مارکسزم اور تشدد پسندی

اگر مارکس وادی محنت کشوں، مزدوروں اور عوام کی “حقیقی جمہوریت”کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو سوشلسٹ ممالک میں خونی انقلاب، سرخ انقلاب، ریڈ آرمی، خانہ جنگی وغیرہ کے معاملات کیوں دیکھنے میں آتے ہیں؟
میں اپنی بات یہاں سے شروع کروں گا کہ ہم مارکس وادی پرامن انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں. لیکن یہ بھی درست ہے کہ مارکس وادی جنگ مخالف نہیں ہوتے یا مارکس وادی بالکل ہی شانتی وادی ہوتے ہیں۔ ہم چونکہ دولت اور ذرائع پیداوار کو محنت کش عوام کے جمہوری کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حکمران سرمایہ دار طبقہ اپنی مراعات کے تحفظ کیلئے مسلح اور متشدد مزاحمت کرتا ہے. لیکن سرمایہ دار حکمران اپنی منافقت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مارکس وادی تشدد پسند ہوتے ہیں۔
جب بھی ہم مارکس وادیوں پہ تشدد پسندی کا الزام لگتا ہے تو ہم الزام لگانے والوں کے خون آلود ہاتھوں پہ تنقید کرتے ہیں اور اُن کے قتلِ عام کی وارداتیں اُن کے سامنے لا رکھتے ہیں۔پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کی کہانی کیا ہے؟ افغانستان اور عراق میں ہونے والے قتلِ عام کی اصلیت کیا ہے؟ کیا 1970ء اور 1980ء میں برازیل، چلی اور ارجنٹینا کی قاتلانہ دہائیوں کے پیچھے امریکی سامراج کا حقیقی کردار نہیں ہے؟
جنگ عظیم اول و دوم کے نتیجے میں ہونے والے ہولناک انسانی قتل عام کے پیچھے کیا کہانی تھی؟ صرف یہی کہ مختلف سرمایہ دار سامراج عالمی منڈیوں پہ قبضے اور اُن منڈیوں تک رسائی کیلئے آپس میں لڑ پڑے تھے۔کرامویل، جیکوبنز اور امریکی “انقلابی”جنگ کیوں شروع ہوئی تھیں؟ سرمایہ دارانہ نظام سے قبل جاگیردارانہ نظام رائج تھا۔ آج کا حکمران طبقہ اِس بات کا جواب دے سکتاہے کہ آخر انہوں نے جاگیرداروں سے اقتدار کیسے چھینا تھا؟ یقیناً نرم دلی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تھا!
پیرس کمیون انقلاب کی کوشش کرنے والوں کو 1871ء میں جس تشدد کا سامنا کرنا پڑا، اُس کا کیا جواز تھا؟ لاکھوں مردوں عورتوں اور بچوں کو ذبح کس جرم میں کیا گیا؟ دنیا کی پہلی مزدور ریاست کا قیام اْن مقتولین کا قصور تھا!آج کے دور میں اور ماضی کے تشدد کی وجہ صرف اور صرف سرمایہ دار ہیں۔ آج تک اگر سرمایہ دار روسی انقلاب کو گالیاں دیتے ہیں اور مارکس وادیوں پہ بہتان لگاتے ہیں تو اُس کی دو مضبوط وجوہات ہیں:
اولاً، تاریخ میں پہلی بار غلام اپنے آقاؤں سے لڑ پڑے تھے،دوم، غلام اپنے آقاؤں سے جنگ جیت گئے۔
میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ روس کا سوشلسٹ انقلاب تاریخ کا سب سے کم خونی انقلاب تھا۔ سوشلسٹ انقلاب کی نسبت فروری 1917ء میں پیٹروگراڈ میں برپا ہونے والے لبرل انقلاب میں نسبتاً زیادہ لوگ قتل کیے گئے تھے۔ سرگئی آئنسٹائن کی فلم کے دوران جتنے اداکار حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے، روس کے سوشلسٹ انقلاب کے دوران اُس سے کم تعداد لوگ قتل ہوئے۔
بالشویک انقلاب اتنا خونی اور پرتشدد نہیں تھا جتنا انقلاب مخالف طبقے کا ردعمل پرتشدد تھا. جب روس میں مزدوروں، سپاہیوں اور کسانوں نے بھرپور تحریک کا آغاز کیا تو روسی سرمایہ دار طبقے نے معاشی بحران پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نومولود مزدور حکومت کو برباد کرنے کیلئے امریکہ،فرانس، برطانیہ سمیت اکیس ممالک کی مدد سے فوجی جنگ چھیڑ دی. انقلاب مخالف فوجوں کی دہشت فوری اور بہت بھیانک تھی، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کا خون بہایا گیا۔
آج سرمایہ داری کے لبرل عذر خواہاں کہتے ہیں کہ روس میں سوشلسٹ تجربہ ناکام ہو چکا ہے. یہ تو ایسے ہے کہ آپ سائنس لیبارٹری میں جائیں، تجربہ کے وسط میں لیبارٹری سامان تہس نہس کر دیں، محققین کو قتل کر دیں اور آخر میں کہیں کہ تجربہ ناکام ہو گیا! یہی آج کے لبرل دانشوروں کی منطق ہے کہ سوشلزم ناکام ہو گیا. لیکن یہ کون بتائے گا کہ سوشلسٹ ریاست کی تعمیر کو قدم بہ قدم فوجی کارروائی سے درہم برہم کیا جاتا رہا۔
آج بھی محنت کش مزدور اور کسان، تعداد میں اکثریت کے حامل ہیں جو دنیا میں پُرامن تبدیلی لا سکتے ہیں۔ آج سرمایہ داری کی بقاء کی سب سے بڑی وجہ مزدور تنظیموں کی اصلاح پسند قیادت ہے جو سوشلزم کو بطور متبادل پیش نہیں کر رہی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ آج قیادت کا بحران ہے جس کی وجہ سے ایک حقیقی انقلابی پارٹی کا وجود نہیں ہے۔ ایسی قیادت کا بحران ہے جو عالمگیر سطح پہ جاری وسیع جدوجہد کو یکجان کر سکے. تاریخ کے سفر کو آگے لے جانے اور نئے صحتمند سوشلسٹ سماج کی تعمیر “آج ہمارا کام ہے”۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply