ہے نہ سوچنے کی بات ! آوے ای آوے۔۔۔۔۔ عامر عثمان عادل

نماز جمعہ ادا کرتے ہی ایک مریض کی تیمار داری کیلئے کوٹلہ سے لالہ موسی روانہ ہوا ،تقریباً  26 کلومیٹر کے اس سفر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے قافلے ملے، چم چم کرتی گاڑیاں، کروڑوں روپے مالیت کی لینڈ کروزر، ایک ہی رنگ کی ڈبل ڈورز ایک عجب شان سے سڑکوں پر رواں دواں تھیں ،دھول اڑاتی فراٹے بھرتی چنگھاڑتی ہوئی  بریکیں لگاتی ۔انداز ایسا جیسے راستے کی رکاوٹ بننے والی ہر چیز کو کچل ڈالیں گے۔۔

آندھی اور طوفان کے بگولوں کی زد سے بچنے کی خاطر کتنی بار مجھے اپنی چھوٹی سی گاڑی ایک سائیڈ پر اتار کر ان قافلوں کو راستہ دیے بنا کوئی  چارہ نہ تھا۔ایک لمحے  کیلئے سوچا ایسی بیش قیمت گاڑیاں انکی ضرورت ہیں یا مجبوری ،اپنی امارت کے اظہار سے ووٹر کو متاثر کرنا مقصود ہے یا اس کی بے بسی کا مذاق اڑانا!

ہے ناں مزے کی بات ۔۔۔کروڑوں کی گاڑیوں کے جلو میں یہ رہنما دور افتادہ دیہات قصبات گوٹھ گلیوں میں بسنے والے اس عام آدمی تک پہنچتے ہیں جس کی تقدیر بدلنے کے دعوے ان کا منشور ہیں وہ عام آدمی جسے آج بھی سفر کیلئے ادنی درجے کی سہولیات بھی حاصل نہیں، یخ بستہ کمروں سے نکلتے ہی ٹھنڈی ٹھار گاڑیوں کے مسافر اس شدید حبس اور لو کے موسم میں اس ووٹر تک پہنچنے پر مجبور ہیں جو ایک پنکھے کا بل بھی ادا کرنے سے عاجز ہے۔

لینڈ کروزر میں رکھی منرل واٹر کی بوتل سے اپنے حلق کو تر کرنے والے ان لیڈرز کو شاید ہی علم ہو کہ انکے حلقے کی بڑی تعداد کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ،دن بھر ووٹرز کے پیچھے کھجل خوار ہونے کے بعد واپسی پہ کسی میرج ہال یا کسی شاندار ریسٹورنٹ کے ائیر کنڈیشنڈ ہال میں انکے لئے بچھائے گئے دستر خوان پر ہر نعمت چن دی جاتی ہے، اس لمحے اپنے یاران غار سے ان کا کہنا ہوتا ہے  کہ یار اے ووٹ منگنا بڑا اوکھا کم اے۔۔

کبھی ووٹر نے سوچا کہ میری نمائندگی کا دم بھرنے والے اور میری زندگی میں کتنا فرق ہے؟

وہ عرش کے مکیں اور میں فرش کی خاک ،کبھی ان نمائندوں یا انکے گھر والوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کے دھکے کھائے؟ کبھی یہ کسی بس اسٹاپ پر ویگن کے انتظار میں گھنٹوں کھڑے رہے ؟کیا کبھی انکی معزز خواتین نے رش کی وجہ سے کسی بس میں سیٹ نہ ملنے پر کھڑے ہو کر سفر کیا ؟ کبھی انکے خاندان کا کوئی بزرگ شہری اپنی پینشن لینے کی خاطر سارا سارا دن ڈاکخانوں یا بینکوں کے باہر ذلیل ہوا ؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ ان لیڈروں میں سے کسی کا لاڈلہ بچہ رات کے کسی پہر درد سے تڑپا ہو اور یہ بے بسی کے عالم میں اسے اٹھائے کبھی ایک ہسپتال تو کبھی دوسرے مارے مارے پھرے ہوں ؟ کبھی ان بڑے لوگوں نے فاقے کی لذت چکھی ہو؟ دکھ سکھ میں  شریک ہونے کے دعویداروں نے کبھی سوچا کہ ان کے دکھ سانجھے ہیں نہ سکھ۔۔

کیا عوامی نمائندگی کا عزم لئے میدان میں اترنے والوں کا طرز زندگی آپ جیسا ہے؟ کیا اسکے بچے انہی سکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں آپ کے ؟ کیا انکے بچوں کا علاج اسی شفاخانے میں ہوتا ہے جہاں آپ کے بچوں کا ؟ کیا یہ بھی آپ کی طرح پیدل چلتے ہیں آپ کی مانند لوکل ٹرانسپورٹ پہ سفر کرتے ہیں؟
اگر نہیں تو بس ایک سوال کا جواب دیجئے ۔۔جو آپ میں سے ہے ہی نہیں وہ آپ کی نمائندگی کا حق رکھتا ہے؟
اور جو آپ میں سے ہو قابلیت بھی رکھتا ہو آپ کے مسائل کی خاطر آواز اٹھانے کی کوئی  بھی سیاسی جماعت اسے اپنا امیدوار بنائے گی ؟
اگر کوئی  ایسا سر پھرا میدان میں نکل بھی آئے تو اس لینڈ کروزر مافیا کا مقابلہ کرنے کیلئے وسائل کہاں سے لائے گا ؟
وہ دس بار بھی جنم لے لے تو کبھی ان کا سامنا نہیں کر سکتا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو کیا پھر آپ کے مقدر میں قطاروں میں لگ کر ان کو ووٹ دے کر مسند اقتدار تک پہنچانا ہی لکھا ہے،؟
موجودہ انتخابی نظام کے تحت سو سال بھی الیکشن ہوتے رہیں کچھ بھی نہیں بدلنے والا۔۔تو پھر کیا فائدہ دل کو جلانے کا؟۔۔۔آو مل کر نعرہ بلند کریں
آوے ای آوے
نہ تم بدلے نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply