میکس اور میرا تقسیم شدہ وجود ۔۔۔فوزیہ قریشی

پورے پانچ برس بعد لندن میں شدید برف باری ہو ئی جس کی وجہ سے  موسم آئے دن  خراب رہنے لگا تھا۔۔۔راستوں پر جمی ٹھوس برف  کا شیشے کی مانند  سخت ہوجانا   میرے جیسے  روزانہ  نوکری  پر جانے  والوں کے لئے  سخت تکلیف کا باعث  تھا   ۔ہمیں  روز مرہ کے کاموں میں دشواری کا سامنا  کرنا پڑ رہا تھا۔
میں آج کل ایک خاص بزنس پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا جس کے لئے مجھے روز چلمسفورڈ  Chelms ford  جانا پڑتا تھا۔ گاڑی پر یہ فاصلہ لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کا تھا۔۔۔۔ پردیس آئے مجھے اب کافی عرصہ بیت چکا تھا ۔ میں یہاں کے   ماحول میں  بھی  کافی حد تک ایڈجسٹ ہو چکا تھا۔ میں اچھی طرح سے جانتا تھا کہ یہاں برف باری کے دوران بھی کام کاج نہیں رُک سکتے۔۔۔۔۔ چاہے طبعیت کام کرنے پر مائل ہو یا نہ ہو۔۔
یوں بھی تو کاروبار گھر بیٹھے نہیں چلتے۔
مجھے اپنی لاپرواہیوں کی وجہ سے بار ہا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔۔۔۔اب میں ہر گز ایسا نہیں چاہتا تھا۔ چند سال محنت کرکے باقی  کی زندگی آرام و سکون سے گزارنے کا خواہاں  تھا۔

آج جب میں گھر سے نکلا تو ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی تھی۔ میرا خیال تھا ۔۔۔واپسی پر رک جائے گی۔۔ لیکن جب میں کام ختم کرکے باہر آیا تو منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ ایک طائرانہ نظر دوڑائی تو اندازہ ہوا کہ سبھی راستے برف سے بُری طر ح اَٹے ہوئے ہیں۔ لمحے کے لئے سوچا رات یہیں گزار لی جائے۔۔۔۔ پھر ارادہ بدل دیا ۔
وجہ “میرا خاص دوست ” میں رات نہیں رک سکتا تھا کیونکہ اس کا  مخصوص  کھانا  گھر پر ہی تھا۔
معصوم دوست اپنی بھوک کا اظہار لفظوں میں نہیں کر سکتا تھا۔ ہمیشہ مجھے اس کے چہرے کے تاثرات سے ہی اندازہ لگانا پڑتا  کہ وہ کیا چاہتا ہے؟
وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھ، اس لئے مجھے ہی ان باتوں کا دھیان رکھنا پڑتا تھا۔۔گو کہ اس کی چھٹی حِس  ضرورت سے زیادہ ہی  تیز تھی۔آس پاس کی بظاہر نہ نظر آنے والی  آفات کو بھی  وہ باآسانی بھانپ لیتا تھا  ۔۔جیسے ہی اسے کسی خطرے کی بُو محسوس ہوتی  وہ شور مچانا شروع کر دیتا ۔۔مجھے اکثر اس کے چہرے کے تاثرات اور آواز کے اتار چڑھاؤ سے اندازہ لگانا پڑتا تھا  ۔۔
اپنے اس خاص دوست کی خاطر ہی مجھے اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔وہ صرف میرا دوست ہی نہیں تھا بلکہ میری جان، میراساتھی، میرا وفا دار، میرا محافظ بھی تھا۔

میں نے آس پاس نظر دوڑائی تو سبھی گاڑیاں مجھے ایک جیسی دکھائی دیں ۔تھوڑی دیر کی تگ و دو کے بعد آخر مجھے میری گاڑی مل گئی۔۔۔۔میں نے گاڑی کو صاف کیا۔اس کام میں مجھے تھوڑی دیر ضرور لگی لیکن گاڑی اب چلنے کے لئے تیار تھی حالانکہ میرے ذہن میں کچھ خدشات بھی ابھر رہے  تھے کہ کہیں گاڑی سِکِڈ نہ کر جائے ۔ برف باری اگرچہ شام سے ہو رہی تھی اور سرد ہوا کی وجہ سے وہ کافی حد تک جَم بھی چکی تھی۔۔۔۔اس پر پھینکے جانے والا نمک بھی اپنا اثر کھو چکا تھا۔خطرے کی طرف یہ میرا پہلا قدم تھا۔اگلے لمحے مجھے خیال آیا کہ نئے ماڈل کی  میری بی ایم ڈبلیو اور اس میں موجود TRACTION CONTROL   اسے  ایک انچ بھی سرکنے نہیں دے گا۔یہ  سوچتے ہوئے میں آگے چل پڑا۔تھوڑی ہی ڈرائیو کے بعد مجھے کافی کی طلب محسوس ہوئی اور ساتھ  ہی ساتھ  اس حسین سرد موسم میں سِگار سُلگانے کی خواہش بھی شدت سے انگڑائیاں لینے لگی۔۔۔
سِگار سُلگاتے ہوئے مجھے   یہ خیال آیا کہ میرے دوست کو تو اس سے  الرجی ہے۔  سردی کی وجہ سے میں گاڑی کا شیشہ  بھی نیچے  نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ میں جانتا تھا  باہر چلنے والی سرد ، برفیلی ہوا کھڑکی کے راستے میری ہڈیوں میں سما جائے گی۔ اس لئے میں نے  اپنا یہ ارادہ  بھی ترک کر دیا۔۔۔۔آسمان سے برف کے ذرے روئی کے گالوں کی مانندپھر سے گرنے لگے۔۔ دور دور تک چاند کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن چاندنی ہر سُو پھیلی نظر آرہی تھی۔۔۔۔سڑک پر میں اکیلا  محوِ سفر  تھا، کوئی گاڑی نظر نہیں آرہی تھی ۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ بجلی کی ہائی وولٹج تاریں بھی مجھے اپنے ساتھ چلتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔۔ کبھی کبھی وہ تاریں مجھے اپنی جانب نیچے آتی محسوس ہو تیں تو کبھی لگتا کہ وہ میری گاڑی کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔۔۔۔ پھر یک دم سے واپس اپنی جگہ پر چلی جاتیں۔۔ ۔

عجیب سی صورتحال تھی۔ جن نظاروں کو کبھی دن کی روشنی میں بھی محسوس نہ کیا تھا وہ آج رات کے اس پہر مجھے محسوس ہورہے تھے ۔۔گاڑی کی سپیڈ 70 ہی تھی لیکن مجھے اپنی گاڑی بہت بھاری محسوس ہوری تھی ۔۔ مجھے اسے دھکیلنے کے لئے ضرورت سے زیادہ ہی زور لگانا پڑ رہا تھا۔۔ یوں تو گاڑی ڈھلوان کی طرف گامزن تھی لیکن اس کے بھاری بھرکم وجود سے احساس ہو رہا تھا کہ میں بلندی کی طرف جا رہا  ہوں۔۔ جبکہ میں  ڈھلوان کی طرف رَختِ سفر تھا۔

یہ پہاڑی علاقہ تھا۔۔سڑک کے دونوں اطراف  سفید چادر سے ڈھکے خوبصورت پہاڑ تھے۔ اس وقت میں اترائی  کی طرف رواں دواں تھا لیکن گاڑی کو آگے دھکیلنے کے لئے زور مجھے چڑھائی جتنا لگانا پڑتا تھا۔۔ کسی کسی وقت میرے ساتھ بیٹھا میرا  وہی دوست بے چینی کے عالم میں شور مچانا شروع کر دیتا تھا۔ یکدم اس نے عجیب سی آواز میں بولنا شروع کر دیا۔ میں جو پہلے ہی سفر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اس کی بےتابی پرمڑ کر بیک مرر(شیشہ) سے اس کی طرف دیکھتا ہوں اور اسے خاموش ہونے کو کہتا ہوں  کہ اچانک کیا دیکھتا ہوں؟  ” ایک کالے رنگ کا ہیولا ” میری گاڑی کے بائیں  جانب   باہر کی طرف دوڑ رہا ہے۔۔۔ جیسے مجھ سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہو یا پھر میرے تعاقب میں۔۔۔پل بھر کے لئے ایک عجیب سی کپکپی  میرے سارے وجود  پر طاری ہوجاتی ہے لیکن جلد ہی میں سنبھل جاتا ہوں۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میرے ساتھ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟ کبھی لگتا  شاید  میرا وہم ہے اور کبھی حقیقت سا گماں ہوتا ۔۔۔

میں عجیب سی کشمکش میں تھا میرا وجود تین حصوں میں  بَٹ چکا تھا۔ایک وہ جو میں ہوں۔۔بڑے انہماک سے  گاڑی چلانے والا۔۔جس کے دونوں ہاتھ سٹیرنگ پر  ہیں۔۔ دوسرا ، آس پاس کے عجیب مناظر کی کشمکش میں کھویا ہوا ہے۔۔۔۔

اچانک میری سوچنے کی حس بھی تین حصوں میں ڈائیورٹ (تقسیم) ہو جاتی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میرے ساتھ کچھ غلط ہورہا ہے؟ لیکن کیا ؟ میں یہ سمجھ نہیں پارہا تھا ۔۔اسی  کشمکش میں، میں   گاڑی کو غلط سمت لے جاتا ہوں۔۔۔احساس اتنا شدید تھا کہ لگتا ہے کہ جو گاڑی دوسری سمت  لے گیا  ہے وہ میرے وجود کا بٹا ہوا  حصہ ہے۔پھر احساس  ہوتا ہے کہ  میں  کہیں  گاڑی  کسی چیز میں مار ہی نہ دوں اور نقصان نہ کر بیٹھوں۔۔ میرا فوکس  بیک وقت  ٹھیک سمت میں جاتی گاڑی اور غلط سمت میں جاتی گاڑی دونوں طرف  ہے۔۔ میں سٹیرنگ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامے ہوئے سوچتا ہوں۔۔۔۔ وہ کون ہے؟ جو گاڑی غلط سمت لے  گیا ہے اگر میں یہاں ہوں  تو۔۔

ساتھ ہی مجھے  یہ لگتا ہے کہ  میں غلط راستے کی سمت نکل آیا ہوں ۔یہ احساس ہوتے ہی میں  گاڑی  سائیڈ   پر کھڑی کرتا ہوں اور  گاڑی میں لگے   نیویگیشن سے صحیح راستے  پر جانے والے  نیویگیشن  کی  سیٹنگ  کرتا ہوں۔۔اسی لمحے مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں تو یہیں ہوں گاڑی چلا رہا ۔۔تو وہ کون ہے؟۔ ۔یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟

میں کون ہوں؟ وہ جو راستہ بھٹک گیا ہے یا وہ جو راستے پر ہی ہے۔۔۔
میں ایک ہی وقت میں تین جگہوں پر کیسے ہوں؟ یا اللہ یہ کیسے ممکن ہے؟
میں مکمل ہوش وحواس میں ہوں۔۔۔۔اب میرے وجود کا تیسرا حصہ گھر پہنچ چکا ہے۔۔۔
میں اپنے  جوتے  اتار کر سائیڈ ٹیبل کے ساتھ رکھتا ہوں اور پھر بیڈ پر بیٹھ جاتا ہوں۔۔۔ میری بیگم ،  میری  آہٹ سے  نیند سے  اُٹھ جاتی ہے۔میری طرف دیکھ کر پوچھتی ہے۔۔ ذیشان گھر نہیں آئے۔۔ میں اس کی طرف منہ کرکے جواب دیتا ہوں۔۔۔میں آگیا ہوں۔

وہ میری بات سنے بغیر ، دوسری سائیڈ  ٹیبل سے فون اٹھاتی ہے اور  میرا ہی نمبر ڈائل کرتی ہے۔۔ اس کے فون کی سکرین پر موجود نمبر مجھے صاف دکھائی دیتا ہے اور چہرے کی بے چینی بھی۔۔۔ وہ کال ملا کر فون کان سے لگاتی ہی ہے کہ میرے موبائل پر رنگ ٹون بجتی ہے۔۔  گاڑی کے ڈیش بورڈ پر پڑا فون بجنے لگتا ہے۔۔۔ میں فون اٹھا لیتا ہوں اور یہ کہہ کر فون بند کر دیتا ہوں کہ بیس منٹ تک پہنچ رہا ہوں۔۔اگر میں گاڑی میں تھا تو بیڈ پر کون تھا؟

اسی سوچ کے ساتھ میرے سارے ویژن غائب ہو جاتے ہیں۔ اب میں ایک ہوں صرف ایک وجود۔۔۔۔ جس کے دونوں ہاتھ سٹیرنگ پر جمے ہوئے ہیں اور دماغ سامنے سڑک پر فوکس ہے۔۔بیس منٹ  بعد میں با خیریت گھر پہنچ جاتا ہوں۔۔۔

آج اس واقعے کو تین مہینے گزر گئے ہیں میں نے اس کا ذکر گھر میں کسی سے نہیں کیا۔۔جب بھی میں اور میرا  دوست  اس راستے سے گزرتے ہیں  تو  مجھے عجیب سی بے چینی محسوس ہوتی ہے اور میرا دوست شور مچانے لگتا ہے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

پل بھر کے لئے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ “اس دن میرا کون سا وجود حاضر تھا”؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply