کی بوچھاڑ…!

اور کہاں اب…
یہ، چُہل، ٹٹّھا، ٹھمک ٹھمک قہقہے، لطیفے
ہنسی جو رکتی نہیں ہے روکے ہوئے بھی قطعاً
ضیافتیں، پکنکیں،بلا نوش دوست
بیئر، برانڈی، جِن، واڈکا….شرابوں کی بیس اقسام…
کیسا یہ انقلاب آیا ہے، کوئی پوچھے
یہ کل کی اس غمزدہ لُگائی سے
”اے جنابہ، بتائیے تو!“

وہ کھلکھلائی…”یہ معجزہ تو..جناب ِ من…اب تو ہو گیا ہے
مگر جب اُس نے…“ سکوڑ کر اپنی ناک اُس نے کہاتکبر سے
”….میرے ہسبنڈ نے بیمہ کی پالیسی خریدی تھی…
میں نے اس کو کہا تھا، پاگل بھی ایسے ہوتے ہیں…
لاکھ، دولاکھ پاؤنڈ کافی نہیں ہیں کیا پالیسی کی خاطر؟
مگر وہ ضد پر اڑا رہا تھا کہ پالیسی پانچ لاکھ کی
…اور حادثے میں وفات دس لاکھ کی ہی ہو گی۔“

”عجب ہونق تھا … جانتا بھی تھا اس کو مرنا ہے حادثے میں!
سمجھتا بھی تھا کہ اس کے مرنے پہ یہ رقم مجھ کو ہی ملے گی
مگر وہ ضد پر اڑا رہا….“
غمزدہ لُگائی نے، روتے روتے
(کہ ہنستے ہنستے) کہا یہ مجھ سے!

اک اُلو کا پٹھّا طوطا!
ساتویں دن تک جب وہ اپنی آنکھیں میچے
پنجرے میں ہی پڑا رہا تو میں نے پوچھا
میاں جی، مِٹھّو، کب تک ایسے پڑے رہو گے؟

مِٹھّو نے میچی آنکھوں کو کھول دیا
دھیرے سے بولا: مردہ سمجھو گے تو شاید
پنجرے کا دروازہ کھول کے
مجھ کو باہرباغ میں رکھ کر سوچو گے تم
ہوئی خلاصی اس باتونی طوطے سے اب….
میں البتہ موقع پا کر اُڑ جاؤں گا!

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹھیک ہی سمجھا تھا تم نے تو
میں پنجرے کو کھولنے آیا تھا۔۔میں بولا
تا کہ تمہارے مردہ جسم کو باہر لا کر
کھڑکی کی پّٹی پر رکھ دوں
لیکن تم کچھ سمجھ نہ پائے
پھنس گئے اُلو کے پٹھے تم!
اب باقی کی عمر یہیں پنجرے میں کاٹو!
……………………………………
(مرکزی خیال مولانا رومی سے).

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply