آفس آفس کی کہانی۔۔۔روبینہ فیصل/قسط 1

ای میل تھی کہ ایک دن نوائے وقت میں آپ کے کالم پر اتفاقاً  نظر پڑی اور ہم نے اسے بہت دلچسپ پایا تب سے ہم نے باقاعدگی سے بدھ والے دن اخبار لینا شروع کر دیا ہے اور اب ہو تا یہ ہے کہ ایک کولیگ باآواز بلند آپ کا کالم پڑھتا ہے اور ہم سب اس کے گرد اکھٹے ہو کر سنتے ہیں۔واپڈا کے کسی ایمپلائی کی اس ای میل میں اور بھی بہت کچھ تھا مگر قابلِ ذکر یہ ہے کہ وہ سب اپنے باس کے رویے سے نالاں ہیں اور احتجاج نہیں کر سکتے لیکن چاہ رہے ہیں کہ ان کی شناخت کو صغیہ راز میں رکھتے ہو ئے ،میں ایسے مینجرز کے رویے پر کچھ لکھوں ۔

میں اب پاکستان اور ایسے آمرانہ مزاج کے افسروں کی پہنچ سے میلوں دور بیٹھی ہوں مگر اس ای میل نے مجھے میرے اپنے بنک کے پرانے دنوں کی یاد دلا دی اور اس کو مزیدہوا ایک پرانے بنک کولیگ کی بھیجی ہو ئی ویڈیو نے دی ۔جس میں وہ پین اس طرح پکڑ کر لکھ رہا ہے جیسے میں لکھا کرتی تھی۔ اس سے یادوں کے در مزید کھلے ۔

واپڈا والے آفیسر کا باس نہ جانے کیسا ہو گا ، مگر مجھے وہ آمر مینجر یاد آگئی جس کی وجہ سے اصولاً  تو ہمارے دن گھٹن اورخوف میں گزرنے چاہئیں  تھے ،لیکن اس کے برعکس وہ دن آج ہماری زندگی کے خوبصورت ترین دنوں میں شمار ہو تے ہیں اور انہیں یاد کر کے جو مسکراہٹ میرے چہرے پر آج بھی بکھر جاتی ہے ، وہ پڑھنے والوں کو بھی نصیب ہو جائے اور شاید اس طرح وہ دفتری ماحول کی اکتاہٹ بھول جائیں۔ ۔اچھے ماحول میں خوش رہنا تو کوئی بات نہیں ، گھٹے ہو ئے اور برے ماحول میں بھی خوش رہ لیا جائے تو یہ ہو تا ہے اصل کمال ۔یہ یادیں کچھ ایسی ہی ہیں ۔

مرد مینجرز کی عجیب و غریب حرکتوں کے آگے جب میں سر نڈر نہیں کر تی تھی تو میری ہر دوسرے دن ٹرانسفر ہو جاتی تھی ، اسی طرح ایک دن میں جی ایم ایڈمن کے سامنے سر جھکائے بیٹھی تھی ، اور وہ بھی اب تنگ آچکے تھے ،” ٹرانسفر تو اب ہو گی ۔۔”
“اچھا تو سر ایسی برانچ میں کر دیں جہاں کوئی خاتون مینجر ہو میں ان کے ساتھ بنا کے رکھ سکتی ہوں” ۔۔ سر کو میری بات سمجھ آئی یا نہیں۔۔ بہرحال مجھے خاتون مینجر والی برانچ میں بھیج دیا گیا ۔ 

وہاں آئی تو مجھ سے پہلے دو لڑکیاں تھیں ۔ ایک دراز قد کی سادہ سی لڑکی جس نے سر دوپٹے میں لپیٹ رکھا تھا اور مجھے جلد ہی پتہ چلا گیا کہ برانچ کا سارا کام وہی کرتی ہے ۔ اور ایک بالکل متضاد ، یعنی انتہائی چھوٹے قد کی گل گوتھنی سی گوری چٹی ، جس کے ابو کی وفات ہو چکی تھی ، اور اس وجہ سے وہ سب سے زیادہ سمجھدار اور زمانہ شناس اور میڈم کے آگے بالکل جھکی ہو ئی حالت میں ہو تی ۔جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس برانچ میں سب ہی جھکی ہو ئی حالت میں ہیں ۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ سب بائیس تئیس سال کی عمر میں تھے ، کالجز سے سیدھے نکل کر ، پنجاب بنک کی مقابلے کے  امتحان والی سکیم کے بدلے ، ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں بنک میں جا پہنچے تھے ، اور سر منڈواتے ہی ان کے سروں پر اولے یعنی میڈم پڑ چکی تھیں ۔ مجھے پہلے دن ہی اندازہ ہو گیا کہ معاملہ ضرورت سے زیادہ گڑبڑ ہے ۔ اور مجھے مرد مینجر حضرات ، جن کی ہر  اونگی بونگی بات کے جواب میں مصلحت کوبالا ئے طاق رکھ کے ، سیدھی بلٹ مارنے کی عادت تھی یہاں آکر محسوس ہو نے لگا جیسے باقی آفیسرز کی طرح میری بھی سانس سوکھ ہی گئی ہے ۔

میڈم ایک جوان جہان خوبصورت عورت تھیں اور ان سے بھی زیادہ حسین ان کے شوہر ، جن کو وہ برانچ میں ہی ہر وقت آنکھوں کے سامنے بٹھائے رکھتی تھیں ۔ اس لئے ہم سب کی حرکتوں پر میڈم کے ساتھ ساتھ وہ بھی نظر رکھتے تھے ، یعنی ہم چار آنکھوں کی  زد میں رہتے تھے ، اور جتنی دیر تک وہ آنکھیں برانچ میں موجود رہتیں ہم سب اچھے بچوں کی طرح لیجرز پر سر جھکائے منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر کام میں مشغول رہتے ۔ خود میڈم مجال ہے ٹکے کا بھی کام کر جائیں ۔ ان کے حصے کے کام بھی وہ سیدھی سادی ماجدہ ( پرائیویسی کی وجہ سے نام تبدیل کر دئیے  ہیں ) یا نمبر ۲ زاہد کیا کرتا تھا ۔ زاہد بھی ہماری ہی عمر کا ایک لائق فائق مگر حواس باختہ سا لڑکا تھا ، جو میڈم سے تو ڈانٹیں کھاتا ہی تھا ،کلائنٹس بھی میڈم کے آگے چوں تک نہیں کرتے تھے ، اور اپنا غصہ وہ بھی اس مسکین پر نکالتے تھے اور میڈم کی عدم موجودگی میں ہماری فرسٹریشن بھی اسی پر اترتی تھی ۔ مگر وہ بیچارہ سوائے عینک کو آگے پیچھے کرنے کے کوئی خاص مزاحمت نہیں کیا کرتا تھا ، ان سب کو ہینڈل کرتے کرتے اس پر ہر وقت اتنا ذہنی دباؤ ہو تا کہ چلتے چلتے ایک ٹھوکر ضرور کھاتا تھا ۔ یہ اس کا معمول تھا ۔

اس برانچ کی ایک بڑی جاگیردانہ روایت تھی کہ لنچ ٹائم میں میڈم اور ان کے شوہر کو پہلے کھانا پیش کیا جاتا ، اگر انہیں بھوک نہیں لگی اور وہ ابھی کھانا نہیں کھانا چاہتے تو ہم سب پر لازم تھا کہ ہم ان کی بھوک لگنے کا انتظار کریں چاہے ہماری جان بھوک سے نکل ہی کیوں نہ رہی ہو ،لیکن ان کے کھانے سے پہلے ہم نہیں کھا سکتے تھے ۔ان کی موجودگی میں ٹی بوائز ہم سے آنکھیں چراتے تھے اور ہماری طرف دیکھتے تک نہ تھے ۔ کھانے کے معاملے میں اتنا صبر ، میرے لیے تو موت سے کم نہیں ہو تا تھا ۔ اور پھر میڈم کا رویہ میرے ساتھ بہت ہی روکھا پھیکا تھا، مجھے لگا یہاں سے بھی جلد ہی ٹرانسفر ہو جائے گی ۔ لیکن میں نے سوچ رکھا تھا ، یہاں جتنا بھی کربلا مچ جائے خود سے ٹرانسفر کا نہیں کہوں گی ورنہ جی ایم کہیں گے کہ اب تو یہ خاتون مینجر تھی ، اب کیا ہو ا ۔ یعنی میری ساری کشتیاں جل چکی تھیں اور عزتِ نفس کے جنازے کو کندھا دیئے بغیر گزارا نہیں تھا ۔

اوپر سے مجھے کیش کاؤنٹر کے پیچھے بٹھا دیاگیا ، پچھلی برانچ کا مینجر جتنا بھی ٹھرکی تھا ، مگر وہ مجھے کام سب گریڈ ۲ کیا گریڈ ۱ آفیسرز والے دیا کرتاتھا ، پرانے سب مینجرز نے کم از کم میری قابلیت اور کارکردگی کے آگے تو گھٹنے ٹیک رکھے تھے ، مگر یہاں الٹا ہی حساب تھا ، یہاں مجھے گریڈ ۲ تو دور کی بات گریڈ ۳ والے کام بھی نہیں دیئے جا رہے تھے ، بلکہ کیش آفیسر والی کرسی پر بٹھادیا گیا ۔ ۔ اس تنزلی پر میرے تن بدن میں آگ لگی ہو ئی تھی اور ساتھ بیٹھا کیش آفیسر ،نان سٹاپ خالص زنانہ انداز میں میرے زخموں پر مر چیں چھڑکتا جا رہا تھا ، گو اس کے انداز میں معصومیت تھی اور اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ، مگر میرا دکھ بھی وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا (ابھی اسی نے پین پکڑنے کے طریقے والی ویڈیو بھیجی تھی ) ۔بڑی راز داری سے مجھے کہتا پتہ ہے میڈم آپ کو جلدی یہاں سے ٹرانسفر کروا دیں گی ۔(وہ میڈیم کا خاص راز دان بھی تھا )۔ لیکن آپ ہم سب کو بہت اچھی لگی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہاں سے نہ جائیں تو میں آپ کو اس کا طریقہ بتاتا ہوں ۔ میں نے کہا طریقہ بتانے سے پہلے یہ بتاؤ کہ وہ مجھے اتنا نا پسند کیوں کرتی ہیں ۔ کہتا پتہ نہیں آپ کے آنے سے پہلے ہی ہمیں ہدایت تھی کہ اس لڑکی کو کوئی لفٹ نہ کروائے ۔ اور کسی نے اس کے ساتھ دوستی نہیں کرنی اور ہم سب کو میڈم کی بات ماننے کی عادت پڑ ی ہو ئی ہے ۔ اور آپ کے آنے سے پہلے ہم سب نے بھی یہی سوچا تھا کہ میڈم کی بات ماننی ہے مگر آپ کو مل کے سب کا خیال بدل گیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ ادھر ہی رہیں تو آپ کو ایک ٹپ بتاتا ہوں ، جو سارے ہی استعمال کرتے ہیں کو ئی کم کوئی زیادہ ۔۔ اور وہ یہ ہے کہ جب بھی میڈم کو دیکھنا ہے تو اندھا دھند تعریف شروع کر دینی ہے۔ میں نے کہا لیکن وہ تو مجھ سے بات تک نہیں کرتیں ایسے جیسے میں کوئی اچھوت ہو ں ۔۔ ایک اور آفیسر جوکیش آفیسر تھا ، مگر وہ میڈم کا چہیتا ہو نے کی وجہ سے کیش کا کام نہیں کرتا تھا ۔۔ وہ ہمارے پیچھے کھڑا لیجر پر پو سٹنگ کررہا تھا ، چہرے پر کسی ہائی سکول کے بچے والی معصومیت اور آنکھوں میں جوانی کی شرارت لئے بولا ، ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں ۔۔۔ اس لئے میڈم آپ کو یہاں رہنے نہیں دیں گی ۔۔

میں نے کہا پہلے بھی تو دو لڑکیاں ہیں یہاں ۔۔۔ ہیں تو لیکن وہ میڈم کی ٹکر کی نہیں ۔۔ میں نے کہاٹکر شکر کی تو میں بھی کوئی نہیں ،چلو مجھے خوشامد کے اور طریقے بتاؤ میں سب کروں گی کیونکہ میرے پاس اب کوئی آپشن نہیں ، یہ میری تین مہینے کے اندر تیسری ٹرانسفر ہو گی ۔۔ اور خاتون مینجر کا خود کہہ کر آئی ہوں ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”آفس آفس کی کہانی۔۔۔روبینہ فیصل/قسط 1

Leave a Reply