جج کی بیٹی

راحت شہر کے معروف جج چوہدری اکبر رانا کی بیٹی تھی۔ رانا کا تعلق پنجاب کے دیہی علاقے سے تھا۔ راحت کی پیدائش پہ گاؤں بھر میں خوب شادیانے بجائے گئے کہ خاندان کی پہلی لڑکی تھی۔ رانا صاحب کے گھر والے اگرچہ لڑکے کے لیے منتیں مرادیں مانگے بیٹھے تھے، قدرت کو مگر لڑکی ہی منظور تھی۔ رانا صاحب کی خواہش بھی بٹیا رانی ہی تھی۔ اپنی خواہش پوری ہونے پر وہ اتنے خوش ہوئے کہ بچی کا نام ہی راحت رکھ ڈالا۔ تب وہ تازہ تازہ وکالت کی ڈگری لیے بیٹھے تھے۔

گاؤں میں ذات پات اور برادری کا نظام خوب رائج تھا۔ رانا صاحب تمام گاؤں والوں کی طرح باقی بھائی بہنوں کے ساتھ مل کر رہتے۔ راحت کی پیدائش پر رانا صاحب کا بھتیجا عامر چار سال کا تھا۔ رانا صاحب کے بڑے بھائی چوہدری اسلم رانا زمینداری کیا کرتے۔ دونوں بھائیوں میں ایکا اس قدر تھا کہ راحت کی پیدائش کے موقع پر ہی چار سال بڑے عامر کے ساتھ رشتہ پکا کر دیا گیا۔

وکالت کی ڈگری گاؤں میں کسی کام کی نہ تھی۔ سال بھر گھر بیٹھنے کے بعد رانا صاحب نے گھر بار شہر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ بڑے چوہدری نے خوب منع کیا مگر رانا صاحب جج بننے کے خواب دیکھا کرتے لہذا چلے گئے۔ راحت کو شہر کے ایک جدید مخلوط سکول میں داخل کر دیا گیا۔ سب اچھا تھا۔ چھوٹے چوہدری ایک ذہین آدمی تھے۔ چودھراہٹ میراث میں ملی تھی، تعلیم دلجمعی سے حاصل کی جس کے باعث بلا کی خود اعتمادی کے حامل بنے۔ کچھ ہی وقت میں معروف وکیل کا درجہ حاصل کیا، اور ترقی کی سیڑھیاں طے کرتے ایک دن جج بھی بن گئے۔ اب وہ جج صاحب کہلانے لگے۔

راحت اب جوان ہوچکی تھی۔ ساری زندگی باپ کو انصاف کی جنگ لڑتے دیکھ کر خود بھی منصف بننے کا خواب دیکھا کرتی۔ پڑھائی میں باپ کی طرح ذہین بھی تھی۔ اپنے اس خواب کی تکمیل میں واحد رکاوٹ تایا کے بیٹے کے ساتھ بچپن کا وہ رشتہ تھا جس کے تحت وہ مرضی کے بغیر عامر کے ساتھ باند دی گئی تھی۔ عامر گاؤں سے باہر شاذ ہی نکلا۔ بڑے چوہدری کا اکلوتا بر خوردار تھا سو خاندانی زمینیں وہی سنبھالتا۔ نویں جماعت میں موصوف نے ایک استاد پہ ڈانٹ کے جواب میں چاقو سے حملہ کر دیا تھا۔ وہ دن اس کا کسی بھی تعلیمی ادارے میں آخری دن تھا۔

راحت ہمیشہ تعلیم کا بہانہ بنا کر عامر کی جانب سے شادی کا اصرار ٹالتی رہتی۔ ان دنوں وہ ایل ایل بی کے آخری امتحانات دے رہی تھی جب عامر نے بڑے چوہدری سے ضد کر کے نسبتاً سخت پیغام بھجوایا۔ عامر جج صاحب کے پاس خود گیا اور انتہائی بدتمیزی سے  جج صاحب کو سخت دھمکیاں دیں۔ جج صاحب گاؤں کو عشروں پہلے چھوڑ چکے تھے مگر برادری سے آج تک گلو خلاصی نہ کر پائے تھے۔ وہ بڑے بھائی کے آگے زبان درازی کا سوچ بھی نہ سکتے تھے لیکن آج ان کا بھتیجا ان کے آگے نہ صرف گالم گلوچ کر کے گیا بلکہ جاتے ہوئے انہیں بیٹی کے قتل کی دھمکی بھی دے گیا۔

بڑے چوہدری کو معلوم ہوا تو انہوں نے عامر کی سرزنش کی۔ لاڈلا، اکلوتا، غیر تعلیم یافتہ اور سر پھرا بیٹا باپ کی ڈانٹ سن کر طیش میں آیا اور سیدھا راحت کی یونیورسٹی پہنچ گیا۔ راحت آخری پرچہ حل کر کے باہر ہی نکلی تھی کہ عامر نے اس پر پے در پے چاقو کے تئیس وار کر ڈالے جن میں سے اکثریت سیدھا گردن پہ پڑے۔

راحت شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچائی گئی جہاں خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ کومے میں چلی گئی۔ عامر کو موقع پر پولیس نے پکڑ کر گرفتار کر لیا۔ شہر کے معروف جج کی بیٹی پہ حملہ پوری عدلیہ پہ حملہ تصور کیا گیا۔ مقدمہ چلا اور عامر پہ دہشتگردی کی دفعات لگا کر اسے عمر قید کی سزا دے دی گئی۔ بڑے چوہدری نے تمام اپیلیں دائر کیں مگر کچھ جج صاحب کا کیس مضبوط تھا اور کچھ ان کے تعلقات لہذا کہیں دال گل نہ پائی۔ عامر کی سزا برقرار رہی اور یوں اس جیسا دردندہ اب باقی عمر کسی لڑکی پہ دراندازی نہیں کر پائے گا۔

مگر یہ کیا؟ آپ بلاوجہ کیوں خوش ہورہے ہیں؟ یہ تو محض ایک فرضی کہانی تھی۔ آپ اپنی بانچھیں نہ کھلائیں، واپس جگہ پر آجائیے۔ ریاست کی لاکھوں خدیجائیں لاکھوں عامروں کے ہاتھوں عبرتناک انجام سے ہی دوچار ہوتی رہیں گی۔

اب ہر کسی کا باپ جج تو نہیں ہوتا ناں؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply