امب نامہ

میرا پسندیدہ پھل آم ٹنوں کے حساب سے پاکستان سے بارلے ملخ جارہا ہے۔۔ کوئی تو روکو، کوئی تو ٹوکو وگرنہ ہماری قسمت میں تھوڑا سا لنگڑا اور بے پناہ بھنگڑا ہی رہ جائے گا۔۔
آج سے تین برس قبل میرا ابوظہبی میں قیام و طعام تھا۔ میں اور گل خان (جاوید یوسفزئی) حسب معمول آوارہ گردی کرتے ابوظہبی شہر کے وسط میں واقع مدینہ زید مارکیٹ جا پہنچے۔۔ کیا دیکھتے ہیں کہ آم کے میلے لگے ہوئے ہیں حسینوں کے شہر میں۔۔ برازیل، افریقہ، بھارت سمیت کوئی پندرہ بیس ممالک کا آم نمائش میں لما پڑا ہوا تھا جب کہ پاکستان کا آم ندارد۔۔ چونکہ میں ملتان میں رہنے کی وجہ سے چونسے امب کے علاوہ دنیا کے کسی امب پر ایمان نہیں لایا تھا تو لامحالہ میرا کسی بھی طرز کے غیر چونسہ امب پر یقین نہیں تھا پھر بھی اپنی معلومات میں اضافے کی خاطر ان ممالک کے امبز کو ایک نظر دیکھا پھر ہر ملک کے امب کو اٹھا کر اس کی خشبو چیک کی۔۔

یہاں پر مجھے اپنے دوست اور کورس میٹ و ہم جماعت ملک عبدالقدوس جو آج کل پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس میں ایروناٹیکل انجینئر کے مقدس رتبے پر فائز ہیں، یاد آئے، عبدل 1993-95 کے دور میں پوری کلاس کو دوران لیکچر استاد محترم کی غیرحاضری کے وقفے میں بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ گیس کی جملہ خصوصیات شدومد کے ساتھ بتایا کرتے تھے۔ اللہ عبدالقدوس کو ہدایت دے کیسا سائنسی حکیم نما بچہ تھا۔۔واپس آموں کی طرف آتے ہیں۔۔ نمائش میں موجود ہمہ اقسام کے امبز کو دیکھنے اور سونگھنے کے بعد میں نے گل خان کے کان میں نیم پشتو زبان میں فتوی جاری کیا جس کا آسان ترین ترجمہ تھا کہ “جنیا یہ کوئی تیسری نسل کے آم معلوم ہوتے ہیں ان سے تو کنارہ ہی بہتر ہے، نہ خوشبو نہ ذائقہ نہ شکل نہ عقل”۔

اس امب یاترا کے کچھ یوم بعد کا ذکرخیر ہے کہ میں اور گل خان ابو ظہبی کے علاقے شابیہء کے مطعم اشرف الاہور میں آپریشن رد الکباب کے بعد چائے پینے ملحقہ مارکیٹ سے گزر رہے تھے کہ اچانک میں نے گل خان کو بازو سے پکڑ کر باآواز بلند توجہ دلاؤ نوٹس دیا۔ دراصل مجھے چونسے کی بھینی بھینی خوشبو نے روک لیا۔۔میری مینگو حس کے مطابق ہمارے دائیں بائیں آگے پیچھے پچاس فٹ کے ریڈیئس میں چونسے امب کی موجودگی کے قوی امکانات پائے جارہے تھے۔ گل خان کو فوری ہدایت کی کہ خانئے تم بس عام عوام کی طرح مجھے اندھا دھند فالو کرو اور رنگین و سنگین نتائج مجھ پر چھوڑ دو انشاء اللہ فائدہ ہوگا۔ یہ کہہ کر میں اپنے بائیں جانب واقع فریش اینڈ مور فروٹ شاپ میں گھس گیا۔ دکان میں کھڑے بھارتی ملواری بھائی سے مخاطب ہوا کہ مجھے خدشہ ہے کہ آپ کی دکان میں پاکستانی چونسہ موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی گردن کو ملواری انداز میں دائیں بائیں متوازی خطوط پر ہلاتےہوئے بولا”مشکل نئیں اے، او ملیں گا”۔۔ میں نے اس کی بات مکمل ہوتے ہی دکان کے دائیں کونے کی جانب روانگی اختیار کی اور وہاں موجود آم کی پیٹیوں پر یوں چھاپہ مار کارروائی کی جس طرح اینٹی نارکوٹکس فورس مخبری ہونے پر نشہ آور اشیاء پر قانونی کارروائی کرتی ہے۔۔ بعد از ادائیگی ستر درہم، سکہ رائج الوقت اس وقت، دو پیٹی ملتانی چونسے کو گاڑی کی ڈگی میں عزت و احترام سے رکھوایا۔۔ اس موقع پر میں نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے گل خان کو کہا کہ لوگ گل چھرے اڑاتے ہیں چل ہم چونسہ آم اڑائیں۔ اور یوں زندگی کے اگلے قیمتی تین چار روز ہمراہ گل خان آم کھانے میں صرف کئے۔۔جولائی کے پہلے ہفتے میں چونسے کی آمد آمد ہے تبھی تو رن کانپ رہا ہے۔۔ دعا ہے کہ اللہ کریم امسال بھی اس قیمتی و بے بدل نعمت سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین!

Facebook Comments

سہیل کوروٹانہ
مردانہ حسن و وجاہت کے پیکر اور ادبی ذوق کے حامل سہیل کے تیار کردہ جہاز فضا میں اونچا اڑتے ہیں، مگر انکے خیالات کی پرواز ان جہازوں سے بھی اونچی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply