انتخابات میں ہر جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرے۔ ملک میں اس وقت نون لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی بڑی جماعتیں ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنی وجوہات کی بنا پر سمٹ رہی ہے۔ آنے والے انتخابات کے نتائج کے بعد ہے ممکن ہے آزاد امیدوار، جیسا کہ زرداری صاحب امید لگائے بیٹھے ہیں، پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں، یوں پیپلز پارٹی نمبر گیم کے اعتبار سے سودے بازی کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ پنجاب سے ورنہ براہ راست قومی اسمبلی کی 5 سے زائد سیٹیں نکالنا پیپلز پارٹی کے لئے بہت مشکل ہے۔ یہ ایک اندازہ ہے، ممکن ہے اگلے دنوں میں پیپلز پارٹی اپنی پوزیشن پنجاب میں بہتر کر لے، مگر کتنی؟ ایک دو سیٹیں مزید اور بس۔ مقابلہ دراصل نون لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوگا ارو نہایت جاندار ہوگا۔ ان میں سے جو پارٹی بھی جیتے گی وہ انتخابات کو شفاف اور جو ہار جائے گی، وہ خلائی مخلوق اور اسی نوع کے دیگر نعروں کا سہارا لے گی۔
مذہبی جماعتوں کا اتحاد اپنی ہار کے بعد یعنی متوقع سیٹوں سے کم لینے کے بعد ملک میں سیکولر طاقتوں اور مغربی ممالک کے ایجنڈے کا رونا روئے گا۔ 2013ء کے انتخابات کے نتائج کو پی ٹی آئی نے 35 پنکچرز کا نام دیا تھا اور اس حوالے سے ایک طویل دھرنا بھی دیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے بھی 2013ء کے انتخابات کو آر اوز کے الیکشن قرار دیا تھا۔ لیکن نون لیگ کی حکومت نے مدت پوری کی، اب نون لیگ یہ سمجھ رہی ہے کہ اسے انتخابات میں مشکل پیش آئے گی یا اسے متوقع سیٹیوں سے کم ملیں گی۔ اسی خوف کے سبب پہلے ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ انتخابات اگر شفاف نہ ہوئے تو جمہوریت اور ملک کا بڑا نقصان ہوگا اور ترقی رک جائے گی۔ یہی خطرہ عمران خان کو بھی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی پارٹی حکومت نہ بنا سکی تو لازمی انتخابات میں دھاندلی ہی ہوگی، جبکہ پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل بھی دبے لفظوں میں انتخابات کی حیثیت پر قبل از وقت ہی انگلی اٹھا رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس پہ طویل بحث کی گنجائش موجود ہے۔ کالم کے مگر اپنے تقاضے ہیں اور اختصار لازم ہے۔
ہمیں اس میں کلام نہیں کہ ہمارا سیاسی کلچر کسی نظریئے کے بجائے برادری ازم، وڈیرہ شاہی، نوکریوں اور گلیوں کے لالچ، فتووں کی للکار، تھانہ کچہریوں کے خوف اور ایسی ہی تکلیف دہ حقیقتوں کا عکس ہے۔ پارٹیاں اپنے منشور کا اعلان تو کرتی ہیں، مگر ان پہ عمل نہیں کیا جاتا۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑنے کا اعلان تو کرتی ہیں، لیکن ابھی تک سوائے جماعت اسلامی کے، کوئی بھی سیاسی جماعت خاندانی بادشاہتوں سے جان نہیں چھڑا پائی۔ نہ کسی جماعت نے الیکٹ ایبلز سے نجات حاصل کی ہے۔ ہر جانب پریشر گروپس کا زور ہے۔ وہ معاشرے جہاں نظریات کے بجائے مفادات پر سیاست ہوتی ہے، وہاں دھاندلی کا امکان بھی ہوتا ہے اور قتل و غارت گری کا بھی۔ ایسے معاشروں میں انتخابات پر امن نہیں ہوا کرتے بلکہ ہیجان خیز اور نفرت آور ہوتے ہیں۔ ایسے سماج کے اخباری دانشور بھی سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن کر سماج کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذارنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ سیاست نظریئے کے بجائے گروہی مفادات پر ہوتی ہے۔
ایسی صورتحال میں جبکہ سیاسی جماعتوں کے پاس سماج کی بہتری و بھلائی کا کوئی واضح اور قابل عمل منصوبہ نہ ہو ،تو وہاں الزام تراشیوں کے سہارے معاشرتی سوچ کا رخ تبدیل کرنے کی کوششوں کو تیز تر کر دیا جاتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئی عشروں سے ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ جو امیدوار ہار جاتا ہے، وہ اپنی سیاسی کم فہمی کے بجائے مخالف امیدوار پر دھاندلی کا الزام لگا دیتا ہے۔ جو سیاسی جماعت مطلوبہ ہدف حاصل نہیں پاتی، وہ اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومت کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی درست سیاسی رویہ ہے۔ دھاندنی ہوتی ہوگی مگر اس قدر نہیں، اب آنے والے انتخابات میں تو اس کے امکان اور بھی کم ہیں کہ اب روایتی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بہت متحرک ہے، بلکہ سوشل میڈیا نے تو روایتی میڈیا کو بھی سخت متاثر کیا ہے۔ ایسے بھی سابق وزیراعلٰی پنجاب یا عمران خان یا کسی بھی دوسرے سیاسی رہنما کی جانب سے قبل از وقت ہی انتخابات میں دھاندلی کے امکان کو ظاہر کرنا سوائے سیاسی خوف کے اور کچھ بھی نہیں۔ نون لیگ اگر جیت جائے گی تو وہ اسے اپنی کارگردگی اور ترقی سے منسوب کرے گی اور پی ٹی آئی و پیپلز پارٹی دھاندلی کا روایتی رونا روئیںگے، جبکہ پی ٹی آئی اگر جیت جاتی ہے تو لازمی نون لیگ، “خلائی مخلوق” کے کردار کا ذکر کرکے انتخابات کی حیثیت کو غیر شفاف قرار دے گی۔ آخری تجزیے میں یہ رویہ سماج کو تقسیم کرنے کے عمل کو تیز کرے گا اور ہم بحثیت قوم اپنے معاشی و اخلاقی اور سماجی بہتری کے اہداف سے بہت دور ہوتے چلے جائیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں