پاکستان پر رحم کی ضرورت۔۔۔۔ممتازیعقوب خان

بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اس کے بعد سے آج تک یہی پڑھنے سننے کو مل رہا ہے۔ ترقی کس چڑیا کا نام ہے ، اس کا اندازہ پاکستان کے بعد معرض وجود میں آنے والے ممالک کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستانی عوام کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ ۱۹۷۱ء میں ان سے جدا ہونے والے ملک بنگلہ دیش کی معیشت بھی آج پاکستان کی نسبت مضبوط ہے۔

پاکستان اس وقت تاریخ کے انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہر طرف نفسا نفسی اور افراتفری کا عالم ہے اور ملکی معیشت  تباہ حالی کا شکار ہے۔ اسکی بنیادی وجہ ہر دور میں ذاتی مفادات کو اجتماعی قومی مفادات پر ترجیح دینا ہے۔ جو بھی عوامی مینڈیٹ لے کر ایوان میں جاتا ہے ، وہ ملک و قوم کی بجائے اپنی  اور اپنی نسلوں کی فکر کرتا ہے۔

چین پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا تب اسکی زیادہ تر آبادی افیم کے نشے میں مبتلا تھی۔ دنیا نے دیکھا کہ ایک غریب موچی کے بیٹے نے اس افیمچی قوم کی اس مہارت کے ساتھ کمان کیا  کہ انکا ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہوا آج انہتر سال کی عمر میں سپر پاور کی دوڑ میں کھڑا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک بھی اسکی مضبوط ترین معیشت  کے اثرات سے نہ بچ سکے اور آج امریکہ سمیت دنیا کے بڑے بڑے ممالک اس کے مقروض ہیں۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے محض چند سالوں میں مقروض ترکی کو قرضے کی دلدل سے نہ صرف نکال باہر کیا بلکہ دیگر ممالک کو قرض جاری کرنے کے ساتھ ملکی اداروں بالخصوص تعلیم ، صحت عامہ ، روزگار ، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تمام شعبوں میں اصلاحات لاتے ہوئے ملک کو دنیا کے باعزت ممالک میں لا کھڑا کیا۔

اردگان کو جب بیرونی سازش کے تحت فوج نے ہٹانے کی کوشش کی تو ترک عوام ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ انھیں علم تھا کہ رجب طیب اردگان وہ واحد شخص ہے جس نے واقعی مخلصانہ انداز میں اپنے ملک و قوم کے مفاد کے لیے کام کیا اور کر رہا ہے۔

دوسری طرف جب ہم مملکت خداداد پاکستان کی حالت زار  پر نظر دوڑاتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ستر سال سے پاکستانی قوم ٹرین کی سرخ بتی کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ قومی خزانہ خالی ہو گیا ، ملکی ادارے تباہ ہو کر رہ گئے ، عوام روزگار ، تعلیم اور صحت عامہ جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ، ہر پیدا ہونے والا بچہ قریبا ً ڈیڑھ لاکھ روپے  کا مقروض ہو کر دنیا میں آتا ہے۔ مگر اس کے باوجود تیرا قائد شیطان اور میرا قائد فرشتہ کی گردان دہرائی  جا رہی ہے۔

کسی کو ہوش ہی نہیں کہ یہ ملک کس تیزی سے تباہی کی طرف گامزن ہے اور اسکے ذمہ دار عوام ، سیاستدان ، بیورو کریٹس اور حکمران سبھی ہیں۔ جس کو جتنا ملا ، اس نے سمیٹا۔ جسے موقع نہیں ملا وہ حاجی بن گیا۔ ہر پانچ سال بعد کسی تبدیلی کی راہ دیکھتے ہیں مگر خود کو تبدیل کرنے پر راضی نہیں۔

محمد علی بوگرا سے ایوب خان تک تخت گرائے جانے اور تاج اچھالے جانے پر اس قوم نے دھمال ڈالا ، کہ اب تبدیلی آئے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی ، تب مٹھائیاں بانٹیں کہ اب جنرل ضیاء الحق تبدیلی لائیں گے ، جنرل ضیاء کو طیارے میں اڑا دیا گیا تب ہمیں لگا کہ سویلین حکومت آ کر ملک کا نظام درست کرلے گی۔

بے نظیر بھٹو آئیں ، میاں نواز شریف آئے ، پھر بے نظیر بھٹو آئیں ، پھر نواز شریف صاحب آئے ، پھر مشرف ، زرداری انکے بعد پھر نواز شریف اس طرح باریاں تبدیل ہوتی رہیں مگر تبدیلی نہ آئی۔ جو بھی آیا لوٹ کر نکلتا گیا ، اس دوران ملک کا دھڑن تختہ ہو کر رہ گیا۔

بیرونی جنگیں اپنے سر لے لیں اور دنیا جہان کی دہشتگرد تنظیموں اور غیر ملکی ایجنسیوں نے پاکستان کو اپنا اڈہ بنا لیا۔ بھارت اور امریکہ کے جاسوس پکڑے گئے اور سزا کی بجائے ہار سنگھار پہنا کر پورے پروٹوکول کے ساتھ انھیں سرحد پار چھوڑ آئے۔ ملک میں بدترین دہشت گردی ہوئی ، خود کش دھماکوں اور ڈرون حملوں میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ سویلین تبدیلی لا سکی اور نہ فوجی حکومت ہی کوئی تیر مار سکی ، قوم البتہ بھنگڑے ڈالنے سے باز نہ آئی۔

آج نواز شریف کے خلاف فیصلہ ہوا تب بھی یہ قوم دھمال ڈال رہی ہے۔ یہ نہیں سوچا کہ ہوا کیا ہے؟ دس سال قید بامشقت اور معمولی سا جرمانہ۔جرمانہ ایسا لگا گویا میاں صاحب سے قومی خزانے کا سارا پیسہ برآمد کر کے کرپشن میں ملوث دیگر ملزمان کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا ہو۔ اس قوم کو اس بات سے غرض نہیں ، اسے ہر چند سال بعد ایک نئے نعرے کے ساتھ نیا چہرہ دکھائی دینا چاہیے۔

کسی کو سزا ، معمولی جرمانہ ہونے یا اسے سیاست سے باہر کر دینے سے اس ملک اور اسکی عوام کا بھلا نہیں ہونا بلکہ وہ فیصلہ ملک و قوم کے مفاد میں ہو گا جس کے تحت پاکستان کے قومی خزانہ کی لوٹی گئی دولت کی ایک ایک پائی بازیاب کروا کر قومی خزانے میں جمع کروائی جائے گی۔ کیا ایسی کوئی عدالت یا ادراہ ہے جو یہ حکم دے کہ کرپشن میں ملوث تمام چھوٹے بڑے ملازمین سے لے کر سیاستدانوں اور حکمرانوں تک کا احتساب کیا جائے؟

عوام اگر اس ملک کے ساتھ مخلص ہوتی تو یک زبان ہو کر مطالبہ کرتی کہ ستر سال سے ہم عوام بنا کسی ریٹرن کے غیر مشروط طور پر مختلف مدات میں ٹیکسز ادا کرتے آ رہے ہیں ، ہمارے قومی خزانہ کی رقم پر چند افراد کو ہاتھ صاف کرنے کااختیار کس نے دیا؟

ہمارا ملک روز افزوں تنزلی اور خسارے کی طرف جا رہا ہے ، ہمارا میعار زندگی دن بدن گرتا چلا جا رہا ہے ، ہم بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں ، ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ، ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کا طوفان امنڈ آیا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے اندرون ملک اور بیرون ملک کاروبار اور اثاثے کس طرح بڑھتے جا رہے ہیں؟

یہاں اقتدار اور طاقت کی کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ لڑی جا رہی ہے ، ادارے اپنی حدود سے تجاوز کرکے ملکی سیاست میں گھسے ہوئے ہیں۔ ہماری عدلیہ انصاف کی بجائے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دے رہی ہے۔

حکمرانوں کی شاہ خرچیاں عروج ہر ہیں ، انکے ماہانہ کچن کے اخراجات ہی کروڑوں تک جا پہنچتے ہیں۔ جسے جو دل کرتا ہے وہی  کرتا ہے ورنہ دنیا کے کسی ملک میں بیس کروڑ کی چائے نہیں پی جاتی۔ جنگل کے قانون اور آپ راجی کا سا سماں ہے ، کوئی پوچھنے والا نہیں۔

عوام کو علم ہونا چاہیے  کہ جب انکے نمائندے عوامی مینڈیٹ لے کر اسمبلی میں جاتے ہیں تو اپنی ذمہ داریوں کا قلمدان سنبھالنے سے قبل قرآن پاک پر ملک و قوم کے ساتھ وفاداری نبھانے اور اپنے فرائض کو پوری ایمانداری اور سچائی کے ساتھ ادا کرنے کی قسم کھاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین سے فرائض سنبھالنے سے پہلے قرآن پاک پرحلف لیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔ کیا پاکستان میں کسی بھی ملازم ادارے یا حکمران نے اس حلف کی پاسداری کی یا کرتا ہے؟ عوام کو سوچنا چاہیئے کہ جو لوگ قرآن اٹھا کر وعدہ کرنے کے بعد پھر سکتے ہیں ، وہ اس ملک اور قوم کے ساتھ وفاداری کیوں کریں گے اور ہم کیا سوچ کر انکے اشاروں پر ناچ رہے ہیں؟ دنیا کے دیگر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک سے سبق سیکھیں اور اپنے اور اس ملک کے حال پر رحم کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply