پانامہ کا ہنگامہ

پانامہ کا ہنگامہ
مجاہد حسین
جب سے جے آئی ٹی بنی ہے اس وقت سے اب تک کے واقعات کا غیرجانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ مہذب ممالک میں جب وزیراعظم کے خلاف سنجیدہ الزامات ہوں تو وہ کس لئے استعفی دے دیتے ہیں۔ جو شخص تمام حکومتی اداروں کا سربراہ ہے اور جس کے ہاتھ میں عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ موجود ہے وہ کیونکر اپنے خلاف آزادانہ تحقیقات ہونے دے گا۔ یقینی بات ہے کہ وہ اختیارات کو اور ملکی خزانے کو ان تحقیقات میں رخنہ ڈالنے کے لئے استعمال کرے گا۔ یہی کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔
میاں نواز شریف نے اکثر اداروں کے سربراہ مستقل نہیں لگائے تاکہ عارضی طور پر کام کرنے والے ان کے دباؤ میں رہیں۔ انہیں مستقل ہونے کا لالچ بھی رہے اور ہٹا دئیے جانے کا خدشہ بھی قائم رہے۔جے آئی ٹی مسلسل اس بات کا اظہار کر رہی ہے کہ مختلف ادارے ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ یا تو انہیں ریکارڈ نہیں دیا جا رہا یا پھر اس میں غیر قانونی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ مقدمہ اپنی اصل میں ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کا ہے۔ اسلئے بنیادی طور پر اس کا تعلق ایف بی آر سے بنتا ہے جہاں سے مسلسل ایک لائن کا جواب آ رہا ہے کہ “Record Not Available”۔
جس طرح میاں نواز شریف نے قومی خزانے کے منہ اپنے پسندیدہ ٹی وی چینلز کے لئے کھول دئیے ہیں یہ ایک بہت بڑا سکینڈل ہے۔ ایک میڈیا منڈی لگی ہوئی ہے جس میں صحافیوں کی خرید و فروخت جاری ہے۔ اور یہ سب کچھ عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے کیا جا رہا ہے جو خیانت کی بہت بڑی مثال ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ عوام کی توجہ میاں نواز شریف کی کرپشن سے ہٹائی جائے اور رائے عامہ کو عدلیہ کے خلاف کیا جائے۔ اس مذہبی طبقے پر بہت افسوس ہوتا ہے جس نے میاں صاحب کی پیشی پر تو خلفائے راشدین کی مثالیں دی تھیں لیکن بیت المال کی اس واضح خیانت پر ان کی زبانیں خاموش ہیں۔
پاکستان میں اعلی قسم کے ماہرین معاشیات موجود ہیں جنہیں اگر وزیرخزانہ بنا دیا جائے تو وہ بہت شاندار کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ میاں نواز شریف سوائے اقتدار کی طوالت کے اور کچھ نہیں سوچتے اس لئے میرٹ کا قتل عام کرتے ہوئے انہوں نے ہر ادارے میں اپنے وفادار بٹھا دئیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے ملک قرضوں میں ڈوبتا جا رہا ہو، تجارتی خسارہ خطرناک حدود کو چھو رہا ہو، فارن ڈائرکٹ انویسٹمنٹ پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم ترین ہو، پھر بھی میاں صاحب نے اپنے قریبی رشتہ دار کو وزیر خزانہ کا منصب عطا کیا ہوا ہے۔ انہی اسحق ڈار صاحب نے میرٹ کو پرے پھینکتے ہوئے ایف بی آر، ایس ای سی پی اور سٹیٹ بنک جیسے اداروں میں اپنے لوگ متعین کئے ہوئے ہیں۔ چونکہ ان کی وفاداری ریاست پاکستان کی بجائے میاں نواز شریف کے ساتھ ہے اس لئے یہ ادارے جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون کرنے سے انکاری ہیں۔
پانامہ لیکس کی صورت میں قدرت کی جانب سے اس قوم کو موقع ملا ہے کہ وہ ان خون چوسنے والی جونکوں سے نجات حاصل کرے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نون لیگ کی پراپیگنڈہ مشینری اس وقت اپنی پوری صلاحیت پر چل رہی ہے اورعوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شریف فیملی ابھی تک رسیدیں پیش نہیں کر سکی جو کہ اصل مقدمہ ہے۔ لیکن حکومت کے حق میں بولنے والے چینلز اور صحافیوں نے اسقدر دھول اڑائی ہے کہ عوام کے ذہنوں سے اصل مقدمہ محو ہونے لگا ہے اور ان کی توجہ کبھی واٹس ایپ کال کی طرف رہتی ہے اور کبھی ایک ملزم کی تصویر لیک ہونے کے مسئلے کی طرف۔
سوال یہ ہے کہ اگر آج میاں نواز شریف وزیراعظم نہ ہوتے تو کیا ریاستی ادارے سپریم کورٹ کے احکامات کو اس طرح جھٹلانے کی جرات کرتے؟

Facebook Comments

مجاہد حسین
مجاہد حسین مکالمہ کے اولین ممبرز میں سے ہیں۔ آپ جذباتیت اور عصبیت سے پاک تجزیات کے ماہر ہیں اور اس معاشرے میں شعور کی شمع جلائے ہوے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply