اردو کے مجبور، لاعلم اور لاچار ناقدین۔۔۔احمد سہیل

پہلے بتا دوں کہ یہ تحریر دراصل بکھرے ہوئے خیالات ہیں لہذا ” انتشار متن” نظر آئے گا۔ کیونکہ یہ علمی یا تنقیدی مضمون نہیں ہے بلکہ دوستوں کی نشست میں ہونے والی گفتگو ہے اس لیئے اسے ہلکے ماحول میں لیا جائے۔ اس گفتگو کا مقصد اردو تنقید کی مجبوریوں کی وساطت سے موٹی موٹی باتوں کا احاطہ کرنا ہے ۔ یہ تو حقیقت ہے کہ اردو کا ادبی نقاد مجبور اور لاچار ہے اور اس میں کوئی دو آرا نہیں ہیں۔ اردو کا نقاد اپنی زندگی میں جتنی شعبدہ بازی کرتا ہے ، اتنا تو بازی گر موت کے کنوئیں میں بھی نہیں کرتا ۔
اردو کا نقاد جس معاشرے میں سانسیں لے رہا ہے دراصل وہ مجبوریوں کے خمیر سے ہی بنا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ جیسا معاشرہ ہو گا ویسا ہئ نقاد بھی ہو گا۔جہاں انہیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا، ان کا ذہن اور فکر بنجر ہے، ۔جہاں سیم و تھور لگی ہوئی ہے ۔ وہ نہ حریت فکر کو سمجھتا ہے اور نی اسطوریہ کی جمالیات سے اس کا کوئی علاقہ ہے ۔ وہ اندر سے کھوکھلا ہے اور تازہ ہوا کے لیے کھڑکی نہیں کھولتا۔وہ خوف زدہ ہے ۔ جوانمردی سے علمی اور فکری محاذوں پر نبردآزما ہونا اس کے بس کی بات نہیں ہے ۔

اردو کا نقار اس لیے مجبور ہے کہ اس کی”نقادی” اس کےروزگار سے جڑی ہے اردو کے زیادہ تر نقاد تعلیمی اداروں میں ” استادی” کے پیشے سے منسلک ہیں اور تددریسی اور نصابی ضرورتوں کے تحت تبصرے لکھ کر اس کو “تنقید” کا نام دیتے ہیں اور دوسروں کو مجبور کرتے ہیں کہ انھیں تنقید کے اعلی مقام پر جگہ دی جائے۔ ہمارے اردو معاشرے میں استاد کی بات کی نفی کرنا، بحث ومباحثہ اور اختلاف کرنا بہتر تصور نہیں کیا جاتا۔ ان تدریسی اور نصابی نقادوں نے قاری کو کمرہ جماعت میں بیٹھا ہوا تابعدار شاگرد/ چیلا سمجھ رکھا ہے اور یہاں تنقید ان نقادوں اور قاری دونوں کی ہئ مجبوری بن جاتی ہے ۔
خواجہ الطاف حسین حالی کوئی نظریاتی ادیب یا نقاد نہیں تھے ۔ وہ مقصدی اور اخلاقی ادب کی بات کرتے تھے ۔حالی نے زمانے کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے ”ادب برائے ادب“ کے نظرئیے کی نفی کی اور ادب کے مقصدی پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے”ادب برائے زندگی“ کا نظریہ پیش کیا اور اُردو شاعری اور اسکی شعری اصناف پر اپنے تنقیدی نظرئیے کا اظہار کیا۔ حالی کی اولیت اس بات میں ہے کہ انہوں نے پہلی بار اردو میں نظر ی تنقید کو شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا اور وہ پہلے اردو ناقد ہیں جنہوں نے ایک منظم اور مربوط شکل میں تنقیدی نظریات کو پیش کیا۔ حالی نے سب سے پہلے معقول اور جاندار قسم کی تنقید کی ابتداءکی۔ انہوں نے نہ صرف تنقید کے نظری مباحث کا آغاز کیابلکہ عملی تنقید کے تحت غزل، قصیدہ اور مثنوی کا تنقیدی جائزہ لینے کی بھی کوشش کی۔ نیز نظری تنقید کے اصولوں کی روشنی میں بعض شعراءکے بارے میں اپنے تاثرات بھی مرتب کیے۔ حالی وہ پہلے نقاد ہیں جنہوں نے خیال اور مادہ کے تعلق کو محسوس کیا انہوں نے ادب کے قومی اور ملی پہلو کی اہمیت ذہن نشین کرائی۔ اس کے مقصدی ہونے پر زور دیا۔ اس طرح ترقی پسند تحریک اور تنقید کی جھلک سب سے پہلے حالی کے ادبی اور تنقیدی نظرئیے میں نظر آتے ہیں۔
وہ غزل کو بچیوں سے دور رکھنا چاہتے تھے تاکہ ان کے اخلاق اور پاکیزگی برقرار رہے ۔ وہ تو حادثاتی طور پر اردو تنقید کے بانی بن گئے۔ حالی لاہور میں انگریزی کتابوں کے اردو ترجموں کی زبان اور لہجہ ٹھیک کرتے کرتے ہوئے مغرب کے نئے فکری اور تنقیدی رویوں سے آگاہ ہوئے ۔ حالی انگریزی نہیں جانتے تھے یا انھیں انگریزی سے واجبی شد بد تھی۔ انھوں نے کوئی طبع زاد تنقید نہیں لکھی۔ ان کی “تنقیدی” کتاب مقدمہ شعر وشاعری” اصل میں ” مسدس حالی” کا مقدمہ تھا۔ یہ کتاب ورس ورتھ کے لیرکل بیلٹ کے ایک مقدمے سے متاثر ہوکے قلم بند کیا گیا تھا۔ اور ترجموں کی مدد سے یورپ کے اسول انتقادیات سے رو شناس ہوئے۔ حالی کے بہت سے ناقدین ان کے اس ترجمے کو سادگی اور جوش اور اس کی تشریح کو نہایت شفاف درست اور مناسب تصور کرتے ہیں۔ مگر SENSUOUS کا ترجمہ ” اصلیت ” غلط قرار دیا ہے۔ ۔ اس لفظ کا ترجمہ ” احتسابی حسیاتی یا حسی ہونا چاہیے۔ محمد حسین آزاد کی کہانی بھی اس سے قدرے ملتی جلتی ہے ۔ ادھر نظریاتی اور سکہ بند اردو کے ادب اور نقادوں نے اور مشکوک بنا دیا۔ مثال کے طور پر ویتنام کی جنگ کے دوران اردو کے ترقی پسندوں مثلا فیض احمد فیض، سردار جعفری، سید سبط حسن، حبیب جالب، حمید اختر، ظہیر کاشمیری، شوکت صدیقی، قمر رئیس، محمد حسن،سجاد ظہیر اور عابد حسین ، منٹو وغیرہ نے مغرب اور امریکہ سے اپنی شدید ناراضگی کا اطہار کیا ارو اس کو ” نیلا سامراج ” کہتے ہوئے اس پر اپنے غصے کا اظہار بھی کیا۔ لیکن اردو کی یساریت پسند دانشوروں نے ہنگری،چیکو سلووکیہ افغانستان پر سویت روس اور چین کے تبت پر غاضبانہ “سرخ سامراج” کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھا اور نہ ہی اس کی زبانی کلامی مذمت کی۔ دوسری جانب ہسپانوی خانہ جنگ کے زمانے جنرل فرانکو کے خلاف ادیبوں نے قلم کے ساتھ بندوق بھی اٹھائی تھی۔اوریہ ادیبوں کی قائم کردہ عالمی پریگیڈ کا حصہ بنے۔ جن میں ژان پال سارتر، آندرے مارلو اور ارنسٹ ہیمگوے پیش پیش تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ادھر عبد رحمان بجنوری ، محمد حسن عسکری، وزیر آغا، سلیم احمد وارث علوی کی تنقید تاثراتی تھی۔ وزیر آغا نے اساطیری کو بغیرسوچے سمجھے اردو ادب میں شامل کر لیا۔
محمد حسن عسکری نے مولانا اشرف تھانوی کی ” بہشتی زیور” میں اپنی تنقیدی خوابوں کی تعبیرات تلاش کرنا چاہیں جبکہ سلیم احمد واراث علوی سلیم احمد باقر مہدی نے شعبدہ نما فکاہیہ اور انشائیہ نما تنقید لکھی۔ اور یوں تنقید کی موت ہو گئی اور تنقید مجذوب کی بڑ بن گئی ۔ تنقیدی مجبوریوں میں بھی آج کچھ زیرک نقاد اور ادبی نظریہ دان دنیا میں رائج عصری تنقیدی رویوں جیسے ہیت پسندانہ تنقید، سوانحی تنقید، تاریخی تنقید، صنفی تنقید، نفسیاتی تنقید، عمرانیاتی تنقید، اساطیری تنقید، قاری اساس تنقید ، ردتشکیل تنقید اور ” پولی تھینک تنقید” کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اردو تنقید کو مجبوری اس لیے بھی ہوئی کہ اس میں مناجیاتی ہنر کا فقدان ھے۔جو زیادہ تر شاعرانہ نوعیت کی ہوتی ہیں۔ادھر جدیدیت اور مابعد جدیدت کے نام لیواوں نےخود کو تو خراب کیا ہی ، ساتھ ساتھ قاری کو بھی ایک دوسرے سے بھڑوادیا ۔ مجھے چند سال قبل امریکہ کی یونیورسٹی آف میساچیوسس کے امریکہ کے استاد اور نقاد واکر گبسن سے ملاقات کا موقعہ ملا۔ ان سے میری گفتگو کے درمیاں ان کی تنقیدی اصطلاح ” نقلی قاری” کے حوالے سے بات کرتے ہوئے واکر گبسن نے کہا، ۔”نقلی قاری کو پیدا کرنے میں نقاد کی مجبوریاں بھی شامل ہوتی ہیں”۔ واکر گبنس نے” زبان کی حدود” (LIMITS OF LANGUAGE)مرتب کی ہے اور ان کے ایک مقالہ “AUTHOR, SPEAKER READER AND MOCK READER” کو بہت شہرت حاصل ہوئی ۔ یہ نظریہ حقیقی مصنف سے ہلکی سی نفرت کے ساتھ اپنے دلائل کو شروع کرتا ہے جس کے بارے میں وہ “خوفناک قسم کے حوالہ بھی دیتے ہیں،مگر اس نظرئیے میں متن میں شاندار ” مقرر” کی صورت میں دیکھتے ہیں کہ متن میں مراجعیت آگے پڑھنے کی قوت ہوتی ہے۔ جس کی آواز کی قرات اور تجزئیے کے عمل میں سنا ہے اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ لہذا، اس بات کا حساس ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے کے ساتھ بات چیت ، مباحث مکالمہ اور محاکمہ کو اہمیت دیتا ہے۔ . جعلی متنازعہ یا نقلی قاری ” اپنے طور پر ایک نظریاتی تصور کرتا ہے اور وہ مشکوک مصنف کو سنتا ہے اور بعد میں اس سے اتفاق بھی کرلیتا ہے۔ . 1950 کے آغاز میں، نقلی قاری کا نظریہ پہلی بار تنقیدی متن میں شامل ہوا۔ یوں یہ متن سے قاری میں منتقل ہوکر تنقیدی توجہ سمیٹ لیتی ہے اور توجہ حاصل کرلیتی ہے اور ساتھ ہی ” نقلی قاری” کے نظریہ کے لئے قارئین کا ایک تفشیشی/ ہیراسٹکسٹک { heuristic } ماڈل تشکیل دیتا ہے.
تدریس کے فن یعنی PEDAGOGY کے کچھ اپنا لیے جائیں تو شاید اردو کی ادبی تنقیدکی مجبوریاں میں کمی آجائے۔ اور باآسانی قاری تک بات پنچانے کا سلیقہ آجائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply