ٹیٹنس کا ٹیکہ کتنا ضروری ہے؟- ڈاکٹر نویدؔخالد تارڑ

وہ جواں سال خوش شکل نرس تھی۔ ہمارے پاس ہسپتال میں کام کر رہی تھی کہ اس کی شادی کے دن آ گئے۔
شادی سے ایک ہفتہ پہلے وہ چھٹی لے کر اپنے علاقے میں واپس چلی گئی۔ رخصتی سے پہلے اس سے یقین دہانی لی کہ وہ شادی کے بعد بھی ہسپتال میں کام جاری رکھے گی ، بھاگ نہیں جائے گی۔ اور یقین دہانی کے بعد ہم سب نے اسے خوشیوں کی دعائیں دیتے اور ہنسی مزاح کرتے رخصت کیا۔

شادی والے دن اس کا بھائی ہسپتال آیا، یہ بتانے کے لیے کہ وہ اب کبھی دوبارہ ہسپتال نہیں آئے گی۔
اس لیے نہیں کہ شادی کے بعد اس کے سسرال والوں نے نوکری پہ پابندی لگا دی ہے بلکہ اس لیے کہ وہ شادی تک پہنچ ہی نہیں پائی۔
اس نے بتایا کہ “وہ مر گئی ہے۔ گزشتہ روز اس کا انتقال ہو گیا ہے۔”
ہم سب یہ بات سُن کر ششدر رہ گئے تھے۔ جسے ہنستے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خوشیوں کے لیے رخصت کیا تھا، اس کی موت کی خبر پہ کیسے یقین آ جاتا۔

اس کے بھائی نے بتایا کہ اس نے کان چھدوائے تھے۔ کان چھدواتے ہوئے استعمال کیے جانے والے آلہ جات جراثیم سے پاک نہیں تھے۔ اسے ٹیٹنس کا انفیکشن ہو گیا تھا۔ وہ کچھ دن زندگی کی جنگ لڑتی رہی اور پھر ہار کر ہمیں روتا ہُوا چھوڑ گئی۔ جس گھر میں خوشی کے شادیانے بجنے تھے ، اس گھر میں کہرام مچ گیا ، صفِ ماتم بچھ گئی۔
یہ سب بتا کر وہ روتا ہوا اُٹھا اور ہمیں دُکھی چھوڑ کر چلا گیا۔

زندگی کی بےاعتباری میں تو کوئی شک نہیں لیکن وہ احتیاط جو ہم پہ فرض ہے وہ تو ہمیں کرنی ہی چاہیے۔ کسی جگہ سے کان چھدواتے ہوئے یا بغیر کسی ڈگری کے دانتوں کا علاج کرنے کے لیے بیٹھے ہوئے دھوکے بازوں کو دانت دکھاتے ہوئے یہ تو دیکھنا ہی چاہیے کہ اس کے آلات جراثیم سے پاک ہیں یا نہیں۔ سڑک پہ گر کر چوٹ لگوا بیٹھیں یا جھاڑو کا تنکا ہی انگلی میں چبھ جائے یا کسی ایسی چیز سے زخم لگ جائے جس تک مٹی میں موجود جراثیم پہنچ سکتے ہیں تو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ٹیٹنس کا حفاظتی ٹیکہ ضرور لگوائیں۔ اس معاملے میں بالکل سُستی نہ کریں۔ یہ ایسی خطرناک بیماری ہے کہ اس میں جسم کے پٹھوں میں شدید ترین اکڑاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ اتنا شدید کہ انسان سیدھا تک نہیں ہو پاتا ، بس مسلسل اور شدید ترین تکلیف سہنے پہ مجبور ہوتا ہے۔ خدانخواستہ کوئی اس کا شکار ہو جائے تو اس کے لیے کوئی باقاعدہ علاج بھی میسر نہیں ، بس وقتی علامات سے متعلقہ ادویات دے کر وائرس کے ختم ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے اور اکثر وائرس کے ختم ہونے سے پہلے پہلے انسان ختم ہو جاتا ہے۔

ایک دفعہ اس کا حفاظتی ٹیکہ لگوا لیا جائے تو عموماً پانچ سال تک جسم میں حفاظتی خلیے موجود رہتے ہیں۔ پانچ سال سے چھوٹے بچوں کو ویسے ہی یہ ٹیکا لگوانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کو جو حفاظتی ٹیکوں کا کورس لگوایا جاتا ہے، یہ اسی میں شامل ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

احتیاط کریں ، اپنی جان کی خود حفاظت کریں اور دوسروں کو بھی آگہی دیں۔ سلامت رہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply