کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے تین سال (2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

ان کو اپنے ووٹروں سے ملنے کے اجازت نہیں ہے اور ان کے حلقوں میں یہ مشہور ہے کہ یہ افراد جموں و سرینگر کے حفاظتی علاقوں میں عیش و آرام کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ضلع کونسل کے ایک ممبر نے اس ٹیم کو بتایا کہ ٹھیکہ داروں اور افسران کے درمیان ساز باز ہے جو ان کے کاموں کی نگرانی نہیں کرنے دیتا ہے۔ جن ممبران کو سیکورٹی فراہم کی گئی ہے، وہ پولیس اور حفاظتی عملے کے ہاتھوں میں جیسے ایک کھلونا بن گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان کا اٹھنا، بیٹھنا، حرکت کرنا غرض ہر چیز حفاظتی عملے کے موڈ پر منحصر ہے۔ ان کی  ذاتی آزادی سلب کر دی گئی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد جس طرح کی گراس روٹ جمہوریت کی بنیادڈالی گئی ہے، اس نے افسر شاہی اور من مانی کو مزید تقویت بخشی ہے۔ جب معاملوں میں آئین کی رو سے صرف پنچایت کو ہی فیصلہ کرنے کا کلی طور پر اختیار ہے، وہاں بھی ان کو فیصلے نہیں کرنے دیئے جاتے ہیں۔

پنچایت کانفرنس کے چیرمین محمد شفیق میر نے اس ٹیم کو بتایا کہ 1989کے پنچایت ایکٹ کی رو سے دیہی اسٹیٹ لینڈ پنچایت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ مگر حکومت اس کو الاٹ کرتے وقت پنچایت کو خاطر میں ہی نہیں لاتی ہے۔ فی الوقت ہر پنچایت اور کونسل کے ممبر کو ایک ہزار روپے اور سرپنچ کا تین ہزار روپے کا مشاہرہ ملتا ہے، جو سرینگر اور جموں شہر میں خرچ کرنے کیلئے نہایت ہی قلیل ہے۔ ان بلدیاتی ادراوں کے ممبران کی یہ حالت ہو چکی ہے ہے کہ ان میں سے کئی نے اپنے بچو ں کو اسکولوں سے اٹھایا ہے اور وہ مزدوری یا کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان مقتدر شخصیات کے مطابق اگر بلدیاتی اداروں کے ان نمائندوں کو بے گھر کرنا اور اس حد تک مجبور بنانا تھا، تو ان انتخابات کی ہی ضرورت کیا تھی؟

مزید اس شورش زدہ خطے میں سویلین ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جس سے خوف و ہراس کے ماحول میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف انسداد دہشت گردی اور بغاوت کو کچلنے کے قوانین کا بے محالہ اور بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پریس شدید دباوٗ کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق جموں کا کورٹ بلوال قید خانہ اور سرینگرکی سینٹرل جیل اس وقت گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ ا حتیاطی حراستی قانون ہے، جس میں کسی فرد کو کسی جرم میں ملوث ہوئے بغیر ہی حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو صرف یہ بتانا پڑتا ہے کہ اس شخص کی وجہ سے امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس میں پولیس کو عدالت میں چارچ شیٹ پیش کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے اور بغیر کسی عدالتی کاروائی کے 6ماہ یا دو سال تک قید رکھا جاسکتا ہے۔ دو سال کے بعد اس دوبارہ اسی قانون کا اطلاق کرکے قید کو طوالت دی جاتی ہے۔ حال ہی میں پی ڈی پی کے لیڈر وحید پرہ کو ضمانت دیتے ہوئے، جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی قانون UNLAWFUL ACTIVITIES (PREVENTION) ACTیعنی UAPAکا استعمال ایسی سرگرمیوں کیلئے کیا جا رہا ہے، جس کیلئے یہ ڈرافٹ نہیں کیا گیا تھا۔

16دسمبر 2021کو افروزہ اور اسکی بیٹی عالیہ کو محض اس بات پر اس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا کہ ان کے علاقے میں دو ہلاکتوں کے بعد جذبات میں آکر ا نہوں نے پولیس کے سامنے نعرے بازی کی تھی۔ صحافیوں کے خلاف آئے دن مقدمات اور پوشیدہ ہاتھوں کی وجہ سے پریس شدیددباؤ کا شکار ہے۔

6جنوری 2022کو صحافی سجاد گل کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ 15جنوری کو عدالت نے ان کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات صادر کئے کیونکہ اس دوران تفتیشی ایجنسی ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں کرپائی ، مگر اگلے دن ان کو دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح آصف سلطان 2018سے جیل میں بند ہے۔ 5اپریل 2022کو انکو عدالت نے چار سال بعد ضمانت پر رہا کرنے کے آرڈر دیے۔ مگر 10اپریل کو ان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کے پھر زندان کے حوالے کیا گیا۔ اسی طرح کشمیر والا کے ایڈیٹر فہد شاہ کو 4فروری 2022کو UAPAکے تحت گرفتار کیا گیا۔ 14مارچ کو عدالت نے ان کو تین میں سے دو کیسوں میں ضمانت دی، جب وہ تیسرے کیس میں ضمانت کا انتظار کر رہے تھے، کہ 5اپریل کو ان پر بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعات لگائی گئیں تاکہ وہ جیل سے باہر نہ آسکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح 17اپریل 2022کو ایک پی ایچ ڈی اسکالر عبدل اعلیٰ فاضلی کو گرفتار کیا گیا اور بتایا گیا کہ 11سال قبل اس نے ایک ویب سائٹ کیلئے ایک مضمون The Shackles of Slavery will Break تحریر کیا تھا۔ مقتدر شخصیات نے بھارتی سپریم کورٹ سے اپیل کہ ہے کہ وہ اسی طرح ان کشمیری صحافیوں کے کیسز کا نوٹس لیں، جس طرح اس نے حال ہی میں آلٹ نیوز کے ایڈیٹر محمد زبیر کے کیس کی شنوائی کرکے اسکو رہائی دلوادی۔ مزید اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اقتصادی خوشحالی اور سرمایہ کاری آناتو دور کی بات، پچھلے تین سالوں میں جموں و کشمیر میں بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہواہے۔ کسی بھی سرمایہ کاری کیلئے سیاسی استحکام لازمی ہوتا ہے۔ جب خطے میں عدم استحکام، عوام میں خوف و ہراس اور کسی بھی وقت کچھ ہونے کا ڈر لاحق ہو، تو آخر کون سرمایہ کار ان حالات میں سرمایہ کاری کرنے کا روادار ہوگا؟ نہ معلوم کہ یہ معمولی سا نکتہ آخر دہلی کے ارباب اختیار و حل و عقد کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا ہے؟ بہتر ہوتا کہ خطے کے سیاسی حل کی طرف کوئی قدم بڑھا کرڈر اور خوف کی فضا کو ختم کیا جاتا تو سرمایہ کاری اور تجارت کیلئے بھی ایک دوستانہ ماحول فراہم ہوجاتا۔ بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply