بھیانک چہرہ۔۔محمد العاص

انسانوں کی طرح قوموں اور معاشروں کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں جو سامنے والے کی سوچ  کے مطابق تبدیل ہوتے  رہتے ہیں۔
سب سے بھیانک رُخ کا سامنا اس معاشرے کے کمزور طبقے کو کرنا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے طبقہ تبدیل ہوگا، معاشرتی میل ملاپ اور تعلقات بھی ویسے ہی تبدیل ہوں گے، یعنی کمزرو ترین کیلئے بھیانک ترین ، اور طاقت ور کیلئے خوشنما تر۔

آپ آج سے خود کو امیر اور بڑے حسب نسب والا ظاہر کرنا شروع کردیں ،اور اپنے نام کیساتھ کسی بڑی ذات، برادر یا گدی کا سابقہ، لاحقہ لگا لیں۔ لوگ بلاتفریق مکھیوں کی طرح آپ کو گھیر لیں گے، آپ کی پھٹی پینٹ فیشن اور ٹوٹے ہوئے جوتے  سٹائل بن جائے گا، اُلجھی ہوئی بے ترتیب داڑھی اور تیل سے چوپڑے ہوئے لمبےبال بھی لوگوں کو فیشن ایبل لگیں گے۔ سانس دشوار کر دینے والا موٹاپا اور تین فیصد گنجے سرکو لوگ امارت کی نشانی سمجھ لیں گے۔ بدوؤں کی طرح لمبےبالوں اور گندے ناخنوں سے بھی لوگوں گھن نہیں آئے گی۔

محفل میں سب  سے اچھی نشست آپ کیلئے خالی چھوڑی جائے گی۔ آپ کی باتیں نا صرف غور سے سنیں گے بلکہ دوسروں کو بھی سنائیں گے، بولتے وقت منہ سے نکلتے تھوک کے چھینٹے تبرک اور دانتوں کی پیلاہٹ نمونہ بن جائے گی۔

آپ مسجد کے چندے میں زیادہ حصہ ڈالنا شروع کر دیں یا امام کے گھر روزانہ اچھا کھانا بھجوا دیں ،تو وہ آپ کی خاطر جمعہ کی نماز بھی لیٹ کردے گا۔

آپ کی ناانصافیاں اور قصداً کیے گئے قتل معاف ہوجائیں گے، مرنے کے بعد قبر تک ہزاروں کندھے آپ کے ساتھ ہوں گے۔ قبر بھی پختہ اور دہائیوں تک قائم رہنے والی نصیب ہوگی، جس پر مٹی سے زیادہ پھول کی چادریں ہوں گی۔

لیکن اگر آپ کمزور طبقے کے مرد یا عورت میں سے کوئی ایک  ہوں ،تو لوگ تین گز کا فاصلہ رکھ کر گزریں گے اور سمجھ آگئی کا بہانہ بنا کر بات پوری ہونے سے پہلے ہی کاٹ دیں گے۔ آپ کی چھوٹی سی خطا کو عمر بھر کی سزا بنا دیا جائے گا۔
اگر آپ کی موت کچے مکان میں ہوئی تو کفن دفن کا خرچ اور جنازے کو دینے کیلئے چار کندھے بھی اعلان کر کے جمع کرنے پڑیں گے۔
آپ کے صاف کپڑے نمودونمائش اور بہترین اخلاق منافقت کے زمرے میں آئے گا جب کہ اچھی باتوں کو مطلب نکالنے کا ذریعہ سمجھ لیا جائے گا۔
آپ ایلین بن جائیں گے جن کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم  نہیں پتا، اور اگر معلوم ہے  بھی  تو ان کے ساتھ کوئی تعلق یا رابطہ نہیں۔
مادی اشیاء  میں صرف دولت ہی ایسی چیز ہے جو آپ کے متعلق دوسروں کی رائے یا رویہ تبدیل کر سکتی ہے مگر اس کے بعد بھی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

آپ چاہے فٹ پاتھ سے محنت شروع کریں اور محل بنا لیں، پیروں سے چارپہیوں پرسفر شروع کردیں، شلوار قمیض سے تھری پیس اور سو روپے کی ہوائی چپل سے بیس ہزار کے جوتے خریدنے کی استعداد پیدا کرلیں۔ جیسے ہی لوگوں کو آپ  کا  پسِ منظر پتا چلے گا، وہ ٹانگیں کھینچنے  لگیں گے، الزام لگانے، شخصیت کو متنازعہ بنانے اورکردارکشی پر اُتر آئیں گے۔ آپ کو اپنے مذہب اورعقیدے کے بارے میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اپنی مسجد بھی بتانی  پڑے گی اور فقہ بھی۔ لوگ سوالیہ نظروں سے بھی دیکھیں گے اور چہ مگوئیاں بھی کریں گے۔ آپ کے امتحان بھی لیے جائیں گے اور عزت بھی مجروح ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سب اس لیے برداشت کرنا پڑتا ہے کہ  لوگ آپ  کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے، لوگوں کیلئے یہ ماننا مشکل ہوتا ہے کہ ناموافق حالات کے باوجودہ ان کی برابری کیسے ہوسکتی ہے۔
کمزور طبقےکی عورت ہو یا مرد ،معاشرہ اس کیلئے صرف رائے تبدیل کرتا ہے وہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق۔۔۔لیکن سوچ وہی رہتی ہے۔
کپڑے، جوتے، شخصیت اور رہائش سمیت چاہے سب کچھ اچھا کرلیں لیکن اگر آپ کا پس منظر اچھے معاشرے یا سامنے والے کے مطابق نہیں تو وہ آپ کیساتھ ایک حد ہی تعلق رکھے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply