ڈیوڈکیمرون تھریسامے اور نوازشریف

ڈیوڈ کیمرون لندن کے امیر خاندان میں پیدا ہوا اور اس نے لندن کے اچھے سکولوں اور کالجز میں پڑھائی کرنے کے بعد آکسفورڈ سے گریجوایشن کی اور 1988 میں کنزرویٹو پارٹی جوائن کر لی۔ وہ 2001 میں برٹش پارلیمنٹ کا ممبر بنا اور 2010 میں یو کے کا وزیراعظم بن گیا۔ پہلی مدت کے پانچ سال پورے کیے اور اپنی اچھی پالیسیز کی وجہ سے 2015 میں دوبارہ مزید اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بن گیا۔ 2016 میں اس نے یوکے کا یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کا ریفرینڈم کروایا اور عوام سے اپیل کی کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں یورپی یونین کے اندر رہنے کا فیصلہ کریں مگر عوام نے یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ دے دیا۔
ڈیوڈ کیمرون ایماندار اور اپنے ملک سے محبت کرنے والا غیرت مند انسان تھا اس لئے اس کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ وزیراعظم کے عہدے پر رہے اور اس نے نہ صرف وزیراعظم کے عہدے سے استعفی دے دیا بلکہ کنزرویٹو پارٹی کی چئیرمین شپ سے بھی استعفی دے دیا اور گمنام زندگی کی طرف چلا گیا۔ حالانکہ ابھی اس کی کی حکومت کے چار سال باقی رہتے تھے۔ڈیوڈ کیمرون کے استعفی کے بعد جولائی 2016 میں کنزرویٹو پارٹی کی ہی تھریسا مے نے وزیراعظم کا عہدہ اس عزم کے ساتھ سنبھالا کہ وہ عوامی خواہش کا احترام کرتے ہوئے یوکے کو یورپی یونین سے علیحدہ کرنے کا عمل شروع کریں گی اور ملک میں آئندہ الیکشن مقررہ وقت پر 2020 میں ہوں گے۔ سب کچھ ٹھیک طریقے سے چل رہا تھا اور یوکے یورپی یونین علیحدگی کا عمل بھی سٹارٹ ہوگیا تھا اور ابھی حکومت کے تین سال بھی پڑے ہوئے تھے اور حزب اختلاف کی کوئی بڑی مخالفت بھی نہیں تھی مگر اچانک محترمہ کو خیال آیا کہ میں انتہائی اہم کام کرنے جا رہی ہوں اس لئے دوبارہ الیکشن کروا لوں تاکہ اس سلسلے میں عوام کی دوبارہ حمایت مل جائے اور جو بھی نیا وزیراعظم بنے وہ زیادہ طاقت سے یوکے یورپی یونین علیحدگی کا عمل شروع کر سکے۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملک کے سیاستدان کہیں پاگل تو نہیں ہو گئے ہیں۔ اچھے بھلے وزیراعظم بنے ہوئے خود ہی استعفے دے رہے ہیں اور ملک کو اوروں کے حوالے کر رہے ہیں تاکہ زیادہ مضبوط حکومت آئے۔اگر ہمارے ہاں کسی سے پوچھا جائے تو وہ یقیناً انہیں پاگل ہی کہیں گے جو ہاتھ آئی حکومت چھوڑ رہے ہیں۔ ۔۔خیر بات ہورہی تھی نواز شریف کی تو جناب نواز شریف 1949 میں ایک لوہا بنانے والی فیکٹری کے مالک، محمد شریف کے گھر پیدا ہوئے۔ انہیں 1981 تک کوئی جانتا نہیں تھا مگر ان کے والد محمد شریف نے اس وقت کے ملٹری جنرل غلام جیلانی جو پنجاب کے گورنر تھے کے ساتھ تعلقات بنائے اور اپنے بیٹے نواز شریف کو پنجاب کا فنانس منسٹر بنوا دیا۔ نواز شریف نے سیاست کا پہلا سبق جنرل جیلانی کے پہلو میں بیٹھ کر سیکھا۔ محمد شریف نے جنرل جیلانی کے توسط سے جنرل ضیاالحق سے اچھے تعلقات بنائے اور درخواست کر کے نواز شریف کو پنجاب کا وزیراعلی بنوا دیا۔ یہاں سے نواز شریف کا ستارہ چمکا اور انہوں نے جمہوریت کا سبق ایک ڈکٹیٹر سے سیکھا اور ڈکٹیٹر کی انگلی پکڑ کر سیاست کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں۔
نواز شریف پاکستان کے امیر ترین آدمی بننا چاہتے تھے اس مقصد کے لئے انہوں نے جنرل ضیا سے درخواست کر کے اتفاق فونڈری جو بھٹو دور میں حکومت پاکستان کے پاس چلی گئی تھی واپس لے لی۔ یہاں سے محمد شریف کے بزنس ایمپائر کا عروج شروع ہوا اور نواز شریف حکومت میں رہتے ہوئے پیسے بناتے گئے اور ان کے والد محمد شریف وہی پیسہ کاروبار کی ترقی میں لگاتے گئے۔ جلد ہی ان کے کاروبار لوہے کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے شعبوں میں ترقی کرتے گئے جو آج 2017 تک کئی بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، یہ علیحدہ بات ہے کہ میاں صاحب اپنے بچوں کے مقروض ہیں اور سال کا پانچ ہزار ٹیکس دیتے ہیں۔
نواز شریف صاحب تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئے۔ میاں صاحب کے اس بزنس ایمپائر کو حاسدوں کی نظر لگ گئی جب 2016 میں اچانک پانامہ لیکس کا شور مچا اور دنیا کے کئی ملکوں میں جہاں عوام پڑھی لکھی تھی انہوں نے اپنے حکمرانوں کا گھیراؤ کیا اور استعفے دینے پر مجبور کردیا۔
یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا کہ میاں صاحب اور ا ن کی اولاد کو سوچنے کا موقع نہ مل سکا اور یوں معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مبنی بنچ نے اپنا فیصلہ سنایا جس میں دو ججوں نے نواز شریف کو غلط ڈکلئیر کرتے ہوئے وزیراعظم اور ایم این اے کے عہدوں سے علیحدہ کرنے کا حکم جاری کیا جبکہ باقی تین ججوں نے نواز شریف اور اس کے بچوں کو ملزم گردانتے ہوئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا تاکہ 60 دن کے اندر اندر انوسٹی گیشن کر کے رپورٹ دوبارہ فائنل فیصلے کے لئے انہی ججوں کے سامنے جمع کروائی جاسکے۔حیرت کی بات ہے اس فیصلے پر ن لیگیوں نے جشن منانا شروع کردیا اور مٹھائیاں تقسیم کرنا شروع کردیں حالانکہ اس کیس میں میاں صاحب بری نہیں ہوئے بلکہ مزید پھنس گئے ہیں۔۔۔۔اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد میری احباب سے درخواست ہے کہ آپ یہ فیصلہ کردیں کہ ڈیوڈ کیمرون، تھریسا مے اور نواز شریف میں سے بہتر انسان کون ہے؟

Facebook Comments

طارق محمود
سویڈش پاکستانی ویب ڈویلپراردو لکھنے کا شوق ہے اور اردنامہ ڈاٹ ای یو کا اڈیٹر انچیف اور سٹاک ہوم سویڈن میں رہائش ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply