• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسحق ڈار اور پاکستانی معشیت کی تباہی۔۔۔عامر کاکازئی

اسحق ڈار اور پاکستانی معشیت کی تباہی۔۔۔عامر کاکازئی

یونانی شاعر اگاتھون نے کہا تھا ’’ صرف ایک چیز دیوتاؤں کے بس میں نہیں ہے ماضی کو منسوخ کرنا ‘‘ لہذا کوئی بھی انسان اپنے ماضی کو منسوخ نہیں کرسکتا ہے نہ اس کو بدل سکتا ہے” ماضی کے اقدامات سے اس کے حال اور مستقبل کے اقدامات کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

اگاتھون کی بات فٹ ہوتی ہے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر، جنہوں نے 1998 میں بھی فارن اکاونٹ پر پابندی لگوا کر ملک کا بیڑہ غرق کیا۔ 1998 میں پابندی لگانے سے پہلے اپنے اور کچھ خاص لوگوں کے راتوں رات بینک کھلوا کر ڈالر نکالے اور بیرون ملک ٹرانسفر کیے۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہےکہ اسی قسم کی حماقت ان صاحب نے 2016 میں بھی کرنے کی کوشش کی مگر یہ کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ 2008 میں پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں بھی کچھ عرصہ وزیر خزانہ رہے۔اس دوران بھی  وہ کچھ کرتب دکھا کر روپے کی قدر میں کافی کمی لے کر آئے ۔

ان کا سب سے بڑا کارنامہ اس دورانیہ میں یہ رہا ہے کہ انہوں نے بینک رن (bank run) پیدا کیا۔ بینک رن معیشت کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جس میں لوگ یہ خیال کرتے ہوئے کہ بینک سارے کے سارے دیوالیہ ہونے والے ہیں، اس لیے اپنے پیسے فوراً نکالے جائیں۔ ڈار جیسے فائق وزیر خزانہ نے ملک کی تبائی کے لیے  اپنے بہترین ہنر کا سہارا لیتے ہوئے ملک میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا کہ لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ حکومت فیل ہو گئی  ہے اور وہ لوگوں کے پیسوں پر اور لاکرز پر قبضہ کر  رہی ہے۔

اس دوران لوگوں نے اپنے پیسے نکالنے شروع کر دیے اور لاکرز کو بھی بند کر دیا۔ جس بینک میں لاکرز ملتے نہیں تھے، وہاں آدھی فیس پر ملنا شروع ہو گے۔ پورے ملک میں دہشت سی پھیل گئی۔ اگر یہ استعفا نہ دیتے تو پپلز پارٹی کی حکومت بہت پہلے ہی گر چکی ہوتی۔ صرف تین ماہ کے عرصے کے دوران انہوں نے پاکستانی عوام کی چیخیں نکال دیں۔

اسی طرح پچھلے پانچ سال کے دوران بھی کچھ ایسے اقدامات کیے،( جن کا  ذکر آگے آئے  گا) جن کی وجہ سے پاکستانی سرمایہ دبئی شفٹ ہوا۔ ایک معمولی سا کلرک اکاؤنٹنٹ جس کو کوئی  اپنی فیکٹری میں بھی نہ رکھے وہ صرف اورصرف شریف خاندان سے رشتہ داری کی بنا پر اہم عہدوں پر  فائز رہا۔ پچھلے پانچ سال کے دوران بھی بجائے  اپنی منسٹری اور ملک کی معیشت پر توجہ دینے کے،  ڈار صاحب سارا وقت نواز شریف اور اپوزیشن کے دوران مذاکرات میں مصروف رہتے تھے۔ سارا وقت  یہ ہمیشہ پینتیس مختلف سٹینڈنگ کمیٹیوں، جیسے کہ دفاع، کشمیر، فارن آفس، وغیرہ کی صدارت کے مزے لیتے رہے۔

اسحاق ڈار صاحب کو اس زمانے میں  de fective  deputy prime minter of  pakistan کہتے تھے۔ ان کی پانچ سالہ پولیسیز کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب جب کہ مسلم لیگ کی حکومت ختم ہو چکی ہے، تو ڈالر بلیک میں 126 پر پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے پیٹرول سو روپے لیٹراور بجلی مزید مہنگی۔ اکتوبر 2016 میں یہ بات مشہور کی گئی  کہ آئی  ایم ایف نے ان کو جنوبی ایشیا کا بہترین وزیر خزانہ کا ایوارڈ دیا ہے۔ مگر کچھ دن بعد آئی  ایم ایف نے اس جھوٹ کی تردید کر دی۔ بعد میں پتہ چلا کہ جس اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی  تھی، اس اخبار  کو یہ خبر چلانے کے لیے پانچ پاکستانی حکومتی فرمز نے فنڈز دیے  تھے۔

پاکستانی عوام شاید اس بات سے بھی بےخبر ہوں کہ اسحاق ڈار کی اکنامک پولیسیز کو غیر ملکی میڈیا اور اکنامک ایکسپرٹ طنزیہ “ڈارنامکس “ کہتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ مسلم لیگ کی حکومت کے اکنامک فگرز میں ہیرا پھیری کی۔ ان کو بدل کر بتایا۔مسلم لیگ کی پچھلے پانچ سال کی حکومت میں ڈار صاحب کے تین ایسے بدترین کارنامے ہیں جن کو بدقسمتی سے اپوزیشن لیڈرز نے بھی کبھی اجاگر نہیں کیا۔

1۔ بینک ٹرانزیکشن ٹیکس۔ ہر ملک کی بہتر معیشت کے لیے ضروری ہے کہ بینک ترقی کریں۔ بینک کی ترقی کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ حکومت کی بینک/عوام دوست پولیسی اور عوام کا پیسہ۔ بینکنگ سسٹم پر پہلی ضرب پپلز پارٹی کے دور میں ڈاکٹر حفیظ شیخ نے لگائی ۔ اپنے  آخری بجٹ میں کیش ٹرانزیکشن پرایک معمولی سا ٹیکس لگا کر اس تباہی کی شروعات کی گئی۔ کچھ کہنے والے کہتے ہیں کہ اصل میں یہ تجویز ڈار نے اپنی منسٹری کے وقت دی تھی۔ جسے عملی طور پر حفیظ شیخ نے اپنایا۔ مسلم لیگ نے اپنے پہلے بجٹ میں ہی اس ٹیکس کو مزید وسعت دی۔ ڈار نے بینک کی ہر قسم کی  ٹرانزیکشن پرٹیکس لگا دیا۔ اس پر غضب یہ کیا کہ سی بی آر اور ایف آئی  اے والوں کو ان بڑی ٹرانزیکشن کرنے والے تاجروں کے پیچھے لگا دیتے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاجر برداری نے اپنا پیسہ نکالنا شروع کردیا اور آپس میں کیش کی ڈیلنگ شروع کر دی۔ ہر کوئی  کیش مانگنے لگا۔ چیک اور بینک پر سے اعتبار ختم ہونے لگا۔ عام عوام اگر اپنے ایک اکاونٹ سے دوسرے اکاونٹ کچھ اپنی جمع پونجی (جس پر پہلے ہی سے  ٹیکس دیا جا چکا تھا) شفٹ کرتے تو اس پر بھی ٹیکس لگتا۔ ظلم یہ ہونے لگا کہ حکومت کو ٹیکس دینے کے پیسہ پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک بن گیا جس کی عوام ٹیکس کے اوپر ٹیکس دیتی تھی اور ابھی تک دے رہی ہے۔ بہت سے  بینک ختم ہو گئے  یا آپس میں ضم ہو گۓ اور ان کی  بہت سی  برانچیں ختم ہو گئیں۔

اکانومسٹ کی نومبر تیرہ 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بینک نے بھی حکومت سے کہا کہ اس ٹیکس سے بینکنگ سسٹم پر منفی اثرات  مرتب ہوئے  ہیں۔ لوگ کیش ٹرانزیکشن کی طرف دوبارہ پلٹ گۓ ہیں۔ ریٹیل سیکٹر کے بینک ڈیپوسٹ پندرہ پرسنٹ گر گئے ۔ 177 بلین سے ایک دم 151.58 بلین پر گر گئے ۔ یہ فگر فروری 2017 کے ہیں۔سٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ برائے  سال 2015-16 کے مطابق اس ٹیکس کی وجہ سے بینک ڈپوزٹ میں واضح  کمی نوٹ کی گئی۔ لوگ کیش اور بانڈز کی طرف راغب ہوئے۔

دوسری طرف ڈار صاحب نے اپنے جیسے بڑے فیکٹری اونرز اور بڑے تاجروں کے لیے اس ٹیکس سے بچنے کا حل بھی چور دروازے سے دیا، سوات اور مالاکنڈ کو اس ٹیکس سے مستثنا قرار دے دیا۔ ان بڑے مگرمچھوں نے اپنے اکاؤنٹ سوات اور مالاکنڈ کی برانچز میں کھول دیے۔ اب اس نئے ٹیکس کی بدولت پسی بے چاری غریب عوام۔ جن سے ٹیکس  وصول کرنا مقصود تھا، وہ پھر بھی صاف بچ گۓ۔ اس ایک ٹیکس نے عوام کو بینکنگ سسٹم سے کوسوں دور کر دیا۔۔

2۔ رییل سٹیٹ ٹیکس۔ پراپرٹی اور کنسٹرکشن کے بزنس پر ایک بہت کاری ضرب لگائی  گئی ۔ پراپرٹی پر ٹیکس سی بی  آر کے کرپٹ افسروں کے حوالے کیا گیا۔ ڈی سی ریٹ اتنا زیادہ کر دیا گیا کہ جتنی پراپرٹی کی قیمت نہیں تھی اس سے دگنا ٹیکس لگا دیا گیا۔ اس پر غضب یہ کیا کہ جو بھی کوئی  پراپرٹی بیچتا یا خریدتا، اس کے پیچھے سی بی آر اور ایف آئی  اے والے لگ جاتے۔ اس کا اثر یہ نکلا کہ پراپرٹی کا بزنس مکمل طورپر بیٹھ گیا، تقریباً پچاسی فیصد زمین کی خریداری میں کمی ہوئی۔ حکومت کا ٹارگٹ سات ٹریلین تھا۔ مگر جو ٹیکس پہلے سے مل رہا تھا اس سے بھی محروم ہو گے۔ لاہور میں پانچ سو کنأل کے سودے ہوتے تھے، جن سے حکومت کو اچھی خاصی انکم ہوتی تھی۔

اس ٹیکس کے بعد حکومت اس سے بھی محروم ہو گئی۔ زمین سے متعلق جڑا کنسٹرکشن کا کام بھی ہے۔ کنسٹرکشن کی وجہ سے کوئی  ساٹھ انڈسٹریز چلتی ہیں۔ اس ٹیکس نے جہاں پراپرٹی کے کام پر اثر ڈالا وہاں کنسٹرکشن سے جڑی ان ساٹھ سے زیادہ انڈسٹریز کا بھی بیڑہ غرق کر دیا۔ اس حرکت سے جہاں بزنس پر اثر پڑا وہاں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔ اب اس ٹیکس کے پیچھے دلچسپ کہانی اور وجہ ہے جوہمیں ڈان اخبار کی بیس اگست 2017 کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق اسحاق ڈار نے 5.5 بلین انگلش پاؤنڈ کی مالیت کی دبئی میں انوسٹمنٹ کی تھی۔ یہ انوسٹمنٹ زیادہ تر پراپرٹی کے بزنس میں کی گئی ۔ پچھلے کچھ سالوں سے جب بھی پاکستان میں سختی ہوتی ہے، بڑے پاکستانی بزنس مین اپنا سرمایہ دبئی شفٹ کر دیتے ہیں۔ دبئی میں رئیل  اسٹیٹ کا بزنس سب سے زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ اس ٹیکس لگانے کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا کہ پاکستانی اپنا سرمایہ دبئی شفٹ کرکے ڈار کے بزنس میں انوسٹ کریں۔ کیونکہ جب تک پاکستان میں سختی نہیں ہو گی، تب تک دبئی میں پاکستانی انویسٹر کو لانا ممکن نہیں تھا۔

اب سب سے   اہم سوال یہ ہے کہ ایک معمولی کلرک کے پاس 5.5 بلین انگلش پاونڈز کہاں سے آۓ؟ یاد رہے کہ ایک برٹش پاؤنڈ 150 کا تھا، باقی کا حساب پڑھنے والے خود کر لیں۔ ہمارے ننے کیلکولیٹر نے تو جواب دے دیا ہے۔

3۔گاڑی ٹیکس: ڈار صاحب نے گاڑیوں کو بھی نہ چھوڑا، نہ صرف رجسٹریشن، سالانہ فیس پر ٹیکس لگایا بلکہ جو بھی گاڑی رجسٹر کرواتا اس کے پیچھے سی بی آر اور ایف آئی  اے والے لگ جاتے۔ ان اقدامات سے گاڑیوں کے بزنس پر بہت منفی اثر ڈالا۔ حکومت کے آخری بجٹ جو کہ ڈار صاحب کے مشورے سے بنا، اس میں نان فائلر پر پابندی لگا دی کہ وہ گاڑی نہیں خرید سکتا۔ گاڑیوں کے مقامی صنعت کاروں کے مطابق ان کے ستر فیصد گاہک نان فائلرہیں۔ نئی کمپنیاں جیسے کہ کیا موٹرز، ہنڈائی ، نسان، اور تین اور کمپنیوں نے اپنے پلانٹ یا تو لگا دیے ہیں یا پھر لگا رہے ہیں۔

اب قارین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ستر فیصد گاہک مارکیٹ سے آؤٹ ہو گا تو ان کمپنیوں کا کیا حشر ہو گا؟ فارن انویسٹمنٹ رکے گی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔

اس ملک کی عوام کی بدقسمتی کہ نہ تو کوئی  اچھا حکمران ملا نہ ہی کوئی  اچھا اپوزیشن لیڈر۔ جو بھی ملا اس نے اپنا مفاد سوچا۔

مضمون اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ کسی بھی پارٹی کو ووٹ دینے سے پہلے امیدوار سے یہ ضرور پوچھ لیں کہ ان کے وزیر خزانہ کی کیا پولیسیز ہوں گی؟  وہ عوام کو کتنی آسودگی دیں گے؟ اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر ڈالیں۔ جولائی  پچیس  کے دن درست ووٹ کاسٹ کر کے آپ ان پیرانِ تسمہ پا سے جان چھڑا سکتے ہیں۔

ہم شکرگزار ہیں ہمایوں تارڑ صاحب کے کہ انہوں  نے یہ مضمون لکھنے کی تحریک دی۔

Advertisements
julia rana solicitors

کوٹیشن آفتاب احمد اخوندزادہ کی ایک تحریر سے۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply