واش رومز نہیں ،کھیت ہی اچھے ہیں۔۔۔علی اختر

بچپن میں ایک کہانی پڑھتے تھے۔ جو کچھ یوں شروع ہوتی تھی۔ “صبح ہوئی  ، دادی اماں نے مرغیوں کا ڈربہ کھولا” ۔ آج بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  وہ کہانی محض فریب پر مشتمل تھی ۔ عام طور  پر صبح اٹھتے ہی انسان کو  حوائج ضروریہ سے فراغت کے واسطے  باتھ روم جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور ماحول گاؤں کا ہو تو صبح صبح لوٹا لے کر کھیت کی طرف دوڑ لگتی ہے۔ ہاں البتہ شہر کے لوگ قید کی سی صورت حال سے گزرتے ہیں ۔ شاید انہیں یہ قید محسوس بھی نہ ہوتی ہو۔ بقول شاعر
وہ شکست خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہ بازی

جبکہ ایک اور جگہ  مزکورہ بالا صورتحال میں شہری اور دیہاتی انسان کی صبح کو بیان کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے۔۔

تازہ ہریالی کی سودائے محبت کو تلاش
اور  آبادی میں تو زنجیر ء  کشت و تخیل

ویسے ہم شہری لوگ بھی اس معاملہ میں کچھ زیادہ پابندی کے قائل نہیں ہیں۔ آپ کراچی میں بہ آسانی چلتے مین روڈ  پر دیواروں کے سائے میں ، پلوں کی منڈیر کے کنارے لوگوں کو ضروت کے تحت سینکڑوں موقعوں پر بیٹھا دیکھ سکتے ہیں ۔

عام تہذیب یافتہ معاشروں  میں پبلک کی اس بنیادی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے مخصوص جگہیں بنا دی جاتی ہیں اور ان پر wc یا مرد اور عورت کے اسکیچ بنا کر ظاہر کیا جاتا ہے کے حاجت ہر جگہ نہیں صرف اس جگہ رفع کریں۔ جبکہ ہمارے ہاں محض دیوار پر لکھ دیا جاتا ہے” کتے کا بچا ۔۔۔۔۔۔۔کر رہا ہے” ۔ یہ وہ کوڈ ورڈ ہے جسے پڑھتے  ہی ہم لوگوں میں سے جسے حاجت نہ بھی تو انتظار کرتا ہے کہ  کب پریشر لگے اور کب میں یہ سعادت حاصل کروں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے میں اس موضوع پر کیوں لکھ رہا ہوں تو اسکی وجہ وزیر اعظم صاحب کا بیان ہے جس میں وہ کہہ  رہے ہیں کہ  “واش  رومزکا صحیح نہ ہونا ۔ غیر ملکی سیاحوں کے نہ آنے کی ایک وجہ ہے” ۔

تمام غیور پاکستانیوں کی طرح میں بھی اس بیان کے پیچھے چھپی یہود و نصاریٰ  کی سازش با آسانی دیکھ سکتا ہوں۔ یہ اقوام گزشتہ ستر سال سے ہماری آزادی چھین کر غلام بنانے کی سازش پر عمل پیرا ہیں۔

اس آزاد قوم کو حوائج ضروریہ کے لیئے ایک چار دیواری تک محدود کرکے بالکل اس شیر کی مانند بنانا ہے جو جنگل میں پیدا ہوا لیکن اب سرکس میں مانو بلی کی سی زندگی گزار رہا ہے یا پھر اس کوبرا کی طرح جس کے زہر والے دانت نکال کر اسے گلی گلی بین پر نچایا جاتا ہے اور بیچارا ایک دن امیبا یا ارتھ وارم کی طرح بے ضرر    موت مرتا ہے۔

راقم کا کچھ وقت ترکی کے شہر استنبول میں گزرا، جہاں اس نے تقریباً  ہر پبلک اور ٹوریسٹ پلیس، قدیم و جدید عمارتوں کے اطراف ، راستوں، شاہراہوں پر واش رومز بنے دیکھے۔ آپ یہ واش روم مبلغ ایک لیرا میں استعمال کر سکتے ہیں۔ راقم گرم علاقے کا جاندار ہے اور سردی برداشت کرنے کا قطعی کوئی  پرانا تجربہ نہیں رکھتا تھا سو واش رومز کثرت سے استعمال کرتا اور کوشش کے باوجود کوئی  واش روم ایسا نہ ڈھونڈ سکا جہاں صفائی  کا ناقص انتظام ہو یا پانی موجود نہ ہو یا لیکویڈ سوپ، ٹشو اور کلون موجود نہ ہو یا ختم ہو گیا ہو۔ حتٰی کہ  ایسے مقامات جہاں واش روم تعمیر نہیں تھے اور حکومت سمجھتی تھی کہ  انکی ضرورت ہے تو وہاں پورٹبل موبائل واشروم کنٹینر پر لاد کر رکھ دیے جاتےتھے۔ ہر واشروم کے ساتھ اسٹاف لازمی ہوتا جو مسلسل اسکی صفائی  پر معمور ہوتا ۔

اسکے بر خلاف ہمارے ہاں پبلک ٹوائلٹس کا رواج بہت کم ہے۔ بعض پبلک مقامات پر اگر موجود بھی ہیں تو وہ مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے خفیہ اسکینڈلز لکھنے، ایکس گرل فرینڈ کا نمبر عام کرنے، یا محض مصوری کے لیئے استعمال کیے  جاتے ہیں۔ بعض کی حالت تو ایسی ہوتی ہے کہ  ایک بار استعمال کے بعد آدمی پوری زندگی دیوار کے کنارے بیٹھنے کو ہی ترجیح دینا شروع ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک بات جس کا راقم نے کراچی کے ایک پارک میں مشاہدہ کیا وہ یہ تھی  کہ وہاں پبلک ٹوائلٹس بھی موجود تھے اور صاف ستھرے بھی تھے لیکن واک کے دوران میں نے واکنگ ٹریک کے ساتھ واقع کیاری میں بچوں کو چھڑکاؤ کرتے پایا جو فخریہ کام ختم کرکے والدین کی  جانب بھاگتے اور وہ بھی محبت سے انکی نیکر درست کرتے۔ راقم پریشان تھا کہ پبلک واشروم کے ہوتے ہوئے بھی ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔ پر اس پریشانی کا خاتمہ ایک ڈرائیور کے ہاتھوں ہوا جو روز ہی کراچی ٹول پلازہ کراس کرکے کیکر کی جھاڑیوں کے پاس گاڑی روک دیتا اورجھاڑیوں کے بیچ فراغت حاصل کرتا جبکہ واش رومز اس سے چند فرلانگ دور ہی بنے ہوئے  ہوتے۔ چند دن کے مشاہدہ کے بعد راقم نے دریافت کر ہی لیا کہ  “بھائی ! کچھ پہلے گاڑی کیوں نہیں روک دیتے”۔ اس نے سامنے کیکر کے جنگل کی طرف اشارہ کیا اور بولا۔ ” اگر سب آپکی طرح سوچیں گے تو اس جنگل کو پانی کون دیگا” ۔ راقم اپنی کم فہمی و خود غرضی پر افسوس کرتا ، خاموشی سے ، نم آنکھیں لیئے گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply