بچے، سکندر اعظم کے گھوڑے

مقدونیہ کا بادشاہ فلپ اپنے بیٹے سکندر (ایلگزینڈر) کے ساتھ دربار میں موجود تھا. ایک شخص بہت خوبصورت گھوڑا بیچنے آیا. گھوڑے کو امتحان کے لئے میدان میں اتارا گیا تو اس نے شرارت شروع کر دی، کسی کو قریب نہیں آنے دیتا تھا. بادشاہ کے شاہی سوار اپنی پوری کوشش کے باوجود اس پر سوار نہ ہو سکے تو انہوں نے یہ ریمارکس دئیے کہ “یہ گھوڑا سدھایا نہیں جا سکتا، یہ کسی کام کا نہیں”.سکندر جو باپ کے قریب موجود تھا کہنے لگا کہ تم لوگ اپنی نادانی اور کم ہمتی سے ایسا بہترین گھوڑا کھو رہے ہو. باپ نے سنا تو کہنے لگا کہ کیا تم اسے قابو میں لا سکو گے؟ سکندر نے کہا ضرور. باپ نے پوچھا اگر نہ کر سکو تو؟ سکندر نے کہا اگر قابو نہ کر سکا تو قیمت میں ادا کروں گا. سکندر میدان میں اترا اور اس نے گھوڑے کا منہ سورج کی طرف کر دیا کیونکہ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ گھوڑا اپنی ہرچھائی سے بدک رہا ہے. اس نے گھوڑے کی باگ پکڑی ،کچھ دور تک گیا اور اچھل کر اس پر جا بیٹھا . گھوڑا اچھل کود کے بعد شانت ہو گیا. جب وہ اترا تو بادشاہ نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا “بیٹا مقدونیہ تیرے لئے بہت چھوٹا ہے، تجھے کوئی اور سلطنت چاہیے جو تیری بلند ہمتی کے موافق ہو”.

Advertisements
julia rana solicitors

ہمت کیجئے ،سکندر بنیے، سلطنت آپ کی ہو سکتی ہے لیکن اپنے ارد گرد موجود بچوں پر نظر کیجیے. بچہ ڈر رہا ہوتا ہے اور اساتذہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ سدھایا نہیں جا سکتا. ہر نونہال کوئلے میں رنگا ہیرا ہوتا ہے جسے جوہری کی ضرورت ہوتی ہے. سان پر چڑھا کر قابل جوہری ہیرے کو کوئلے سے الگ کرتا ہے پھر اس کی خراش تراش کر کے اس پر نکھار لاتا ہے. ہیرا کوہ نور نہ ہو، پھر بھی قیمتی تو ہوتا ہی ہے. بچوں پر دھیان دیجئے، کتنے ہی سکندر بے دھیانی کی بھینٹ چڑھ چکے، مزید کتنے ضائع ہو رہے ہیں. زمانہ سدھارنے کا یہی فارمولہ ہے کہ تازہ نسل سدھاری جائے. کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
The philosophy of the classroom will be philosophy of government after 20years.
درسگاہ کی ذہنیت بیس سال بعد حکومت کی ذہنیت ہو گی. افسوس کہ درسگاہوں کی فکری و اخلاقی تعمیر میری معلومات کی حد تک ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں.

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply