ووٹ کس کو دیں ۔۔۔۔۔ عبدالرؤف خٹک

ہمارے ملک کے عوام کا  حال  یہ ہے کہ وہ ووٹ بھی پسند ناپسند کی بنیاد پر دیتے ہیں ، پورے ملک کی اگر مجموعی صورت حال دیکھی جائے تو پڑھے لکھوں کا حال بھی زیادہ اچھا نہیں ہے ، اس ملک میں ووٹ اگر دیا جاتا ہے تو وہ مسلک کی بنیاد پر فرقہ واریت کی بنیاد پر لسانیت کی بنیاد پر حتیٰ کہ قوم قبیلے کی بنیاد پر بھی ووٹ پڑتا ہے ، لوگ ذات برادری کو بھی ووٹ دیتے ہیں ،باقاعدہ حلف لیا جاتا ہے اس بات کا کہ ووٹ صرف اپنی  برادری کو ہی دیا جائے گا !

آپ صرف کراچی کوہی دیکھ لیں جو پورے ملک کا حب کہلاتا ہے اور سب سے بڑا شہر ہے ، یہاں آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ اردو بولنے والے ہیں ، اور یہ لوگ مجموعی طور پر اپنا ووٹ صرف اورصرف ایم کیو ایم کو ہی دیتے ہیں ،اس دفعہ یہ جماعت بھی دو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے ، لیکن ووٹ پھر بھی ان دو جماعتوں میں سے ایک ہی کا ہوگا بلکہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ لوگ اب بھی الطاف حسین کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، لیکن اب جیسا کہ الطاف حسین اس پتنگ کی ڈور سے کاٹے جاچکے ہیں ، تو اب وہ با امر مجبوری اپنا ووٹ ایم کیو ایم پاکستان کو ہی دینگے ،
اردو بولنے والوں کی اکثریت تھرڈ پارٹی کو ووٹ دینے کے لئیے تیار نہیں ، کراچی میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے ڈیرے جمائے ہوئے  ہے ہر کسی کی کوشش ہے کہ اس دفعہ بدمعاشی اور دھاندلی نہیں ہوگی ، لہذا ہر پارٹی اپنے اک نئے منشور کے ساتھ اتری ہے اور کراچی کی عوام سے یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ ہمیں بھی ایک موقع دیا جائے ۔لیکن کراچی کی غالب اکثریت جو اردو بولنے والی ہے اس کا ووٹ بینک لسانیت کی بنیاد پر ہے ، وہ اپنا ووٹ ضائع نہیں کریں گے بلکہ اپنا ووٹ پتنگ کے پلڑے میں ڈالیں گے۔

اسی طرح اندرون سندھ کی صورت حال بھی کافی واضح ہے ،یہاں جو سندھی بولنے والا طبقہ ہے اس کا جھکاؤ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی بلاول  کی طرف  ہے ،یہاں جب اندرون سندھ کے لوگوں سے ووٹ کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ووٹ تیر کا ، جب ان سے اس بابت پوچھا جائے کہ پیپلز پارٹی نے ان تین دھائیوں میں کیا کیا ہے ؟ تو جواب بڑا سیدھا سا ہوتا ہے کہ مانا کچھ بھی نہیں کیا، لیکن ہمارا ووٹ بی بی کا ہے ، اب انھیں کون سمجھائے کہ نہ بی بی رہی نہ بھٹو خاندان کا کوئی جانشین، لیکن بس یہ کہتے ہیں ہمارے بڑے بھی اسی جماعت کو ووٹ کاسٹ کرتے رہے ہیں اور ہم بھی اسی جماعت کو ووٹ دینگے، اب جہاں اندرون سندھ کی یہ حالت ہے کہ سندھی بولنے والے اکثریت صرف تیر کو ہی ووٹ دیتے نظر آتے ہیں وہیں  ان سندھیوں کے ساتھ دوسری قومیں بھی آباد ہیں ،مثلا پٹھان ،پنجابی ،بلوچی کاشمیری ،سرائیکی ، اب ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ اپنا ووٹ  برادری کی بنیاد پر  کاسٹ کرتے ہیں سندھ کی بڑی سیاسی پارٹیاں ان سے ووٹ جرگے کی شکل میں مانگتے ہیں ، یہ پارٹی کی شکل میں ان ذات برادریوں کے پاس جاتے ہیں اور ان سے ووٹ مانگتے ہیں اور جیتنے کی شکل میں ان کے معاملات حل کرنے کی یقین دہانی  کرائی جاتی ہے  ۔ سندھ میں جو قومیں اقلیت کی شکل میں ہیں وہ اپنا ووٹ اسی جماعت کو دیتی ہیں  جو ان کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کرے ،

سندھ میں اگر پڑھے لکھے طبقے کی بات کی جائے تو انھیں ایسا کوئی لیڈر ہی نظر نہیں آتا جو ان کا نجات دہندہ ہو یہ میں اس پڑھے لکھے طبقے کی بات کررہا ہوں جو واقعی پڑھا لکھا بھی ہے اور سلجھا ہوا بھی، یہ ووٹ کو امانت سمجھتے ہیں، اور قومی فریضہ بھی ، لیکن یہ  سمجھتے ہیں کہ ابھی ایسا کوئی لیڈر ہے نہیں جو اس ملک کو درپیش مسائل سے نجات دلائے ۔اور ترقی کی راہ پر گامزن کرے ، غالب اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ کہ عمران خان میں یہ جھلک ہمیں نظر آئی تھی ، ہم سمجھے تھے کہ ہمیں ایک ایسا راہنما میسر آگیا ہے جو اس ملک کو حقیقت میں پیرس اور یورپ بنا دیگا ، لیکن خان صاحب نے پانچ سال میں کے پی کے میں بجائے کام کرنے کے اپنی سیاسی توپوں کا رخ پنجاب کی طرف موڑ دیا ، اور پورے پانچ سال اسی بات پر ضائع کردئیے کہ ملک کا وزیراعظم چور ہے ۔
کے پی کے کی عوام نے اسی بنیاد پر ووٹ دیا تھا کہ ہمیں نجات چاہیے ایسے لوگوں سے جو ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوکر اپنی عیاشیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں انھیں یہ جھلک عمران خان میں نظر آئی تھی ،لیکن عمران خان نے بجائے اس صوبے کو ترقی دینے کے اپنا سارا وقت پنجاب کی سیاست پر لگا دیا ، لہذا یہ پڑھا لکھا طبقہ اپنے ووٹ کا تقدس تو سمجھتا ہے لیکن اپنا ووٹ کاسٹ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا  ہے ۔

اب بات کرتے ہیں پنجاب کی۔۔۔ پنجاب کی مجموعی صورت حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب سے آؤٹ ہوچکی ہے اور وہ صرف علاقائی پارٹی بن کر رہ گئی ہے ، مسلم لیگ ن، جو پنجاب میں اس وقت اکثریت میں نظر آتی تھی ۔اور امید یہی تھی کہ مسلم لیگ ن اس دفعہ بھی پنجاب میں کلین سویپ کرے گی ۔ لیکن اچانک سے مسلم لیگ ن، کی بھی غیبی طاقت سے ٹانگیں کھینچی جانے لگی ، سب سے پہلے تو ملک کے نامزد وزیراعظم کو اپنے عہدے سے رخصت ہونا پڑا،اس کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ آیا اور اس میں نواز شریف اس کی بیٹی اور داماد کو جیل کی سزا سنادی گئی ۔ اس کے بعد ایک مخصوص طریقے سے پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن  کو الیکشن سے دورکرنا تھا ،تاکہ ایک مخصوص جماعت کو میدان کھلا ملے اور وہ کھل کر کھیلے ، لیکن پنجاب میں اتنا آسان نہیں ہے مسلم لیگ کی وکٹ اڑانا ،اگر کوئی غیبی طاقت نہ ہوتو؟ مانا کہ ایک مخصوص طریقے سے ایک جماعت کو پنجاب میں سپورٹ کیا گیا ہے ،لیکن اتنا آسان نہیں ہوگا ایک پرانی سیاسی جماعت کو شکست دینا  ، نواز شریف اور مریم نواز کو جیل ہونے سے پنجاب کے عوام کی ہمدردیاں بھی اسی جماعت کے ساتھ ہیں  ، لہذا یہ کہنا کہ خان صاحب پنجاب کا معرکہ آسانی سے سر کرلیں گے تو یہ سوائے خام خیالی کے کچھ نہیں ۔
اب آتے ہیں کپتان کے ، کے پی کے کی طرف ،اکثریت کا خیال یہی ہیکہ خان صاحب ایک مرتبہ پھر یہاں کلین سویپ کرے گی لیکن اتنا آسان ہوگا نہیں ،یہاں متحدہ مجلس عمل ایک مرتبہ پھر شریک ہمسفر ہوگئی ہے ، اور یہاں کے پی کے میں اکثریت مذہبی طبقے کی ہے یہاں جماعت اسلامی اور فضل الرحمن گروپ کا بڑا زور ہے ۔ اور اگر یہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے لڑتے ہیں تو پھر خان صاحب کو ٹف ٹائم۔ملے گا ،اس کے علاوہ بھی یہاں شیرپاؤ گروپ کی بھی اپنی ایک اکثریت ہے ، اس کے علاوہ اس صوبے کی پرانی اکثریتی جماعت ،،،۔عوامی نیشنل پارٹی وہ بھی اس دفعہ الیکشن میں بھر پور حصہ لے گی ، لہذا یہ کہنا کہ خان صاحب کو یہاں میدان آسانی سے میسر آجائےگا تو یہ خان صاحب کی خام خیالی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ مجموعی صورت حال ہے ان تین صوبوں کی ، اب اگر کسی کی خواہش پر کسی مخصوص جماعت کو کلین سویپ کرانا ہے تو یہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ زیادتی ہوگی ،کیونکہ  حالات یہ ہیں کہ   کوئی بھی جماعت پورے ملک میں کلین سویپ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ، ہاں ! یہ ممکن ہے کہ پنجاب میں جو بھی جماعت معرکہ سر کرے گی  غالب اکثریت سے  وہی جماعت وزارت عظمیٰ کی حقدار ہوگی ، اب دیکھنا یہ کہ کون سی جماعت سرخرو ہوتی ہے اس الیکشن میں۔۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا!

Facebook Comments

عبدالرؤف خٹک
میٹرک پاس ۔اصل کام لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت پر یقین رکھنا اصل مقصد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply