ٹوپک امارو دوئم (۱۷۳۸۔۱۷۸۱)۔۔۔ ہمایوں احتشام

جنوبی امریکہ میں استعمار کے خلاف عوامی جدوجہد کی جڑیں خاصی گہری ہیں۔ جن کی ابتدا اتاوالپا کی 1533 میں ہسپانوی استعمار کے خلاف فیصلہ کن جنگ سے ہوتی ہے۔ اس جنگ میں مقامیوں کو شکست ہوئی، لیکن یہ استعمار مخالفت کی آگ کی فقط پہلی چنگاری تھی۔ اس کے بعد انکائی جدید ریاست میں استعمار اور محکوم کی کشمکش چلتی رہی اور 1572 میں ٹوپک امارو اول ستائیس سال کی عمر میں اپنی دھرتی کا دفاع کرتے ہوئے جان سے گزر جاتے ہیں۔

اگلے دو سو سال بدترین جبر اور تشدد کے سال تھے۔ غلامی، بدتر غلامی اور بدترین غلامی کے مصداق یہ لوگ تھے۔ استعمار ان لوگوں کو ان کے گھروں، جنگلوں، بیابانوں سے بے دخل کردیتا ہے۔ دو سو سال ٹوپک امارو اول کی موت کا غم مناتے گزر گئے۔

1780 میں ایک جاں باز اٹھا، جس نے اپنی محکوم قوم کو آنسو بہانے سے روکا اور جنگ کی ابتدا کرنے کا سندیسہ سنایا۔ ویسے دونوں یعنی ٹوپک امارو اول اور دوئم دونوں میں بظاہر کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ ٹوپک امارو اول انکائی جدید ریاست کے حکمران تھے، جبکہ ٹوپک امارو دوئم محکوم قوم کا ایک حصہ تھے۔ مگر دونوں میں ربط ہے، ٹوپک امارو اول نے جس جنگ کا طبل بجایا تھا، ٹوپک امارو دوئم نے اسے منطقی انجام تک پہنچایا۔ ٹوپک امارو دوئم کی موت کے ٹھیک تیس سال بعد ہسپانوی نوآبادیاں پورے جنوبی امریکہ سے ختم ہونا شروع ہوگئیں۔

ٹوپک امارو دوئم سورمانہ، کوسکو صوبہ، موجودہ پیرو میں مارچ 1738 میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے وقت نام حوسے گابرئیل کوندورکانکی نوگیرہ رکھا گیا۔ ان کے والد صاحب تین گاوں کے کوراکا تھے۔ کوراکا ‘انکا’ دور سے ہی چلتا آرہا ایک عہدہ ہوتا تھا، جس میں آج کے مجسٹریٹ کے برابر اختیارات حاصل ہوتے تھے۔ ٹوپک امارو دوئم صاحب کے والدین کی وفات اس وقت ہوگئی، جب یہ بارہ سال کے تھے۔ پھر ان کی پرورش ان کے چچا اور چچی نے کی۔ سولہ سال کی عمر میں سان فرانسیسکو دی بورخا سکول میں داخلہ لیا، جس میں کوراکوں کی اولادوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ بائیس سال کی عمر میں میکائلہ باستیداس سے شادی کی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی والد کے کوراکا کے اختیارات حوسے گابرئیل کو مل گئے۔ اب حوسے گابرئیل مقامی کیوچوا آبادی کے چیف اور بڑے رقبے و 350 گھوڑوں اور خچروں کے مالک بن گئے۔ اس کے بعد تجارت کے سلسلے میں ان کے تعلقات بہت وسیع ہوگئے۔ 81-1780 کی بغاوت میں یہ ذاتی تعلقات بہت کارآمد ثابت ہوئے۔

1770 کی دہائی میں بیونس آئرس اور بالائی پیرو کے تجارتی تعلقات منقطع ہوگئے۔ جس کی وجہ پیرو کی اجارہ دارانہ طرز کی تجارت تھی۔ اس سارے قضیے میں کوزکو صوبے کی تاجر پس گئے، کیونکہ وہ بیونس آئرس اور لیما دونوں کی مصنوعات کا سامنا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ بیونس آئرس اور ہسپانیہ کی جانب سے کی گئی مصنوعات کی افراط کی وجہ سے انڈیز میں اشیا کی قیمتیں گر گئیں۔ 79-1778 میں شدید ٹھنڈے موسم نے انڈیز میں تجارت فنا کردی۔ جس سے مالی بحران پھیل گیا اور بڑی آبادی دیوالیہ ہوگئی۔

بحیثیت پنچ یہ ٹوپک امارو دوئم صاحب کی زمہ داری تھی کہ وہ مقامی انتظامیہ اور عوام کے درمیان مصالحتی کردار ادا کریں۔ مگر انتظامیہ نے محصولات کی شرح بڑھا۔ جس پر حوسے گابرئیل نے احتجاج کی آواز بلند کی۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ سرخ ہندی افراد سے بلامعاوضہ کانوں میں کام کروانا غیر قانونی اور غیر ضروری قرار دیا جائے۔ ان کی احتجاج کی کال کو لیما اور کوزکو میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ دوسری جانب، انھوں نے اپنے آباؤاجداد کے اعزاز میں اپنا نام ٹوپک امارو اختیار کیا۔ جس پر ان کے خلاف کوزکو میں ایک ریفرنس دائر کیا گیا، جو آخر میں بے بنیاد ثابت ہوکر خارج کردیا گیا۔

ویسے تو جبری محنت کا قانون 1720 میں ہی کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، لیکن 1780 تک بولیویا اور ایکواڈور کے انڈیز ترائی والے علاقوں میں مقامی سرخ ہندیوں سے کانوں میں جبری فورسڈ لیبر کرایا جاتا تھا۔ اس جبری مشقت کے بعد جو اجرت ملتی تھی، اس میں سے سرکاری ٹیکسز کاٹے جاتے تھے، آجر اپنا ٹیکس کاٹتا۔ جس سے مزدور کو بہت کم اجرت ملتی۔ کیتھولک چرچ اس لوٹ مار میں پیچھے نہیں تھا۔ وہ عوام سے زبردستی تحائف وصول کرتا، ان سے مذہب کی جذباتی بلیک میلنگ کرکے نذرانے وصول کئے جاتے۔

پوٹوسی، بولیویا کے کانکنی کے علاقے میں سرخ ہندی مزدوروں نے بغاوت کا سماں پیدا کردیا۔ کیونکہ وہاں حالات انتہائی نازک ہوگئے تھے۔

“حکایاتِ انکا حکمران” نام کی کتاب ایک میسٹیکو مصنف نے لکھی، جو انکا حکمرانوں کے ادوار سے متعلق تھی۔ نوآبادیاتی حکمرانوں نے اس کتاب پر پابندی لگا دی۔ جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد برانگیختہ ہوئی۔

حوسے گابرئیل کے بار بار ایوان اقتدار کے دروازے کھٹکھٹانے پر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ حوسے گابرئیل سے مزید برداشت نہ ہوسکا۔ اس پر مستزاد گورنر کوزکو نے حوسے گابرئیل کو قتل کی دھمکیاں دیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا نام حوسے گابرئیل سے تبدیل کرکے ٹوپک امارو رکھا اور نوآبادیاتی عہد کے خلاف بغاوت کا علم بلند کردیا۔

ٹوپک امارو موومنٹ دراصل انکا تہذیب کی واپسی کی تحریک تھی، یہ پسے ہوئے سرخ ہندیوں کے حقوق، معاشی اور معاشرتی حالات کی بہتری کے لئے نمودار ہوئی تھی۔

اس بغاوت کا آغاز نومبر 1780 میں ہوا، جب تنتا صوبہ کے گورنر انتونیو دی آریگا کو اغوا کرکے قتل کردیا گیا۔ بغاوت کے اچانک آغاز کی وجہ ہسپانوی حکومت کی جانب سے لبرل معاشی پالیسیوں کا نفاذ تھا، جس سے سرخ ہندی اور کرئیول باشندے براہ راست متاثر ہورہے تھے۔ ان دونوں گروہوں پر ٹیکسز کا بوجھ انتہائی حد تک بڑھ چکا تھا۔ عوام میں بداطیمنانی کی بنیادی وجہ جنرل حوسے انتونیو تھے، یہ ہسپانوی راج کے پیرو میں نمائندہ تھے۔ شروع میں تحریک کے مطالبات میں سے اہم ترین مطالبہ ٹیکس کی شرح کم کرنا اور جنرل حوسے انتونیو کو ہٹانا تھا۔ وہ اصلاحات کا مطالبہ ہسپانوی راج کے نیچے ہی کرتے تھے۔ مگر بعد میں انکا ریاست کی بازیافت کا قضیہ کھل گیا۔ کسان اور مزدور سمجھتے تھے کہ حوسے گابرئیل دراصل ٹوپک امارو اول کی نسل سے ہیں، سو ان کو انکا ریاست کا حکمران ہونا چاہیے۔ ایسی انکا ریاست جس کا خواب سولہویں صدی کے ایک میسٹیکو مصنف نے دیکھا تھا۔

گورنر آنتونیو آریگا کو پھانسی لگانے کے بعد ٹوپک امارو دوئم نے لوگوں میں انقلابی زیل بھر دی۔ انھوں نے ملک کے طول و عرض سے چھ ہزار مقامی سرخ ہندی، میسٹیکو اور مامبو لوگوں کو اکٹھا کرکے کوزکو صوبہ کے صدر مقام پر چڑھائی کردی۔ باغیوں نے کالکا، کوتا بامباس، تنتا اور دیگر صوبوں پر قبضہ کرلیا۔ مقامیوں نے ہسپانویوں کے گھروں کو لوٹا اور ان کی املاک کو آگ لگا دی۔ اسی دران ملنے والے ہر ہسپانوی کو قتل کردیا گیا۔

میکائیلہ باستداس، جو ٹوپک امارو دوئم کی اہلیہ تھیں، وہ ایک بریگیڈ کی کمانڈ کررہی تھیں۔ ان کی بہادری کا عالم یہ تھا کہ وہ ٹوپک امارو سے زیادہ تشدد پسندانہ حملے کرتی رہیں اور اپنے خاوند کی بعض موقعوں پر کم ہمتی پر سرزنش بھی کردیتی تھیں۔ ان کا انقلابی کردار بھی بہت اہم تھا۔ مگر تحریک کے خاتمے پر ان کا انجام ٹوپک امارو دوئم سے مختلف نہ تھا۔

تحریک اس وقت انجام کو پہنچی جب ٹوپک امارو دوئم نے کوزکو شہر کا محاصرہ کیا اور ہسپانوی نوآبادیاتی انتظامیہ کو لیما اور بیونس آئرس سے امدادی نفری مل گئی۔ جس سے سے گھمسان کا رن پڑا اور باغی بکھر گئے۔ اسی وقت ہسپانویوں نے ٹوپک امارو دوئم اور ان کی اہلیہ کو گرفتار کرلیا۔

اس سے پیشتر جنگ سنگرارا میں ٹوپک امارو کی افواج نے ہسپانوی فوج کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ حتی کہ جنگ کے اختتام پر ایک بھی ہسپانوی شاہی فوجی زندہ نہ بچا۔ اس کے بعد شہروں کو لوٹنے کا عمل شروع ہوا، تب ٹوپک امارو کو احساس ہوا کہ ان کا اس بے ہنگم فوج پر کوئی کنٹرول نہیں رہا۔

کوزکو پر چڑھائی سے پہلے ٹوپک امارو دوئم نے کیوچوا زبان بولنے والوں کو ایمارا زبان بولنے والوں کے ساتھ مل کر لڑنے پر آمادہ کیا لیکن عین جنگ کے دران کیوچوا بولنے والے ٹوپک کٹاری کی قیادت میں الگ ہوکر لڑنے لگے۔ جس سے اتحاد کو زبردست زک پہنچی۔

کوزکو پر قبضے کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ٹائم کی صحیح مینجمنٹ نہ ہونے کو بھی گردانا جاتا ہے۔ جس وقت شہر میں نفری کم موجود تھی، اس وقت کوسکو پر حملہ نہ کیا گیا۔ اس وقت کو ٹوپک امارو دوئم نے رنگروٹ سازی میں ضائع کردیا اور جس وقت نفری آپہنچی تب حملہ کیا گیا، جس کا الٹا نفع کی بجائے نقصان ہوا۔

تاہم کوزکو میں بدترین شکست کے بعد ٹوپک امارو سنگرارا سے تنتا کی جانب پلٹ رہے تھے کہ ان کے اپنے دو افسران نے ان کو بندی بنا لیا۔ ان دو افسران کے نام فرانسیسکو کروز اور وینتورا لاندیتا تھے۔ جب یرغمالیوں نے حمایت کنندگان کے بارے میں انھوں(غدار افسران) نے پوچھا, تو ٹوپک نے جواب دیا کہ یہاں بغاوت کے حمایت کنندگان فقط تم اور میں تھے۔ اب تم استحصال کنندہ ہو اور میں آزادی کی شمع جلانے والا ہوں، جو موت کا بجا طور پر مستحق ہے۔

ٹوپک امارو دوئم کو پھانسی چڑھانے کی سزا سنائی لیکن اسے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی محبوب بیوی، بڑے بیٹے ایپلیتو، چچا فرانسیسکو دی توپا، سالے انتونیو باستداس اور کچھ کپتانوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پھانسی پر چڑھتے دیکھے۔

پلازہ دی آرماس کے سامنے بڑے بیٹے اور بیوی کی زبان کاٹ دی گئی۔ اس کے بعد ان کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ چھوٹے بیٹے فرنانڈو کے سوا پورا خاندان مار دیا گیا۔ 18 مئی 1781 کو ٹوپک امارو دوئم کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ ہاتھ اور پاوں کو گھوڑوں سے باندھ کر کھینچا گیا۔ پھر سر قلم کرکے کوزکو کے چوراہے میں لٹکا دیا گیا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں 1572 میں ٹوپک امارو دوئم کے جدامجد ٹوپک امارو اول کو قتل کرکے ان کا سر لٹکایا گیا تھا۔

ٹکڑے شدہ جسم کے اعضا کو ہر صوبے میں بھیجا گیا۔ جہاں وہ عضو عبرت کے لئے لٹکایا جاتا، تاکہ لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھ جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انڈیز کی بغاوت کا ایک باب تمام ہوا۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply