انڈیا !خاتون سیاح کی نظر میں ۔۔۔۔۔محمد سلیم

صاحب ثروت اور حیثیت والوں کی تو اور بات ہے، آپ کسی بھی ادنی ٰسے ادنیٰ  دفتری چینی سے پوچھ کر دیکھ لیں، جرمنی سمیت کم از کم دس یورپی ملک تو ضرور گنوا دے گا جن کی وہ سیاحت ضرور کر چکا ہوگا۔اس کی وجہ معاشی خوشحالی کے علاوہ کچھ اور ہو نہ ہو، اب ہر طرف پھیلتا ہوا یہ کلچر ضرور ہے جس میں سال کے اختتام پر یا سال میں ایک بار تقریباً ساری ہی کمپنیاں اپنے ملازمین کو سیاحت کے لیے  اندرون یا بیرون ملک کا چکر لگوا لاتی ہیں۔

اس سیاحت میں ٹور آپریٹرز کا بھی کمال ہوتا ہے جو پورے پورے پیکیج کا اتنا خرچہ لیتے ہیں جتنے میں کوئی شخص انفرادی طور پر سفر کرنے   کا کبھی سوچ بھی نہ سکے۔ یورپ والے بخوبی جانتے ہیں کہ لاسٹ مومنٹ ڈیل نہ بھی ملے تو ویسے بھی کسی شہر کے مرکز سے ہوائی اڈے تک کا ٹیکسی کرایہ جہاز کی ٹکٹ سے زیادہ ہوتا ہے ۔ اور بالکل یہی حال اب چین میں اور چین سے باہر جاتے چینی سیاحوں کا ہے۔

تبھی تو سیاح جا کر اُجلے اُجلے شہر اور سندر سندر بن دیکھیں ، ان کے من میں وہاں کی زندگی اصلی روپ میں دیکھنے کا بھوت سمایا ہوا ہے۔

اب اس بلاگر کو دیکھیے  جسے “بالی وڈ” کی چکاچوند روشنیاں، عالمی خطابات یافتہ حسینائیں اور دنیا کے عجائبات سے بھرے بھرے ملک انڈیا میں دیکھنے کو ملا بھی تو وہاں کی گندگی، آلودگی، لوگوں کا گھٹیا معیار زندگی اور بدبو اور سڑاند۔

سیر و سیاحت کے لیے بہترین سمارٹ فون ایپس۔ ۔۔ایم بلال ایم

کہتی ہے، میں جہاں بھی گئی، میرے ذہن میں ہندوستانیوں کے بارے میں کوئی بھی تاثر ابھرا تو بس یہی تھا کہ یہ انتہائی گندے لوگ ہیں۔ مجھے ہر جگہ دیکھنے کو گندی گلیاں ملیں، ہر نرم و گرم شہری سہولت کا فقدان نظر آیا، شہری منصوبہ بندیوں کا کوئی وجود نہ تھا، لباس بھلے جیسا بھی پہنا ہوا تھا اندر سے گندے جسم کا صاف پتہ چل رہا تھا، پتہ نہیں یہ لوگ نہاتے بھی تھے یا کہ نہیں۔ مجھے ان کی لیٹرینوں میں کہیں بھی ٹوائلٹ پیپرز استعمال کیے  ہوئے نظر نہ آئے جس کی وجہ  سے مجھے ان سے مزید گھن آنا شروع ہو گئی۔

میری حیرت اس وقت اور بھی دوچند ہو گئی جب میں نے  ان کے متبرک ترین اور ان کے نزدیک صاف ترین دریا کو دیکھا جس کی آلودگی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی۔ گندے اور بد بو دار پانی میں، جس میں جگہ جگہ مردار صاف دکھائی دے رہے تھے ان کی آنکھوں میں آئی چمک اور خوشی مجھے مکدر کرتی تھی۔

کہتی ہے۔۔ غربت کا مطلب گندا ہونا نہیں ہوتا۔ گندگی اور غربت دو متضاد چیزیں ہیں مگر یہاں مجھے ان تضادات میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔ مزید برآں، مجھے ان کے مذہبی متشدد رویئے سے اور بھی خوف آیا جسے میں نے گندگی سے جہالت کی طرف سفر کرتے ہوئے دیکھا۔ لوگوں کے رویئے اُجڈ اور ٹھگوں جیسے نظر آئے۔ آخر کچھ تو تھا جس کی وجہ سے اسے غیر ملکی سیاح خواتین کے لیے  دنیا کا سب سے غیرمحفوظ ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ یہ کوئی زیادہ دور کا قصہ نہیں ابھی ماضی قریب میں ہی جب “تھامسن رویٹرز فاؤنڈیشن ” نے عورتوں کے لیے  دنیا کے پہلے  دس   غیر محفوظ ترین ملکوں میں انڈیا کو سب سے پہلا ملک قرار دیا تھا۔

بلاگر کہتی ہے: کیا میں کچھ غلط کہہ رہی ہوں؟ کیا یہ سارا رنگت کا کمال ہے کہ یورپین  ہمیں صاف ستھرے اپنی رنگت کی وجہ سے دکھائی دیتے  ہیں؟ کیا ہندوستانی اپنی گہری رنگت کی وجہ سے میلے کچیلے ، گندے اور تیل سے لتھڑے دکھائی دیتے ہیں؟ میں افریقہ بھی گھوم چکی ہوں، وہاں تو سو فیصد لوگ ہی کالے تھے، پھر مجھے ان کے بارے میں گندہ ہونے کا احساس کیوں نہ ابھرا؟

انڈیا کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کے جسموں سے آنے والی بو ان کے کھانوں کے اثر سے ہو۔ میں   انڈیا میں جو  ایک مہینہ گزار کر اپنے گھر واپس لوٹی تو میرے گھر والے مجھے بتاتے تھے کہ تیرے جسم سے عجیب بو آتی ہے۔ ہو نہ ہو یہ ایک مہینے تک کری والے کھانے کھا کھا کر میرے جسم میں پیدا ہوئی ہوگی۔
تاہم میں جو کچھ انڈیا میں قبول نہ کر سکی وہ ان کا رویہ تھا۔۔ مثلاً  ان کا اپنے ٹوائلٹس میں پیپر استعمال نہ کرنا، پبلک ٹوائلٹس کا فقدان، بغیر کسی شر م و حیا کے سر عام پیشاب کرنے لگ جانا، کھانے میں ہاتھ ڈالنا اور بغیر چمچ یا کانٹے کا کھانا، کم از کم میں تو شاید ان باتوں کو کبھی بھی ہضم نہ کر سکوں۔

کہتی ہے: مجھے ورانسی سے کلکتہ تک گاڑی میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ میرے سامنے والی برتھ پر ایک صاف ستھرا جوڑا سفر کر رہا تھا۔ شستہ انگریزی میں ان سے بات چیت کر کے بہت خوشی ہوئی۔ مجھے ان کا بار بار تھوک پھینکنے اور پچکاریاں کرنے سے ایک اندازہ یہ ہوا کہ یہ لوگ صاف ستھرے ہیں اور صاف ستھرے رہنا چاہتے ہیں مگر ان کی کچھ عادات ان کی ثقافت ہیں جیسے اسی تھوک کو لیجیے، ان کا بار بار تھوک پھینکنا گویا اپنے آپ کو صاف رکھنے کے لیے تھا۔

نیپال ۔۔۔کچھ مشاہدات اور تاثرات/عبدالغنی محمدی

Advertisements
julia rana solicitors london

کہتی ہے : میرا خیال ہے کہ انڈین فلموں کا بہت قصور ہے جس نے اپنے کلچر کو گورے رنگ دکھا دکھا کر خراب کیا ہے اور اب باہر سے ہر آنے والا یہی توقع لیکر آتا ہے کہ وہاں پر شہر نہیں فلم سٹوڈیو جیسا ماحول ہوگا اور ہر انڈین خوبصورت اور گورا چٹا ہوگا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انڈیا !خاتون سیاح کی نظر میں ۔۔۔۔۔محمد سلیم

Leave a Reply