انصاف کے تقاضے ۔۔۔۔سبطِ حسن گیلانی

 بیلجیم میں ہمارے ایک دوست تھے  بٹ صاحب ۔ جنرل سٹور چلاتے تھے ۔ یار باش اور زندگی سے لطف لینے والے بندے تھے ۔ جو کماتے سال بعد پاکستان جا کر لٹا آتے ۔ زیادہ وقت بازار حسن میں گزارتے ۔وہاں کی کہانیاں مزے لے لے کر سناتے ۔ ہم انہیں درپیش خطرات سے آگاہ کرتے مگر وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے اس طرح نکال دیتے جیسے چائے کے کپ سے مکھی نکالی جاتی ہے ۔ بٹ صاحب مگر جمعہ بڑی باقاعدگی سے ادا کرتے باقی کے اوقات میں خوب محنت کرتے ،دکان پر شراب کی موجودگی سے دل گرفتگی کا اظہار بھی کرتے ۔ مگر مسجد کو چندہ اور رمضان شریف میں افطاری کا بندوبست کر کے اظہار اطمینان کرتے کہ رب کو بھی راضی کرنے کی کوشش کی ہے اور پھر اوپر آسمان کی طرف گھور کر دیکھتے جیسے وہاں موجود خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ پھر ٹھنڈی ساہ بھر کر کہتے ربا نک نک گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اس میٹھی دنیا سے منہ  موڑ بھی نہیں سکتے مگر جانتے ہیں تو بخشن ہار ہے ۔

جو بھی ملنے جلنے والا دکان پر آتا ٹھنڈی ٹھار بئیر نکال کر فوراً پیش کرتے جو انکار کرتا تو کہتے سوہنڑیو کوئی گل نہیں کولا پی لؤ،و پھر لپک کر کولے کا ٹن فریج سے کھینچ کر مہمان کی طرف بڑھا دیتے اور بئیر اپنے پاس سرکا لیتے ۔ دکان کے غلے کے ساتھ حیوان ذبح  کرنے والی چھری سے خاصی بڑی اور تلوار سے قدرے چھوٹی کٹار بھی رکھی ہوئی تھی ۔ پوچھنے پر بتاتے کہ بٹ ہیں جوانی میں کشتی وغیرہ لڑ لیا کرتے تھے اب انج پیروں میں وہ جان نہیں رہی اس لیے اوکھے سوکھے ویلے واسطے یہ رکھی لی ہے ۔

انصاف حماتوما (ایتھوپیا) مترجم : حمید رازی

ایک دن نصف شب کو ایک جن کی دکان میں داخل ہوا اور بئیر کے تین چار ٹن ہاتھ میں پکڑ کر دکان سے کھسک گیا ۔ بٹ صاحب پیچھے کمرے میں رات کا کھانا کھا رہے تھے سی سی ٹی وی کیمروں سے بٹ صاحب نے یہ منظر دیکھ لیا ۔ لپک کر کٹار اٹھائی اور شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے اس کے پیچھے لپکے ۔ دوسری گلی کی نکڑ پر ہمارا فلیٹ تھا نیچے سے اونچی آوازیں سنیں تو آنکھ کھل گئی ۔ ساتھ ہی آواز بھی پہچان لی ۔ بالکونی سے جھانک کر دیکھا تو بٹ صاحب ہاتھ میں چمکتی کٹار لیے کھڑے ہیں پنجابی کی منہ  بھر بھر کر گالیاں بک رہے ہیں اور سامنے ایک دبلا پتلا اونچا لمبا گورا کھڑا تھر تھر کانپ رہا ہے ۔ میں تیزی سے نیچے اترا دوڑ کر ان کے ہاتھ سے کٹار لی اور کہا بٹ صاحب پاگل ہو گئے ہیں یہ گجرات نہیں ہے بیلجیم ہے ۔ دو یورو کی بئیر پیچھے بندہ قتل کرنے لگے تھے ۔ اتنے میں موقع دیکھ کر گورے نے بئیر کے ٹن نیچے گرائے اور بھاگ کھڑا ہوا ۔ یہ دیکھ کر بٹ صاحب نے پھر سے تلوار میرے ہاتھ سے لی میں نے بڑھا دی، سوچا کہ اب اپنے کیے پر نادم ہیں مگر اچانک بٹ صاحب نے پھر سے للکارا مار کر گورے کا پیچھا کرنا شروع کیا ۔ آگے سے وہ گلی بند تھی گورا بے چارہ چوہے کی طرح پھر گھیرا گیا ۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ بٹ صاحب گورے کو تلوار کی نوک کے آگے لگائے واپس آ رہے ہیں ۔ جب وہاں پہنچے جہاں میں ششدر کھڑا تھا اور بئیر کے ٹن ابھی تک وہیں پڑے تھے ۔پاس آ کر بٹ صاحب نے اسے اشارہ کیا اور پنجابی میں ہدایت کی کہ انہیں چک ۔ گورے نے جب وہ ٹن اٹھائے تو فرمایا ہنڑ نس جا اتھوں فر مڑ کے پچھوں نہ ویکھیں نہیں تے ماریا جائیں گا ۔ پھر مجھ سے کہا شاہ جی اس کھوتے دے پتر نوں دسو میں بئیر دے واسطے اس دے پچھے نہیں آیا میں اس واسطے آیاں واں کہ اسیں بٹ آ ں ہس کے کوئی سانوں لٹ وی لوے تے اسیں برا نہیں مناؤندے ،مگروں کوئی سانوں دا لاوے تے اسیں زمیں  آسمان ہک کر دینے آ ں ۔

آخری منظر۔ مریم مجید

Advertisements
julia rana solicitors london

اب میں نے کچھ انگریزی کچھ نیدر لینڈ کے ٹکڑے جوڑ کر ترجمانی کی تو گورا جو حیران کھڑا تھا سر جھکا جھکا کر بدانکت بدانکت تھینک یو تھینک یو کرتے ہوئے چلا گیا ۔ اتنے میں کسی نے فون کر دیا ہو گا پولیس کا ہوٹر سن کر بولے شاہ جی مامے آ گئے نیں ہنر آپاں چلدے آ ں ۔ اس جیسے کافی سارے کارنامے ان کے نامہ اعمال میں لکھے تھے اس لیے جب نیشنیلٹی اپلائی کی تو درخواست نا منظور کر دی گئی ۔ بٹ صاحب نے کورٹ میں اپیل کر دی ۔ کہنے لگے جب کورٹ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جج کی کرسی پر جو گوری بیٹھی تھی وہ تو میری مستقل کسٹمر تھی ۔ وہ سائیکل پر میری دکان پر آتی اور سیگریٹ خریدا کرتی تھی ۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے میری دکان پر آ رہی تھی مگر نہ میں نے کبھی پوچھا نہ کبھی اس نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ جج ہے ۔ حالانکہ اس سے اچھی ہیلو ہائے تھی ۔ اب میں سمجھا کہ اب تو واقفیت نکل آئی ہے تو سمجھو کم بنڑ گیا ۔ مگر بٹ صاحب کو اس وقت حیرانی ہوئی جب اس نے فائل پر ایک نوٹ لکھا ۔ جس کے بارے میں بٹ صاحب کو اپنی وکیل سے بعد میں پتہ چلا ۔ وہ نوٹ یوں تھا ۔ اس بندے کو میں گزشتہ کئی سال سے جانتی ہوں ۔ اس کی دکان سے سیگریٹ خریدنے باقاعدگی سے جاتی ہوں ۔ اور اس پاکستانی دکان دار کے بارے میں ایک رائے رکھتی ہوں ۔ اس کے نتیجے میں ممکن ہے میرا فیصلہ انصاف کے تقاضوں پر پورا نہ اترے اس لیے میں اس بندے کی فائل کو کسی دوسرے جج کی طرف بھیج دینے کی سفارش کرتی ہوں ۔ بٹ صاحب کو بعد میں نیشنیلٹی مل گئی تھی اور اس کے بعد جج اگنس نے بٹ صاحب کی دکان پر آنا جانا کم کر دیا .

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply