حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ایک قول ہے:
“کمینوں کی سرداری سے اللہ کی پناہ مانگو۔”
یہ قول انسانی فطرت اور معاشرتی رویوں پر ایک گہری بصیرت فراہم کرتا ہے۔ چھوٹے لوگوں کے ہاتھ میں جب عہدہ و اختیار آ جاتا ہے تو ان کا رویہ اکثر تکبر اور غرور کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
پشتو کی ایک مثل ہے:
“بھوکی بلی زیادہ جوش سے پنجے مارتی ہے۔”
یہ کہاوت بھی اسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ جب کم ظرف انسانوں کو اختیار ملتا ہے تو وہ اپنی پرانی محرومیوں کا بدلہ لینے کے لیے اختیارات کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔
بچپن کی ایک یاد مجھے اکثر ایسے افسران کے رویوں پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک دن ایک پولیس افسر کے دفتر کے سامنے ایک چپڑاسی کھڑا تھا۔ وہ اَن پڑھ تھا مگر زمانہ شناس اور تجربہ کار۔ کہنے لگا:
“پہلے جتنے بڑے افسر آتے تھے، وہ یا تو خان ہوتے تھے یا نواب۔ ان میں نادیدہ پن ،بھوک اور تنگ نظری نہیں ہوتی تھی کیونکہ بچپن سے ہی وہ نوکر چاکر کے عادی ہوتے تھے۔ اس لیے ان کے ماتحتوں کے ساتھ برتاؤ میں شرافت اور لحاظ ہوتا تھا۔ مگر آج، جب کسی عام خاندان کا فرد افسر بن جاتا ہے، تو اس کی تربیت اور مزاج میں وہ ظرف کہاں؟اسکا بس چلے تو نوکر کی بھی مار دے۔
جب بھی کم ظرف اور احساس محرومی کے شکار افراد کو اعلیٰ عہدے ملتے ہیں، تو ان کا دل سکون نہیں پاتا۔ ان کے اندرونی احساس کمتری اور محرومی کی آگ، اختیار کے ملنے پر تکبر اور رعونت کا روپ دھار لیتی ہے۔
رسالپور کینٹ کے ایک کینٹ ایگزیکٹو کی مثال ذہن میں آتی ہے ۔ اسکے نوکر نے مجھے بتایا تھا کہ صبح دفتر کے لئے تیار ہوتے وقت وہ مجھے بلاکر کہتا ہے کہ مجھے جرابیں اور بوٹ پہناؤ۔ مجھ سے وہ بوٹ کے تسمے تک بندھواتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیوں وہ ہاتھوں سے معذور ہے تو اس بیچارے نے جواب دیا کہ
“ نہیں ، صاحب کو بس اپنی افسری دکھانی ہوتی ہے۔”
کچھ عرصہ بعد جب مجھے موصوف کے خاندانی پس منظر کا علم ہوا تو اسکے بقدر ظرف آفس سپریٹنڈنٹ کا عہدہ بھی بہت بڑا تھا، کجا کہ اسے سی۔ایس۔پی کی سیٹ پر بٹھا دیا جائے۔
ہمارےگاؤں کے ایک نوجوان نے فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ والد زندگی بھر دوسروں کی خدمت کرکے روزی کماتا رہا تھا۔ اس کا رویہ اپنے بیٹ مین کے ساتھ انتہائی توہین آمیز تھا۔ اس کی حرکات سے ایسا محسوس ہوا جیسے اسکے لیے بیٹ مین کا ملنا کسی بڑے اعزاز سے کم نہ ہو۔
اس کے برعکس، ایک اور میجر کو دیکھا جو اعلیٰ خاندانی پس منظر رکھتا تھا۔ وہ گاؤں سے سادہ کپڑوں میں آ کر دفتر میں وردی پہنتا تھا۔ جب اس سے پوچھا کہ وردی پہن کر کیوں نہیں آتے، تو مسکرا کر کہنے لگا:
“گاؤں کے لوگ کہیں گے کہ یہ ابھی تک میجر ہے ۔”
یہی فرق ہے خاندانی وقار اور مصنوعی برتری کے درمیان۔
تعلیم اور تربیت کسی شخص کے ظاہر کو تو بدل سکتی ہے، مگر اس کی فطرت اور احساس محرومی کو ختم نہیں کر سکتی۔ اعلیٰ عہدے پر براجمان وہ لوگ جو خاندانی پس منظر سے محروم ہوتے ہیں، اکثر اپنی محرومیوں کا ازالہ ماتحتوں پر ظلم کر کے کرتے ہیں۔
ایسے لوگ اپنے افسروں کے بھی محبوب ہوتے ہیں، کیونکہ ان کی چاپلوسی اور جی حضوری ان کے لیے ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ یہ لوگ بدترین boss اور بہترین subordinates ہوتے ہیں۔ مولانا مودودی کے بقول
اس نا خدا نظام کی سیڑھی پر بیٹھا ہوا ہر شخص اپنے اوپر والے کا بندہ اور نیچے والے کا خدا ہوتا ہے۔
اپنی غلامانہ ماتحتی کے طفیل انہیں اعلیٰ انتظامی عہدے ملتے ہیں ۔اس کے برعکس، باصلاحیت اور خوددار لوگ اکثر بے اختیار عہدوں پر ہی نظر آتے ہیں۔
جب چھوٹے ظرف کے لوگ بڑے عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں تو معاشرے کی خوبصورتی زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ بقول شاعر:
“بادشاہ بن گئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ”
صرف علمی قابلیت نہیں، بلکہ انسانی ظرف اور خاندانی تربیت بھی کسی عہدے کے لیے لازمی ہیں۔ ورنہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھے یہ لوگ معاشرے کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔
یہ خیالات منسلک ویڈیو دیکھ کر ذہن میں وارد ہوئے۔ اس بدتمیز لال بجھکڑ خاتون کا خاندانی ، سماجی اور ازدواجی پس منظر اگر آپ کنگالیں کریں تو اس میں آپکو پست سماجی حیثیت، احساس کمتری کا مارا ماضی اور ناکام و بے مراد ازدواجی زندگی کا پرتو نظر آئیگا۔
ابراہئیم میزلو نے کہا تھا کہ جو خواہشات بروقت پوری نہ ہو سکیں ، وہ بعد ازاں انتہائ بدصورت اور کریہہ صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
اسلئے انگریز عہدہ دینے سے قبل بندے کا خاندانی پس منظر اور سماجی حیثیت مدنظر رکھتے تھے۔ صرف سی۔ایس۔یس میں اچھا رٹا لگاکر پاس ہونا قابلیت کا معیار نہیں ہوتا تھا۔

بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں