ہماری سوسائٹی کے افراد اسلام کے بلند و بانگ دعوے وہاں کرتے ہیں جہاں معاملہ ان کے حق میں ہو یعنی اسلامی قوانین کو اپنی مرضی اور حالات کے مطابق استعمال کرتے ہیں خود کے مسلمان ہونے پر بھی بڑا فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ فخر کی بات تو تب بنتی ہے جب اسلام پر پوری طرح سے عمل پیرا بھی ہوں مذہب نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے یعنی ایک ہی وقت میں چار بیویاں رکھ سکتے ہیں بشرط یہ ہے کہ محبت وقت اور اخراجات میں مساوات ہو یہ عرب کلچر میں تو عام رواج ہے جو صدیوں سے رائج ہے لہذا ان کے ہاں مرد ایک بیوی پر دوسری لے آئے تو کوئی طوفان نہیں اٹھتا نہ ہی پہلی بیوی اور خاندان والے کسی قسم کا کوئی واویلا مچاتے ہیں نہ ہی ان کے ملنے جلنے والے یا کمیونٹی کے افراد چہ میگوئیاں کرتے ہیں مگر پاکستانی معاشرے میں مرد دوسری شادی کرنا چاہے اور پہلی بیوی کو اپنے اس ارادے سے اگاہ کرے یا اجازت چاہے تو کبھی اجازت نہیں دی جاتی رونا پیٹنا اور لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں بچے اور پورا خاندان مرد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں لہذا ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے مرد چھپ کر دوسری شادی کرتے ہیں گو کہ مذہب نے مرد کو دوسری شادی کا حق دیا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ آج کل کے ماڈرن دور کے مطابق یہ ہے کہ گناہ یا زنا سے بچاؤ ممکن ہو چونکہ اس دور میں مرد و خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اکٹھے کام کرتے ہیں تو ان کا آپس میں رابطہ بھی رہتا ہے دفاتر میں زیادہ وقت گزارنے کی صورت میں کسی عورت میں کشش محسوس کرنا اور اس کے قریب ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اور اگر جذبات دونوں طرف ایک جیسے ہوں تو گناہ کا مرتکب ہونا بہت آسان ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں عورت تو شادی ہی کرنا پسند کرتی ہے اور اگر مرد پہلے سے شادی شدہ ہو تو جرات کا مظاہرہ کر کے نکاح کر لے تو ڈر کے مارے شادی کا اعلان نہیں کرتا اور اس کو خفیہ رکھتا ہے۔ راز کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سدا راز نہیں رہتا اور ایک دن کھل ہی جاتا ہے۔ لہذا جب دوسری شادی کا راز فاش ہوتا ہے تو مانو ایک قیامت صغری برپا ہو جاتی ہے پہلی بیوی اور اگر بچے بھی ہوں تو مرد کو دوشی ٹھہراتے ہیں کہ اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے یاد رہے کہ اسلام میں دوسری شادی گناہ نہیں، جذباتی بلیک میلنگ شروع ہو جاتی ہے اور مرد کو اپنے خاندان پہلی بیوی اور سسرال کی جانب سے ذلت رسوائی سہنا پڑتی ہے اور وہ عورت جو دوسری بیوی بن کر اس مرد کی زندگی میں داخل ہوئی ہوتی ہے اس پر کسی کا گھر اجاڑنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اس کو ہوم بریکر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
دوسری شادی کے محرکات کیا ہیں۔
بظاہر ہنسی خوشی زندگی گزارنے والے شادی شدہ جوڑے اندر سے کن وجوہات پر ایک دوسرے سے نالاں ہوتے ہیں اس کے بارے میں وہی جانتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ایک فریق دوسرے کو یہ بتاتا بھی نہیں کہ مجھے تمہارے فلاں رویے سے چڑ ہے یا یہ عادات بری لگتی ہیں، آہستہ آہستہ مرد کو عورت سے یا عورت کو اپنے شوہر سے دلچسپی ختم ہونے لگتی ہے مرد اپنی جذباتی تسکین کے لیے باہر آسرا ڈھونڈتا ہے۔ طلاق کی نوبت کسی انتہائی صورتحال پر ہی آتی ہے۔ ورنہ تو ایسے جوڑے ساری زندگی شادی کو نبھانے کے لیے اور بچوں کی خاطر ایک چھت کے تلے زندگی گزارتے ہیں۔
دوسری شادی کے بارے میں سوچنے سے پہلے مندرجہ ذیل باتوں پر غور کر لیا جائے تو آسانی ہو سکتی ہے۔
1: شریعہ قانون کے مطابق تمام بیویوں میں برابری سے نان نفقہ، وقت گزارنا، محبت اور ہر طریقے سے انصاف کرنا ضروری ہے اگر کوئی مرد ایسا کرنے کے قابل نہیں ہے تو پھر دوسری شادی نہیں کرنی چاہیے اکثر دیکھنے میں اتا ہے کہ دوسری شادی کرنے کے بعد مرد واپس پہلی بیوی کی طرف احساس جرم کے تحت راغب ہو جاتے ہیں اور دوسری بیوی کو ایک کونے میں رکھ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس سے ملنے میں یا وقت گزارنے میں خوف محسوس کرتے ہیں کہ اگر راز کھل گیا تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے ۔ ان باتوں کا خیال شادی کرنے سے پہلے ہونا چاہیے۔ ایسی صورت میں وہ عورت جو دوسری بیوی بن کر آتی ہے شوہر سے محبت اور توجہ کی طلبگار ہوتی ہے اور نہ جانے ماضی کے کن حالات سے گزری ہوتی ہے۔ کیونکہ زیادہ تر وہ عورتیں دوسری بیویاں بنتی ہیں جو بیوہ یا طلاق یافتہ ہوتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے بہت سے تلخ تجربات سے گزری ہوتی ہیں۔ اور بہت ہمت کے ساتھ کسی شخص پر بھروسہ کر کے شادی کرتی ہیں۔
2: ملکی قانون۔ بعض ممالک میں ایک سے زیادہ شادیاں قانونی جرم ہے۔ مثلا برطانیہ، یورپ اور مغربی ممالک۔ قانونی طور پر ایک سے زیادہ شادیاں صرف اسلامی ممالک میں ہی کی جا سکتی ہیں۔ مگر ہمارے لوگ ہر قانونی مسئلے کا حل بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ایک مغربی ملک کا شادی شدہ مسلمان مرد جس کی بیوی اسی ملک میں رجسٹرڈ ہو وہ دوسرا نکاح اسلامی طور پر مسجد میں نکاح خواں اور گواہان کی موجودگی میں کر لیتا ہے ۔ یہ شادی رجسٹرڈ نہیں ہوتی لہذا دوسری بیوی کو شوہر پر کوئی قانونی حق نہیں ہوتا اور نہ ہی شوہر کا بیوی پر، یعنی یہ وہ صورتحال ہے جب میاں بیوی ایک دوسرے کی جائیداد کی تقسیم یا جائیداد میں حصے کا دعوی کرتے ہیں۔
3: جذباتی عوامل۔ اگر مرد جذباتی طور پر کمزور اور کم ہمت ہے تو بہتر ہے کہ یہ بکھیڑا نہ پالے کیونکہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا اور نبھانا دل گردے کا کام ہے۔ اس میں کئی قسم کے چیلنجز سے واسطہ پڑتا ہے اگر بیویوں کے درمیان بیلنس اور امن و امان رکھنے کی ہمت نہ ہو تو اس عمل سے پرہیز کریں۔
4: جذباتی تسکین۔ اکثر دیکھنے میں ایا ہے اگر پہلی بیوی سے مرد کو جذباتی تسکین نہ مل رہی ہو تو وہ اس کو پورا کرنے کے لیے یہ جذباتی تعلق کہیں اور بنا لیتا ہے یعنی اگر وہ خود کو بیوی کے ہاتھوں نظر انداز محسوس کرتا ہے یا کچھ خواتین شوہروں پر رعب جماتی ہیں، کنٹرول کرتی ہیں اور تمام اہم فیصلوں اور روزمرہ کی زندگی میں بھی انہی کی مرضی بلکہ دھونس چلتی ہے۔ تو مرد کا چوری چھپے باہر معاملہ سیٹ کرنے کے کافی چانسز ہیں لہذا خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے پر غور کریں۔
5: جنسی تسکین۔ شوہر اور بیوی دونوں کا ایک دوسرے سے صحت مندانہ اور محبت بھرا جنسی تعلق ہونا ان کے رشتے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور جذبات کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جنسی تعلق کو عورت یا مرد اگر شادی کا فرض سمجھ کر نبھاتے ہیں تو اس میں ایک ادھورا پن اور خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ رشتوں میں یہ دوری عام طور پر عزت میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اگر شوہر بیوی کی یا بیوی شوہر کی عزت نہیں کرتا تو دلوں میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں جس کا اثر ان کی جنسی زندگی پر پڑتا ہے۔
6: انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی تعریف سن کر خوش ہوتا ہے مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے سے اپنی تعریف سننا پسند کرتے ہیں جس سے ان کی خود اعتمادی اور اپنی ذات پر بھروسے میں اضافہ ہوتا ہے۔ خصوصا مرد کمیونٹی میں خواہ کتنا بڑا تیس مار خاں ہی کیوں نہ ہو مگر گھر میں اس کی حیثیت بعض اوقات بالکل ایک عام فرد جیسی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ گھر میں مرد ایک شوہر اور باپ کے رشتے سے رہتا ہے۔ گو کہ آج کل میاں بیوی مل کر کام کرتے ہیں اور گھر گرہستی کی گاڑی چلاتے ہیں مگر ہماری سوسائٹی میں ابھی بھی بہت سارے خاندان ایسے ہیں جہاں مرد ہی کماتا ہے اور بیوی کے ہاتھ پر لا کر رکھتا ہے۔ لہذا وہ چاہتا ہے کہ گھر میں اس کو سربراہ کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے اور اسی طریقے سے اس کی عزت اور قدر ہو۔ اور اگر اس کو یہ اہمیت اپنے گھر میں نہیں ملتی تو پھر وہ دوسری عورتوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو بات بے بات اس کی تعریف کرتی ہیں یہ ایسی سچویشن کا ذکر ہو رہا ہے کہ جہاں سے بد دل ہو کر مرد دوسری شادی کا فیصلہ کرتا ہے۔ یاد رہے کہ صرف عورت کا ہی کام نہیں کہ وہ مرد کی عزت کرے مرد کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ پیار محبت کا سلوک کرے۔
7: ذاتی عدم تحفظ کی وجہ سے بھی مرد باہر سہارا ڈھونڈتے ہیں۔
8: خاندانوں کے آپس کے اختلافات بھی دوسری شادی کا ایک بڑا محرک بنتے ہیں۔ جب شادی شدہ رشتہ کئی سال پر محیط ہوتا ہے تو اس دوران بیوی اور اسکے سسرال کے درمیان اچھے تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے میاں بیوی میں تو تو میں میں رہتی ہے۔ اور چھوٹی چھوٹی بات پر ہوئے جھگڑے طوالت اختیار کر لیتے ہیں۔ یعنی دس سال پہلے ہوۓ جھگڑے کا طعنہ دس سال بعد بھی ملتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے اختلافات اتنے نہیں ہوتے، زیادہ تر رشتہ داروں اور سسرالیوں کی وجہ سے جھگڑے ہوتے ہیں جو بڑھتے بڑھتے ایک دوسرے سے دوری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں مرد ان لڑائی جھگڑوں سے خود کو دور رکھنے کے لیے وقت باہر گزارنا شروع کر دیتا ہے اور اپنی دلچسپی باہر ڈھونڈ لیتا ہے اور اگر وہ مالی طور پر خوشحال ہو تو اس کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اج کل تو ویسے بھی بہت مواقع موجود ہیں، سب سے بڑا تو سوشل میڈیا ہے۔ اگر کسی خاتون کی طرف سے کوئی مثبت اشارہ مل جائے تو آہستہ آہستہ پروان چڑھ کر دوسری شادی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جب نیا رشتہ شروع ہوتا ہے تو مرد ایک بار پھر سے جوان ہو جاتا ہے اور ٹین ایجرز جیسی حرکتیں کرنے لگتا ہے دوسری خاتون یا بیوی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، نخرہ بازی، رومینٹک گفتگو، چیٹنگ اور آج کل تو ویڈیو کالز بھی توبہ توبہ، اٹھکیلیاں یہ سب جو پہلی شادی میں کب کی مر کے دفن ہو چکی ہوتی ہیں، وہ ان باتوں کو انجوائے کرتا ہے لہذا وہ نئے رشتے میں خوشی اور گرم جوشی محسوس کرتا ہے۔ اگر یہ باتیں پہلی بیوی تازہ رکھے تو شاید دوسری شادی یا شوہر کی بے وفائی کے دکھ سے بچ سکے۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دوسری شادی گناہ نہیں اگر اپ خود کو مسلمان سمجھتے ہیں تو پھر سوسائٹی کو چاہیے کہ ایک سے زیادہ شادیوں پر وبال مچانے کی بجائے ان کو قبول کرنا سیکھیں۔ ہمارے معاشرے میں مرد کی ایک سے زیادہ شادیوں کی قبولیت بہت ضروری ہے۔ دوسرا یہ بھی دیکھا ہے کہ پہلی بیوی تو شاید اپنے شوہر کے ساتھ سمجھوتہ کر لے اور اس کی دوسری شادی کو تسلیم کر لے مگر بچے اور خاندان والے اس قدر مداخلت اور جھگڑے کرتے ہیں اور صورتحال اس قدر بگاڑ دیتے ہیں کہ جس کا نتیجہ یا تو دوسری بیوی کو طلاق دلوا کر ہوتا ہے یا پھر پہلی بیوی طلاق لے لیتی ہیں۔ یاد رہے کہ شادی بالغ مرد اور بالغ عورت کے درمیان ہوتی ہے۔ لہذا خاندان والے اور تماش بین قسم کے دوست احباب اس میں مداخلت کرنا اور ٹانگ اڑانا چھوڑ دیں تو حالات اور زندگی سازگار ہو سکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں