حکومت سے خوش طبقات۔۔نجم ولی خان

مہنگائی، نااہلی اور بدعنوانی نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، آپ کیمرا لے کر شہر کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں آپ کو حکومت کے خلاف چیختے چلاتے، روتے دھوتے لوگ آسانی سے مل جائیں گے، لاہور میں یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے دس میں سے نو لاہوریوں نے کان پکڑ لئے، توبہ کر لی مگر اس کے باوجود بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو بجلی، گھی پٹرول، چینی، آٹے سمیت تقریباً تمام ہی ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتیں دوگنی ہوجانے کے باوجود حکومت کے ساتھ ہیں، اپنی بات پر قائم ہیں کہ پٹرول ہزار روپے لیٹر اور بجلی کا یونٹ سو روپے کا بھی ہوجائے، وہ تب بھی خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ غربت اور مہنگائی کہاں ہے کہ ان کے دور میں مہنگی ترین کاریں اتنی فروخت ہوئی ہیں جتنی ایک برس میں پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔
میں نے سنجیدگی کے ساتھ ان طبقات بارے سوچا جو ابھی تک عمران خان کو ناکام نہیں سمجھتے۔ یہ ایک، دو نہیں بلکہ کئی ہیں جن کو جاننے کے لئے ہمیں سب سے پہلے عمران خان کے ووٹ بنک کا جائزہ لینا پڑے گا۔ عمران خان کو مقبولیت موجودہ صدی کے پہلے عشرے میں کچھ اور دوسرے عشرے میں بہت زیادہ ملی۔ اس عشرے کا آغاز پرویز مشرف کے مارشل لا سے ہوا تھا۔ اس مارشل لا کے دوران ہماری ایک پوری نسل نے اپنی ذہنی اور فکری نشوونما کا سفربالکل اسی طرح مکمل کیا جیسے ایک نسل ضیاء الحق کے مارشل لامیں پلی بڑھی اور اسے پیپلزپارٹی کے ساتھ نفرت گھول کر اور گھوٹ کر پلادی گئی۔ مشرف دور کا نصاب سابق حکمرانوں باالخصوص نواز شریف سے نفرت کا تھا، دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والے شخص کو کچھ ثابت کئے بغیر کرپشن کی علامت بنا کے پیش کیا گیا۔اس نسل کا المیہ ہے کہ اسے شاہ دولہ کاچوہا بنا کے سروں پر نفرت کے خول چڑھا دئیے گئے ہیں جو ان کی آنکھوں اور کانوں کو بھی لپیٹے ہوئے ہیں۔ چالیس برس کی سیاست نے جہاں نواز شریف سے محبت کرنے والے دئیے ہیں وہاں نفرت کرنے والے بھی بہت سارے دئیے ہیں۔ متعصب لوگ کبھی اہلیت اور نااہلیت کا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ یہ مہنگائی کی ہر لہر کے بعد نواز شریف کے خلاف ایک نفرت بھرے بیان سے خوش ہوجاتے ہیں۔
عمران خا ن سے وہ لوگ بھی خوش ہیں جن کے پیارے بیرون ملک ہیں اور وہاں سے ڈالر، پاؤنڈ اور ریال بھیجتے ہیں۔ ان لوگوں کا مہنگائی اس لئے مسئلہ نہیں ہے کہ ڈالر آنے پر جہاں نواز شریف دور میں منی چینجر سے ایک ڈالر کے سو روپے لاتے تھے اب ایک سو ستر لاتے ہیں لہٰذا ان کے لئے کسی بھی شے کی قیمت میں اضافہ بے معنی ہے۔ ان کی جیب میں پہلے سے زیادہ روپے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک کلاس وہ ہے جو کہتی ہے کہ اگر روٹی دستیاب نہیں تو لوگ ڈبل روٹی کیوں نہیں کھالیتے، دوسری کلاس ہنس کر کہتی ہے کہ ہم گھی اور چینی زیادہ نہیں کھاتے کہ اس سے موٹاپا اور شوگر ہوجاتی ہے، ہم اپنے خان کی طرح ہینڈ سم رہنا چاہتے ہیں۔ ان میں وہ طالب علم بھی شامل ہیں جنہیں شفقت محمود کی زہریلی شفقت ملی ہے۔ دلچسپ موازنہ ہے کہ شہباز شریف کے دور میں سکالرشپس اور لیپ ٹاپس سے فائدہ اٹھانے والے لائق ترین طالب علم ہوا کرتے تھے جو کسی بھی کلاس میں دس، بیس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتے جبکہ عمران خان کے دور میں مسلسل چھٹیوں اور بغیر امتحانات کامیابیوں سے نالائق ترین زیادہ خوش رہے ہیں جو تعداد میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ سٹوڈنٹس کی ’کریم‘ میڈیکل کے سٹوڈنٹ ہیں، ڈاکٹرز ہیں جو پی ٹی آئی کی سپورٹ کرنے پر ناک سے لکیریں رگڑ رگڑ کر معافیاں مانگ رہے ہیں، آپ وائے ڈی اے کو دیکھ لیجئے، پی ایم اے کو دیکھ لیجئے۔
یہ نہیں کہ تمام معاشی طبقات ہی عمران خان کی حکومت سے ناخوش ہیں، بہت سارے خوش ہیں اور بہت زیادہ خوش ہیں جیسے ٹیکسٹائل، فارما سیوٹیکل اور ہاؤسنگ سیکٹر سے وابستہ مگر مچھ۔کورونا وبا کے دوران جب دنیا بھر کی انڈسٹری بند تھی تو خان حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایکسپورٹ کے لئے کھلا رکھا، یوں ان کے پاس چین سے بنگلہ دیش تک ہر جگہ کے آرڈرز پہنچ گئے، اسی دوران اسی بنیاد پر ملکی برامدات میں اضافہ ہوا جس کو اب ریورس لگ رہا ہے۔ فارماسیوٹیکل انڈسٹری پر خان حکومت خصوصی مہربان رہی، تین برسوں میں لازمی ادویات کی قیمتوں میں سو سے پانچ ہزار فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ وہ انڈسٹری ہے جس نے اس دور میں سب سے زیادہ منافع کمایا ہے جیسے شوگر کی ایک گولی جو ایک روپے کی ہوتی تھی وہ بغیر کسی وجہ کے سات، آٹھ روپوں کی ہو گئی۔ آپ کسی بھی اچھی سڑک پر جا کر دیکھیں وہاں کھلنے والی سب زیادہ دکانیں میڈیکل سٹوروں کی کسی چین کی ہوں گی۔ ہاؤسنگ سیکٹر میں ایک مرتبہ پھر کالے دھن کی اجازت دے دی گئی یعنی آپ بنک لوٹ کر لائیں یا کسی کو قتل کرکے، آپ سے نہیں پوچھا جائے گا اگر آپ اس پلاٹوں میں سرمایہ کاری کریں گے، یہ الگ بات ہے کہ سیمنٹ، اینٹوں اور سریے کی قیمتوں نے لوگوں کی کمریں توڑ دی ہیں، ایک عام آدمی گھر بنانے کے قابل نہیں رہا۔ بنیادی طور پر ان تینوں سیکٹرزمیں کامیابی کی بنیاد منفی ہتھکنڈوں سے رکھی گئی یعنی کہیں ایس او پیز کو توڑا گیا، کہیں مہنگائی کی اجازت دی گئی اور کہیں چوری کے پیسے کی۔ کسان کنفیوژ ہے کہ وہ کس طرف جائے، یہ درست ہے کہ اسے گنے سمیت فصلوں کی زیادہ قیمت ملی لیکن جہاں بجلی اور ڈیزل کی قیمت بڑھی وہاں پونے تین ہزار کی کھاد کی بوری سات ہزار روپے پر پہنچ گئی۔
اس موقعے پرافسرشاہی میں ڈی ایم جی اور پولیس سمیت دیگر طاقتوروں کا ذکر بہت ضروری ہے۔میں جمع تفریق کروں تو تقریباً دس فیصد افسر شاہی کوان کی رننگ سیلری پر ڈیڑھ برس پہلے ڈیڑھ سو فیصد کا اضافہ دیا گیا، یہ اونچے گریڈوں والے افسران تھے جن کی تنخواہیں پہلے ہی کم از کم لاکھ، لاکھ روپے کے ارد گردتھیں جو اچانک اڑھائی لاکھ ہوئیں یا ڈیڑھ سو فیصد کے حساب سے مزید بڑھ گئیں مگر دوسری طرف پنجاب کے دس میں سے نولاکھ کے لگ بھگ ملازمین اس امتیازی اور غیر آئینی طور پر دی گئی ماہانہ سرکاری رشوت سے محروم رکھے گئے ہیں جو تعلیم، صفائی جیسے شعبوں کے ہیں۔ اس کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت نے بیوروکریسی میں اپنا وفادار طبقہ پیدا کیا جس کے بارے اس کا شکوہ تھا کہ وہ شہباز شریف کا وفادار ہے۔اب جناب فواد چوہدری کے اسی نکتے کا جواب دیتے ہیں کہ گاڑیوں کی ریکارڈ فروخت ہو رہی ہے جو معاشی خوشحالی کی دلیل ہے تو جواب یہ ہے کہ ایوب دور کی طرح عمران دور میں بھی امیر، امیر سے امیر ترین ہوا ہے اور غریب، غریب سے غریب ترین۔ بائیس کروڑ عوام میں سے اگرد س فیصد بھی نوازے گئے تو وہ دو کروڑ بیس لاکھ ہوئے، یہ پہلے سے طاقتور اورا میر لوگ تھے جنہوں نے مزید’انی‘ مچا دی۔ اب ان کے بارے سوچئے جو انیس کروڑ اسی لاکھ بچے اور روٹی سالن تک کے لئے مجبور ہو گئے۔ جب بڑے بڑے موٹے جسموں اور دماغوں والے دانشور بھی پی ٹی آئی کی سپورٹ پر توبہ کر رہے ہیں، معافیاں مانگنے کی پبلک پوسٹس کر رہے ہیں تو یہ سب جناب عمران خان کی حکومت کے ساتھ ہیں، خوش ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply