نقد و نذر۔۔ خیالی کتابوں پر تبصرہ/کے ایم خالد

خیالوں کی دنیا کتنی وسیع ہے ۔یہ آپ کی اپنی دنیا ہے ۔دنیا کی منافقت،ریاکاری اور جھوٹ سے پاک ۔سیاستدان ہوں یا مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات،سب ’’پبلک پراپرٹی‘‘ ہیں ان پر بات کرنا بائیس کروڑ عوام کا ’’جبری حق ‘ہے۔’’حدادب‘‘رہتے ہوئے ’’خیالوں میں موصول‘‘ ہونے والی کتابوں پر تبصرہ حاضر ہے۔
نوٹ:تبصرے کے لئے کتب کا  خیال میں  نہ آنا  ضروری ہے
دھرنے اور باراتیں
کتاب کا سرورق بینڈ باجوں ،دولہا اور دلہن کی رنگین تصاویر سے مزین ہے جس سے کتاب کھولنے سے قبل ہی ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے کتاب میں جابجا ماضی اور حال کے سیاسی شخصیات کی تصویریں ہیں بعض تو سہروں کی لڑیوں سے جھانک رہے ہیں اور کچھ فوٹو شاپ کا شاخسانہ محسوس ہو رہے ہیں ۔مصنف جی اے برکات نے پوری کتاب میں سارا زور اس بات پر دیا ہے کہ دھرنوں اور باراتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔مصنف لکھتے ہیں ’’ حکومت کو اب ڈی چوک کے اس مقام پر سکیورٹی کی زیادہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے جہاں پر دھرنا دیتے ہوئے ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی شادی کی دعا کی تھی اور یہ دعا نئے پاکستان سے پہلے ہی منظور ہو گئی تھی اب بہت سے نوجوان اس مقام کے آس پاس دعا مانگتے اور مختلف درختوں،سپریم کورٹ کے جنگلوں اور پریڈ گراؤنڈ  کی سیڑھیوں پر منت کا دھاگہ باندھتے پائے گئے ہیں ۔

مصنف مزید لکھتے ہیں ’’حکومت اگر کنٹینر کو اسی مقام پر کھڑا کرنے کی اجازت دے دے تومنت مانگنے والے نوجوانوں کا منت کا دھاگہ باندھنے میں مشکل پیش نہ آئے اور چڑھاوے کے طور پر حکومت کے خزانے کو فوری ریلیف مل سکتا ہے جس میں شدید کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے ‘‘۔مصنف نے سابق صدر زرداری کی صیغہ راز میں مبینہ شادی کو بھی انہی دھرنوں کی وجہ قرار دیا ہے ۔مصنف نے سابق حکومت کے دور میں ایک’’خادم‘‘ کی مبینہ شادی کو بھی دھرنوں کی وجہ قرار دیا کیونکہ ’’خادم ‘‘نے اس دور میں وفاقی حکومت کے خلاف نہ صرف دھرنوں کی دھمکی دی بلکہ ایک دو دھرنوں میں عوام کے ساتھ یک جہتی کے طور پر شریک بھی ہوئے۔مصنف نے جہاں بہت سے سیاسی رہنماؤں کی شادیوں کا ذکر کیا وہاں مصنف نے ایک فلمی شخصیت مدیحہ شاہ نامی فلم’’ ایکسڑا۔یس‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے کہ اس بے چاری کی شادی بھی یوں لگتا ہے جیسے ہزاروں برسوں سے رکی ہوئی تھی حالیہ دھرنوں کے اچھے اثرات کی بدولت وہ بھی اپنے پیا دیس سدھار گئی ہیں ۔مصنف کھر نامی سیاست دان کے بارے میں بتانے سے قاصر ہے کہ اس کی مبینہ شادیاں کس کے خلاف دھرنوں کا شاخسانہ تھیں اور ’’شیخ صاحب ‘‘ نامی سیاستدان پر ان دھرنوں کے اثرات کیوں کر مرتب نہیں ہوتے ۔؟

میں ،ڈینگی اور وہ!
ڈینگی کا خیال ذہن میں آتے ہی خادم اعلی کا تصور ابھرتا ہے۔کتاب کا سرورق دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جس پر خادم اعلی کو ڈینگی کا تعاقب کرتے دکھایا گیا ہے۔کتاب پر مصنف کا کوئی نام درج نہیں ہے۔مگر کتاب کے ’’بغور ‘‘مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے’’میں ‘‘ سے مراد ظاہر ہے خادم اعلی ہی ہونگے۔ڈینگی سے مراد ڈینگی ہی ہے۔اور ’’وہ ‘‘سے مراد بہت سے وہ ہیں۔جن پرسے انہوں نے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔کتاب میں جا بجا ڈینگی اور خادم اعلی کی رنگین تصویریں ہیں۔جن میں ڈینگی زیادہ ہیڈ سم دکھائی دیتا ہے۔۔لکھنے کو کتاب ڈینگی پر لکھی گئی ہے مگر کتاب کے تقریباً ستر فی صد حصہ میں وفاقی حکومت کی کار کردگی پرتنقید ہے۔کتاب میں بہت سے مقام پر حبیب جالب کے اشعار سے بھی کام لیا گیا ہے۔اور کہیں کہیں تھوڑی بہت ’’تحریف ‘‘ بھی فرمائی گئی ہے۔
ایسے دستور کو ،صبح بے نور کو ۔میں نہیں مانتا ،میں نہیں مانتا
ڈینگی جیسے مغرور کو،ایسے ناسور کو ۔میں نہیں مانتا ،میں نہیں مانتا

کتاب میں ڈینگی سے متعلق معلو مات کا بیش بہا خزانہ موجود ہے ۔وکی پیڈیا سے اٹھائی گئی تحقیق اور معلومات کا کریڈٹ مصنف نے لپیٹنے کوشش کی ہے ۔مگر بہت سی جگہ پر مصنف وکی پیڈیا کا نام ہی کھرچ نہ سکا۔کتاب کے آخر میں مصنف نے ’’وہ ‘‘ سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔وہ کون ہے جس نے ڈینگی جیسے عفریت کو پنجاب میں دھکیلا ۔اس میں کون سا ملک اور اور اپنے ملک کی کون کونسی شخصیات ملوث ہیں ۔یہ اب صیغہ راز میں نہیں رہے گا ۔پھر جلی حروف میں درج ہے اس سے جلد پردہ اٹھا دیا جائے گا۔پنجاب انتظامیہ کے کون سے  افسر ایسے تھے جنہوں نے ڈینگی کے پھیلاؤ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔اور ڈینگی کے خلاف سپرے کے ’’دھوئیں ‘‘سے لاکھوں کمائے۔

کتاب کے پیش لفظ میں ایک اہم اعلان کیا گیا تھا کہ کتاب کے آخر میں کرپٹ افسروں کے نام شائع کئے جا رہے ہیں مگر آخری صفحہ پر یہ تحریر ہے۔’’میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ کرپٹ افسران حروف ابجد میں موجود ہیں ۔اور اس موجود کو باہر نکالنے میں خادم اعلی کو کوئی دیر نہیں لگے گی۔کتاب کے آخر میں خادم اعلی نے پنجاب انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا ہے کہ ملازمین ان سے بے حد محبت کرتے ہیں۔وہ ان کو معطل بھی کردیں تو وہ پھر بھی نہیں کسکتے۔کتاب میں یہ خوش خبری نہیں  سنائی گئی ہے کہ خادم اعلی کی سرکاری ٹونٹی میں ایک ڈینگی کو قید کرتے ہوئے تصویر کو ایک بین الاقوامی ادارے نے اپنے اگلے سال کے آنے والے کلینڈر میں شامل کیا ہے۔یہ ادارہ مچھروں کے خلاف سپرے بناتا ہے۔یہ کتاب خادم اعلی کی اپنی ’’کاوش ‘‘ محسوس ہوتی ہے۔

لوٹے اور اڑانیں!
تازہ موصول ہونے والی خوبصورت سرورق سے  مزین کتاب جس پرلوٹوں کے چہروں والے پرندے اڑانیں بھر رہے ہیں۔کتاب میں  لوٹوں کی اڑانیں بھرنے کی تازہ ترین  کاروائیاں درج ہیں۔کتاب میں مصنف کے نام کی بجائے ایک لوٹے کے قلم سے درج ہے۔کتاب کا انتساب ’’دنیا میں پہلے لوٹے کے نام ‘‘درج ہے۔چونکہ کتاب کافی ’’کھول کر‘‘لکھنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن چونکہ صیغہ راز میں ہمارا رہنا اور ان کا رکھنا مجبوری ہے۔اسی لئے ہم بطور مبصر محتاط رویہ اپناتے ہیں۔ ۔مصنف کے خیال میں اس کا آغاز مغلیہ دور سے ہوا۔ جب مختلف کاموں کے لئے کبوتروں کو استعمال کیا جانے لگا۔پہلے پہل کبوتر وں کی جو نسل جاسوسی کے لئے استعمال کی گئی ان کے نتائج بہت شاندار تھے۔مگر پھر بغیر سوچے سمجھے عاشق معشوقی کے لئے استعمال کئے جانے والے کبوتروں کو جاسوسی کے لئے استعمال کیا گیا۔یہ کبوتر چونکہ اچھی خوراک کے دل دادہ تھے ۔اس لئے  ان کبوتروں کو جہاں اچھی خوراک ملی وہیں بیٹھتے چلے گئے۔اور راز دشمن کے پاس جاتے رہے۔

مصنف نے مشہور زمانہ کبوتروں کی کہانی جو کہ ایک جال میں پھنس گئے تھے اور ایک دانا کبوتر کے مشورے پر جال سمیت اڑ گئے تھے ۔اس کہانی کو مصنف نے ایک سیاسی کہانی کا درجہ دیا ہے۔مصنف کے مطابق اس کہانی سے فی زمانہ یہ سیاسی سبق ملتا ہے کہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے ’’یونفیکیشن گروپ‘‘کسی بھی وقت جال سمیت اڑایا جا سکتا ہے۔جیسا کہ یہ پریکٹس نہ صرف ایک آمر کے دور میں کام یاب ہو چکی ہے اور فی زمانہ اس سے گڈ گورننس بھی مستفید ہو چکی ہے۔مصنف کے خیال میں لوٹے والی اصطلاح اب پرانی ہو چکی ہے۔اب تو جس کا ’’چھجا‘‘ مضبوط اور’’ دانہ دنکا ‘‘ کا ’’کھلار ‘‘زیادہ ہو گاسیاسی پرندوں کی اڑانیں بھی اسی کی طرف ہونگی۔چونکہ اب ’’جھیلیں ‘‘خشک ہو چکی ہیں اس لئے مہمان پرندوں کی ڑانوں میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply