• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسرائیل کا شہری  و طبی تنصیبات اور عورتوں پر حملوں کا   بین الاقوامی قانونِ انسانیت کی  روشنی میں جائزہ۔۔ڈاکٹر محمد عادل 

اسرائیل کا شہری  و طبی تنصیبات اور عورتوں پر حملوں کا   بین الاقوامی قانونِ انسانیت کی  روشنی میں جائزہ۔۔ڈاکٹر محمد عادل 

انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی انسانوں کے درمیان اختلافات  وتصادم کی بھی بنیاد پڑی  اور جب سے انسانوں کے درمیان قتل و غارت اور اختلافات و تصادم کا سلسلہ شروع ہوا ہے ،اسی وقت سے جنگی اخلاقیات  بھی کسی  نہ کسی شکل میں رائج رہی ہیں ۔   دنیا کے گلوبل ویلج بن جانے کے بعد  جب بین الاقوامی سطح پر قوانین و معاہدات وجود میں آنے لگے،تو جنگی  اخلاقیات و قوانین  کو بھی  منظم و مدون شکل میں لانے کا سلسلہ شروع ہوا، جس کی باقاعدہ  بنیاد ۱۸۶۳ء میں  پڑی اور  آج  ایک صدی کی مسلسل کوششوں کے بعد بین الاقوامی قانونِ انسانیت(International Humanitarian Law)کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔اس  مجموعۂ قوانین  کو  IHLکے علاوہ قانونِ جنگ (Law of War)اور مسلح  تصادم  کا قانون (Law of Armed Conflict) بھی کہا جاتا ہے۔

آئی ایچ ایل(IHL)ان قوانین  و اخلاقیات کی جدید اور منظم شکل ہے،جو قدیم زمانوں سے چلی آرہی ہیں۔اس حوالے سے اہم ترین ماخذ  جنیوا  اور  ہیگ میں جنگی قوانین واخلاقیات کے حوالے سے مختلف اوقات میں  منعقد ہونے والے کنونشنز  ہیں۔ جنیوا میں چار کنونشنز  ۱۸۶۴ء، ۱۹۰۶ء، ۱۹۲۹ء اور ۱۹۴۹ء میں ہو چکے ہیں ،اس کے علاوہ ۱۹۷۷ء میں دو اضافی   پروٹوکول کا بھی انعقاد ہوچکا ہے۔جبکہ ہیگ میں دو کنونشنز ۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۷ء  کو منعقد ہوئے۔ جنیوا اور ہیگ کنونشنز کے علاوہ دیگر پروٹوکولز اور اعلانات نے بھی اس حوالے  سے اہم کردار  ادا کیا۔ ان معاہدات کا ماننا تمام ممالک پرلازم ہے چاہے  انہوں نے معاہدات پر دستخظ نہ بھی کیے ہو[1]۔

عصر حاضر میں مسلح تصادم کے وقت فریقین عموماً ان جنگی قوانین اور اخلاقیات کو خاطر میں نہیں لاتے ،جس  کا نتیجہ معاشرے کے کمزور ترین طبقات یعنی عورتوں ، بچوں، بوڑھوں ،بیماروں  اور زخمیوں  کو شدید نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس کی واضح مثال اسرائیلی جارحیت کی صورت میں نظر آتی ہے ،جو مسلسل ایک مہینہ سے فلسطینی علاقوں پر اندھا دھند حملے کر رہا ہے اور شہری اور طبی تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اسی طرح بچوں اور عورتوں پر  کھلے عام تشدد اور ایمبولینس پر بم حملے کرکے  بین الاقوامی قوانین اور جنگی اخلاقیات کی دھجیاں  بکھیر رہا ہے۔ صرف ایک مہینے  میں چالیس سے زائد بچوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ اس آرٹیکل میں بین الاقوامی جنگی قوانین و اخلاقیات کے تناظر میں اس صیہونی جنگی جنونیت، خصوصاً شہری و طبی تنصیبات پر حملوں اور دورانِ  جنگ عورتوں کی خصوصی حیثیت  کا جائزہ لیا جائے گا، تاکہ اس حوالے  سے کام کرنے والے افراد اور اداروں کو  اس جارحیت کی طرف  متوجہ کیا جاسکے اور فلسطین کے نہتے شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جا  سکے۔

آئی ایچ  ایل (IHL)میں  شہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ممانعت

بین الاقوامی قانونِ انسانیت  میں مسلح تصادم کے وقت کسی بھی ریاست کے لوگوں کو دوحصوں  میں  تقسیم کیا گیا ہے Combatants اورCivilian۔ آئی ایچ ایل میں سویلین کی تعریف  ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے:

“A civilian is any person who does not belong to the armed force[2]۔

ترجمہ: سویلین سے مراد ہر وہ شخص ہے جو مسلح  افواج میں شامل نہ ہو۔

پھرپہلے  اضافی پروٹوکول دفعہ ۴۸ میں  واضح الفاظ میں سویلین   تنصیبات کو نشانہ بنانے سے منع کیا گیا ہے:

“shall at all times distinguish between the civilian population and combatants and between civilian objects and military objectives and accordingly shall direct their operations only against military objectives[3]”.

ترجمہ: ہر صورت میں   سویلین آبادی  اور اسلحہ برداروں  کے درمیان  فرق  کریں ۔اسی طرح سویلین اور فوجی تنصیبات میں واضح  امتیاز کرکے اپنی کاروائیوں کو صرف فوجی تنصیبات تک محدود رکھیں۔

چاروں جینوا کنونشنز میں مشترکہ آرٹیکل  نمبر3 میں بھی  جنگ میں حصہ نہ لینے والوں کے متعلق عمومی طورپر کہا گیا کہ ان  سے ہر حال میں  انسانی سلوک  کیا جائے گا:

“Persons taking no active part in the hostilities, including members of armed forces who have laid down their arms and those placed hors de combat by sickness, wounds, detention, or any other cause, shall in all circumstances be treated humanely[4]”.

ترجمہ: وہ افراد جنہوں نے مسلح  تصادم میں سرگرم حصہ نہیں لیا ، ان میں مسلح افواج کے وہ  اراکین بھی شامل ہیں، جنہوں نے ہتھیارڈالے ہوں اور وہ لوگ جو بیماری ، زخموں ، نظربندی  یا  دیگر وجوہات سے  تصادم سے الگ ہوگئے ہوں ، ان سے  ہرحال میں انسانی سلوک کیا جائے گا۔

آئی ایچ  ایل (IHL)میں  طبی تنصیبات اور زخمیوں  کو نشانہ بنانے کی ممانعت

جینوا کنونشنز میں مشترکہ آرٹیکل  نمبر3 ذیلی دفعہ 2 میں    زخمیوں  اور بیماروں  کا  خصوصی خیال رکھنے کا  تذکرہ کیا گیا:

“The wounded and sick shall be collected and cared for[5]”.

ترجمہ: زخمیوں اور بیماروں کو جمع کرکے ان کی دیکھ بھال کی جائے گی۔

جنیوا کنونشن نمبر میں باب 2اور باب 3  زخمیوں ،بیماروں اور طبی تنصیبات و ایمبولینسز کے تحفظ  کے متعلق ہے،جیسا کہ باب 3 آرٹیکل19 میں کہا گیا ہے:

“Fixed establishments and mobile medical units of the Medical Service may in no circumstances be attacked[6]”.

ترجمہ: طبی امداد کی فراہمی  کے اداروں اور موبائل میڈیکل یونٹوں پر کسی بھی حالت میں حملہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

1977کے اضافی پروٹوکول نمبر1 کی دفعہ 10،  21 اور اضافی پروٹوکول نمبر 2کی دفعہ 7  میں طبی تنصیبات  کو نشانہ نہ بنانے اور زخمیوں  تک طبی امداد کی رسائی یقینی بنانے کی بات کرتا ہے۔

دوران جنگ عورتوں کی خصوصی حیثیت  آئی ایچ ایل کے تناظر میں

اسرائیل ایک عرصہ سے فلسطینی شہریوں  کو گرفتار کرکے سالوں قید میں رکھتا آرہا ہےاور یہ معاملہ صرف مردوں تک محدود نہیں بلکہ  عورتوں   کو بھی مختلف مواقع پر اسی صورتحال  کا سامنا کرنا پڑا۔ ذیل کی  سطور میں بین الاقوامی قانون انسانیت کی ان دفعات کو نقل کیا جائے گاجومسلح تصادم  کے وقت عورتوں کی خصوصی حیثیت  سے متعلق ہیں:

جنیوا  میں منعقدہ پہلے تینوں کنونشنز میں عورتوں کی خصوصی حیثیت اوران کو خصوصی رعایت کا ذکر کیا گیا ہے:

“women shall be treated with all the regard due to their sex[7]”.

ترجمہ: عورتوں کے ساتھ ان  کی جنس کی وجہ سے نہایت عزت کا برتاؤ کیا جائےگا۔

بین الاقوامی قانون انسانیت میں عورتوں کو  مسلح تصادم کے وقت حاصل رعایتوں کو ذیل میں  نمبروار ذکر کیا جاتا ہے:

1: اسلامی قانونِ جنگ کی طرح آئی ایچ ایل  میں  عورتوں  کے قتل کی  شدید ممانعت آئی ہے،جنیواکنونشن کے دونوں اضافی پروٹول میں یہی احکامات دئیے گئے ہیں:

“To the maximum extent feasible, the Parties to the conflict shall Endeavour to avoid the Pronouncement of the death penalty on pregnant women or mothers having dependent infants, for an offence related to the armed conflict. The death penalty for such offences shall not be executed on such women[8]”.

ترجمہ: مسلح  تصادم میں شامل فریقین ممکنہ حدتک اس بات کو یقینی بنائیں کہ حاملہ   عورتوں اور شیر خوار بچوں کی ماؤ ں کو  جنگی جرائم میں سزائے موت نہ دی جائے۔

2: اگر عورت جنگی قیدی بنائی گئی تو بین  الاقوامی قانونِ انسانیت  اس بات کو یقینی بناتا  ہے کہ اس کو ہرقسم  کا  تحفظ دیا جائے،جنیوا  کنونشن نمبر۴  اور اس کے پہلے  اضافی پروٹوکول   میں اس بات کو  شامل کیا گیا ہے:

“Women must be protected in particular against rape, forced prostitution and
any other form of indecent assault[9].

ترجمہ:عورتوں کو  جنسی تشدد ، زبردستی طوائف بنانے اور اس طرح کی  دیگرغیر شائستہ حرکات سے محفوظ رکھا جائے گا۔

3: حاملہ عورتوں اور کم عمر بچوں کی ماؤں کو اگر قیدی بنایا گیا تو ان کے مقدمات کو خصوصی  طور  ترجیحی بنیادوں پر نمٹایا جائے گا۔اضافی پروٹوکول نمبر ۱ میں اس کو  مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:

“Pregnant women and mothers having dependent infants who are arrested, detained or interned for reasons related to the armed conflict, shall have their cases considered with the utmost priority[10]”.

ترجمہ: حاملہ عورت اور شیر خوار بچوں کی ماؤں  کو مسلح تصادم سے متعلق کسی جرم میں گرفتار کیا جائے یا حراست میں لیا جائے تو مقدمات کو  ترجیحی  بنیادوں پر  نمٹایا جائے۔

4: عورت کے جنگی قیدی بننے کی صورت میں اسے  مردوں سے الگ رکھا جائے گا،تا کہ  وہ ان مشکلات سے محفوظ ہو،جو مردوں کے درمیان رہ کر اسے پیش آنا ممکن ہے،اضافی پروٹوکول نمبر ۱ میں  اس بات کو ذکر کیا گیا ہے:

“shall be held in quarters separated from those of men and shall be under the immediate supervision of women[11]”.

ترجمہ: (عورتوں کو ) مردوں کی    کوٹھڑیوں  سے الگ  اور خواتین اہلکاروں کی زیرِ  نگرانی رکھا جائے ۔

 نتائج:

  • مسلح تصادم میں عوامی و طبی تنصیبات کو نشانہ بنانا بین الاقوامی  قوانین کی رو سے جنگی جُرم ہے۔اسرائیل کی مسلسل شہری علاقوں پر بمباری اور سویلین تنصیبات  اور آبادی کو نشانہ بنانا   جنگی جنونیت اور عالمی قوانین کی  خلاف ورزی ہے،لہٰذا عالمی برادری ، اقوام متحدہ   اور دیگر فورمز کو فوراً اس کا نوٹس لے کر ان حملوں کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنا  چاہیے۔ اگر اقوام متحدہ اور خصوصاً  سلامتی کونسل ان حملوں  کو فوراً رکوانے  اور فلسطینی    شہریوں خصوصاً عورتوں اور بچوں  کے تحفظ میں ناکام رہے، تو ان کا وجود بے مقصد ہوجاتا ہے۔
  • اب تک صیہونی فوج نے شہری آبادی کے خلاف جس طرح بے تحاشا طاقت کا استعمال کیا ہے،  اس پر اس کے خلاف بین الاقوامی  عدالت میں مقدمات چلائے جائیں۔ اگر ایسا  نہ کیا گیا تو ان  قوانین کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور مستقبل میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
  • اس موقع پر انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس(ICRC) کو   فلسطین کے نہتے شہریوں کے تحفظ  کو یقینی بنانے کے لئےکردار ادا کرنا چاہیے۔
  • اسرائیل میں موجود امن پسند تنظیموں اور افراد کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنی سیاسی و فوجی قیادت کو جنگی جنونیت وجارحیت پر مبنی اقدامات سے روکیں اور انہیں جنگی قوانین و اخلاقیات کی پاسداری پر مجبور کریں، کیونکہ  ان واقعات کا نتیجہ جلد یا بدیر ان کے لئے سکیورٹی مسائل پیدا کرے گا۔

حواشی و حوالہ جات

[1]              دی اسکالر، بین الاقوامی قانون ِ انسانیت  اور اسلام: ایک تقابلی مطالعہ،محمد سعید شیخ و حسین محمد،۳،جنوری/جون ،۲۰۱۹ء

[2]               Geneva convention, protocol 1,article:49

[3]               Additional Protocol I, Article :48

[4]               Geneva Convention I, II,III,IV Article: 3

[5]               Geneva Convention I, II,III,IV Article:3(2)

[6]               Geneva Convention I, II,III,IV Article:3(2)

[7]               Geneva Convention I, II, Article: 12

[8]               Additional Protocol I, Article :76(3)

[9]               Geneva Convention IV  :82

[10]              Additional Protocol I, Article :76(2)

Advertisements
julia rana solicitors

[11]               Additional Protocol I, Article :5(2)a

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply