پی ٹی آئی کی جیت کیوں ضروری ہے ؟ احتشام الرحمٰن

پاکستان کے بننے کے ایک سال بعد قائد اعظم ہم سے جدا ہوئے۔ آج تک یہی افسوس کرتے آرہے ہیں کہ کاش قائد کچھ سال اور زندہ رہتے تو شاید کشمیر بھی آزاد ہوتا اور پاکستانی سیاسی قصابوں سے مامون بھی رہتے ۔  پھر لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا۔ آج بھی ہر ایک شہری اس سانحے پر افسوس اور کچھ خیالی دنیا بناتا اور لیاقت علی خان صاحب کی سادگی کے گن گاتا ہوا نظر آتا ہے۔ پھر ایوب خان کی صورت میں ایک ڈکٹیٹر آیا۔ نصف سے زیادہ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اس تاریک دور سے نہ گزرتا تو شاید 1965 کی جنگ نہ ہوتی ،  نہ ہی بنگالیوں کے حقوق کو پامال کیا جاتا اور نہ ہی پاکستان دو لخت ہوتا۔

پھر بھٹو صاحب آئے۔ اس دور کو پاکستان کی ترقی کا ایک سنہرا دور تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس وہاں بھی مرد مومن کی صورت میں امیر المومینین نازل ہوئے۔ سوائے چند ایک کے سب کا یہی خیال ہے کہ اگر بھٹو صاحب کو پھانسی نہ دی جاتی تو پاکستان اب تک ایک سپر پاور بن چکا ہوتا۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ اس عظیم لیڈر کو بھی سازش کے زریعے ہٹایا گیا۔ اگر وہ کچھ سال اور ہوتے والی بات پر آج بھی کئی لوگ افسوس کرتے نظر آتے ہیں۔ آٹے میں نمک کے برابر کچھ مومنوں کا یہ خیال ہے کہ اگر امریکہ ضیاء الحق کو قتل نہ کراتا اور اسکو مزید  دس  سال ملتے تو پاکستان ریاست مدینہ بن چکا ہوتا۔ پھر اس بات کا افسوس کہ نوے کی دہائی سیاسی پارٹیوں کی آپس کی لڑائی میں ضائع کی گئی۔ اگر یہ پارٹیاں کسی کے کہنے پر ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچی ہوتیں تو حالات یکسر مختلف ہوتے۔ لیکن یہاں بھی ہر ایک پاکستانی افسوس کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ پھر مشرف صاحب آئے۔ سب کا یہی خیال ہے کہ اگر مشرف نہ ہوتے تو پاکستان میں نہ ہی دہشت گردی ہوتی نہ ہی جمہوریت کو نقصان پہنچتا۔

لیکن مشرف کا وہ “سنہرا دور” بھی پاکستانیوں کی اکثریت کی نظر میں قابل افسوس دور ہے۔ ایک ایسا دور جس پر اکثریت یہ افسوس کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ اے کاش 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ نہ کیا جاتا تو حالات بہتر ہوتے۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ جمہوریت کا بول بالا ہو چکا ہے۔ نواز شریف پکڑے جا چکے ہیں۔ زرداری کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔ خان صاحب واحد صاف ستھرے سیاست دان کے لقب سے اپنے میاں مٹھو بنے ہوئے ہیں۔ محکمہ زراعت بھی آپکے ساتھ ہے۔ خیبر پختونخواہ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ کئی ایک پراجیکٹس کامیابی کے “ابتدائی’ “مراحل میں ہیں۔ جن کی ایک اہم مثال پشاور کا  آر ۔ بی۔ ٹی ہے۔

پی ٹی آئی وہ جماعت ہے جس نے خیبر پختون خواہ میں حکومت بھی کی ہے اور سوائے  اسد  عمر کے “تجربہ کار”  لوگوں کی ایک خاصی تعداد بھی اس جماعت میں شامل ہے۔ اس میں شاہ محمودقریشی جیسے فرشتہ صفت انسان ہیں تو جہانگیر ترین کی صورت میں صادق اور امین بھی۔ جہاں یہ جماعت ایک لبرل جماعت ہے تو وہاں انکے طالبان کے ساتھ بھی اچھے خاصے سفارتی تعلقات ہیں۔ اس تعلق کے دو فوائد ہونگے۔  ایک تو یہ پی ٹی آئی کی قیادت میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا تو دوسری طرف طالبان کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے دہشتگردی کا بھی خاتمہ ہوگا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ان دونوں کے ملاپ سے ریاست مدینہ کے طرز کی ایک فلاحی ریاست یا بقول انصافیوں کے “نیا پاکستان” بنےگا۔

اگلے کچھ سالوں تک ہر طرف امن اور سکون ہی ہوگا۔ کیونکہ نواز شریف جیل میں ہیں اور زرداری بھی انشاءاللہ سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔  نہ کوئی اپوزیشن ہوگی نہ ہی کوئی ڈرانے والا محکمہ زراعت۔ اگر یہ دونوں نہیں ہوں گے تو باہر سے سرمایہ کار بھی آئیں  گے  اور نوکریاں بھی۔ یہ پاکستانیوں کی خوش قسمتی ہے کہ تمام ادارے خان صاحب کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ جس طرح 2002 میں اپنی مرضی سے ایک حکومت بنائی گئی ٹھیک اسی طرح کی ایک اور نیک کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں خان صاحب اپنی تیار کردہ شیروانی پہن سکیں گے، شاہ محمد قریشی صاحب خارجہ پالیسی سنبھال لیں گے اور ناتجربہ کار عمر اسد صاحب معیشیت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن کچھ تجربہ کار لوگ نہ ہی خان صاحب کو کام کرنے دیں گے نہ ہی عمر اسد کو۔ اس صورت حال میں ضدی اور اناڑی خان صاحب اپنی من مانی کرنے کی کوشش کریں گے لیکن انکو یہ کہہ کر خاموش کرایا جائے گا کہ چپ ہو جاو ورنہ تمہاری شیروانی اتاری جائے گی۔ چونکہ خان صاحب کو اپنی شیروانی سے بہت محبت ہے اس لئے Reconciliation اپنا کرخاموشی پر ہی اکتفا کر لیں گے۔ کچھ سال بعد ہم ٹائم مشین کی طرح ایک نئے پاکستان سے پھر پرانے پاکستان میں داخل ہو چکے ہونگے۔ ان تمام حالات میں اگر پی ٹی آئی نہیں جیتتی ہے تو ایک بار پھر اس ملک میں ہزاروں لوگ کئی دہائیوں تک افسوس کرتے رہیں گے کہ اے کاش خان صاحب کی حکومت آئی ہوتی۔ مجھ میں یہ قوت نہیں ہے کہ میں زندگی کے بقیہ سال اپنی نوجوان نسل کو یہ افسوس کرتے ہوئے دیکھوں کہ خان صاحب جیسے فرشتہ صفت انسان کو ایک سازش کے تحت چانس نہیں دیا گیا۔ اس لئے میری دلی دعا اور تمنا ہے کہ خان صاحب اقتدار میں آئیں اور ہم نئے پاکستان میں داخل ہو سکیں۔ بقول ایک بزرگ”اس بار اگر خان صاحب کو وزیر اعظم نہیں بنایا گیا تووہ ہمارا جینا حرام کر دے گا”۔ اس لئے پی ٹی آئی کی جیت کےلئے سب دعا کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply