چُرائے ہوئے لوگ، چُرائے ہوئے خواب/پروفیسر عامر زریں

انسانی اسمگلنگ، ایک ہولناک سماجی برائی ہے۔ اس ناجائز اور ناپسندیدہ کاروبار کو جدید انسانی غلامی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس میں اسمگل کیے گئے شخص کی مرضی کے خلاف کسی قسم کی مزدوری یا تجارتی جنسی عمل حاصل کرنے کے لیے طاقت، دھوکہ دہی، یا زبردستی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسمگلر متاثرین کو اسمگل کیے جانے پر آمادہ کرنے کے لیے عام طور پر تشدد، ہیرا پھیری، یا اچھی تنخواہ والی نوکریوں یا رومانوی تعلقات کے جھوٹے وعدوں کا جھانسہ دیتے ہیں۔ اسمگلنگ کے متاثرین میں ہر عمر، نسل اور قومیت کے مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیں۔

اقوام متحدہ انسانی اسمگلنگ کی تعریف کرتا ہے ”منافع کی غرض سے استحصال کرنے کے لئے لوگوں کی بھرتی، نقل و حمل، منتقلی، پناہ گاہ، یا زبردستی، دھوکہ دہی یا فریب کے ذریعے وصول کرنا۔” یہ تقریباً ہر صنعت میں موجود ہے، بشمول گھریلو کام، زراعت، کان کنی، ماہی گیری، فیکٹری کا کام، اور تجارتی جنسی کام۔ انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کو زبردستی شادی اور مسلح تصادم میں بھی لایا جا سکتا ہے۔ متاثرین کو ادائیگی کی جا سکتی ہے ،ان کی اجرت اتنی کم ہے، وہ بنیادی طور پر غلام ہیں۔

انسانی اسمگلنگ کے ایک حالیہ واقعے میں دو درجن سے زیادہ پاکستانی اُن 59 افراد میں شامل ہیں جو یورپ جانے والے تارکین وطن کو لے جانے والی ایک کشتی میں سوار تھے ، ان میں زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے شہر گجرات سے ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ کشتی جنوبی اطالوی ساحل کے قریب پتھروں سے ٹکراکر ڈوب گئی۔اطالوی حکام نے بتایا کہ26 فروری کے حادثے میں کم از کم 81 افراد بچ گئے، جن میں سے 20 طبی امداد کے لئے ہسپتال میں داخل ہیں۔ان میں ایک شخص انتہائی نگہداشت میں ہے۔کہا جاتا ہے کہ لکڑی کی کشتی جو ترکی سے روانہ ہوئی تھی، اس میں ایران اور افغانستان سے بھی لوگ سوار تھے۔

ذرائع کے مطابق، ”اٹلی میں کشتی کے سانحے میں دو درجن سے زائد پاکستانیوں کے ڈوبنے کی اطلاعات انتہائی تشویشناک ہے۔ترکی مہاجرین کو یورپ میں ا سمگل کرنے کے لیے انسانی اسمگلروں کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے راستوں میں سے ایک کا ہے، جو بعض اوقات سڑک کے ذریعے سفر کرتے ہیں، میلوں پیدل چلتے ہیں اور کئی دنوں تک جہاز کے کنٹینرز میں بند رہنے کو برداشت کرتے ہیں۔ اور ان کٹھن حالات میں بہت سے لوگ اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی ہلا ک ہو جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

11 جنوری انسانی اسمگلنگ سے متعلق آگاہی کا دن ہے۔ آج دنیا بھر میں تقریباً 45.8 ملین سے زائد لوگ جدید غلامی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس میں 10 ملین بچے، 15.4 ملین جبری شادی اور 4.8 ملین سے زائد افراد جبری جنسی استحصال میں شامل ہیں۔ تاہم، درست اعدادوشمار کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ انسانی اسمگلنگ کے بہت سے معاملات کا پتہ نہیں چل پاتا اور رپورٹ نہیں کیا جاتا۔
انسانی سمگلنگ کی وجوہات میں درج ذیل عوام کار فرما ہوسکتے ہیں:جنگ، شہری بدامنی، سیاسی تنازعات، تشدد، لاقانونیت، اور قدرتی آفات غیر مستحکم حالات، غربت، تعلیم کی کمی، سستی مزدوری / جنس کی مانگ، انسانی حقوق کے تحفظ کا فقدان، جائز معاشی مواقع کی کمی، ثقافتی عوامل، تنازعات اور قدرتی آفات، محفوظ نقل مکانی کے اختیارات کا فقدان، دھوکہ دہی اور دھمکی اور منافع، وغیرہ جس میں لوگ زندہ رہنے یا روزی کمانے کے محدود اختیارات کے ساتھ مسلسل خوف کی حالت میں رہتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے گھناؤنے کاروبار سے نمٹنے کے لئے اس کی وجوہات کو سمجھنے سے اس کے تدارک اور روک تھام میں مدد مل سکتی ہے ۔
ضرورت ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جیسے اثر انگیز پلیٹ فارم سے انسانی اسمگلنگ کے خطرات سے عوام کو آگاہی فراہم کی جائے۔انسانی اسمگلنگ کے نعرے اس خوفناک جرم کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں مدد کرتے ہیں۔تاکہ عوام جانیں کہ کیا کرنا ہے اور اس کی اطلاع دینے کے لیے کس سے رابطہ کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے اپنی کمیونٹی میں بیداری پھیلائیں اور اس بات کی تشہیر کریں کہ اس ناجائز کاروبار کا شکار ہوکر کس طرح خاندان کے خاندان متاثر ہوتے ہیں ، قیمتی جانی اور مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ جدید دور کی غلامی ہے اور ایک انسانی المیہ ہے۔انسانی اسمگلنگ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔انسانی سمگلنگ کے ناجائز اور مکروہ دھندا کے کنڑول اور تدارک کے لئے حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ ہر ذمہ دار شہری کو بھی ان کوششوں میں حصہ ملانا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply