مظہر کلیم، ابن صفی اور میرا بچپن۔۔ محمد مشتاق

مظہرکلیم کا انتقال ہوگیا۔ اللہ انھیں کامل مغفرت نصیب کرے۔
بچپن میں ان کے ناولوں کا رسیا تھا تاآنکہ ایک دن ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا ناول “دہرا قتل” پڑھا جو “نیا رخ” ڈائجسٹ کے آخری صفحات پر شائع ہوا تھا۔ اس ناول نے ابن صفی کا دیوانہ بنادیا۔ میرے چچا مرحوم کئی ڈائجسٹ باقاعدگی سے خریدتے تھے۔ اب میرا کام یہ ہوگیا کہ جیسے ہی وہ نیا رخ لے آئے میں نے ان سے اجازت لے کر ابن صفی کا ناول پڑھا اور اس کے بعد ڈائجسٹ واپس ان کو دے دیا۔ کچھ عرصے بعد یہ سلسلہ شروع کیا کہ ڈائجسٹ جب پرانا ہوجاتا تو اس سے ابن صفی کا ناول الگ کرکے اور پھر جب کئی ناول جمع ہوجاتے تو ان کی بائنڈنگ کراکے شیلف میں سجالیتا۔ ان ناولوں کے پڑھنے کے بعد مظہر کلیم کے ناول بہت بچگانہ محسوس ہونے لگے (حالانکہ میں اس وقت جماعت ہفتم کا طالبعلم تھا)۔ چنانچہ مظہر کلیم کو پڑھنا چھوڑ دیا۔ کچھ ہی عرصے میں معلوم ہوا کہ وہ عمران سیریز جسے ہم مظہر کلیم کا کارنامہ سمجھ رہے تھے وہ بھی ابن صفی کی تخلیق تھی۔ اب ابن صفی کی عمران سیریز پڑھنی شروع کی۔ پھر ایک طویل سلسلہ چل پڑا۔ پاکٹ منی سے ابن صفی کے تمام ناول خریدے جاتے اور بائنڈنگ کرائی جاتی۔
ساتھ ہی ایک اور سلسلہ بھی شروع ہوا کہ جہاں دیکھا کہ کوئی دوست مظہرکلیم کا ناول پڑھ رہا ہے ہم نے اس پر اپنی محنت شروع کردی اور مظہر کلیم کے مثالب اور ابن صفی کے مناقب بیان کرنے شروع کردیے۔ یہ سلسلہ ہم پوری یکسوئی سے اس وقت تک جاری رکھتے جب تک وہ دوست مظہر کلیم کو چھوڑ کر ابن صفی کے ناول پڑھنا نہ شروع کردیتا۔ اس کوشش میں بارہا ایسا ہوا کہ ابن صفی کے جو ناول ہم نے بڑی محنت سے (اور خون پسینے کی پاکٹ منی لگاکر) خریدے ہوتے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتے اور ہم پھر سیٹ مکمل کرنے کے چکر میں پڑ جاتے۔
ابن صفی کے ناولوں کا چسکا ہم نے اپنے قریب ترین دوستوں کو لگانا اپنا فریضہ سمجھا ۔ چنانچہ آغاز اپنے ماموں خلیل احمد سے کیا۔ پھر بڑے بھائی افتخار احمد فاروق اور پھر دیگر کزنز اور دوستوں کا رخ کیا۔
ایک دفعہ افتخار تین مہینے کے دورۂ تفسیر کےلیے لاہور گئے تھے (مولانا حمید الرحمان عباسی صاحب رحمہ اللہ کے پاس شیرانوالہ گیٹ) اور میں ایک ایک دن گن کے گزارتا تھا کہ وہ کب واپس آئیں گے کیونکہ انھوں نے ہمارے (یعنی میرے، خلیل کے اور افتخار کے) مشترکہ فنڈ سے ابن صفی کے ناول خریدنے تھے۔ انھیں بار بار خط لکھ کر (کیا دور تھا جب ای میل اور ایس ایم ایس کا تصور نہیں تھا اور خظ لکھتے تھے) یاددہانی کرائی کہ ربڑی اور نہاری پر پیسے خرچ کرنے کے بجاے ناولوں کےلیے بچا کے رکھے۔
ایک دفعہ کئی ناول جو ماموں خلیل کے پاس تھے وہ نانا جان حکیم ضیاء الاسلام رحمہ اللہ (فاضل دیوبند) کے ہاتھ لگے اور انھوں نے سب ناولوں کو نذرِ آتش کردیا۔ مخبری ہمارے بڑے ماموں (جو خیر اتنے بڑے بھی نہیں تھے) ظہور احمد صاحب نے کی تھی ۔ چنانچہ ہم نے ان کے ساتھ مکمل بائیکاٹ کرلیا اور انھیں کرکٹ میں ایمپائرنگ کا فریضہ ادا کرنے سے محروم کردیا۔ وہ کرکٹ کے بڑے شوقین تھے لیکن جلد ہی آؤٹ ہوجاتے تھے اور باقی وقت ایمپائرنگ اور کبھی چشتی مجاہد اور کبھی منیر احمد کے طرز میں رننگ کمنٹری میں گزارتے)۔ نانی جان مرحومہ نے سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ ان کا نام “ناولے” ہے تو یہ ہیں ہی “ناولے” (پشتو میں ناولے گندی چیز کو کہتے ہیں) لیکن ہم نے بائیکاٹ جاری رکھا۔ جلد ہی بائیکاٹ سے متاثر ہوکر انھوں نے اپنی پاکٹ منی سے ہمارے لیے چند ناول خرید لیے۔ نہ صرف یہ، بلکہ پھر نانا جان کے گھر میں داخل ہونے سے قبل ظہور گھر میں آجاتے اور ہم بیٹ، بال اور ناول کہیں چھپالیتے ۔
ناول پڑھتے پڑھتے میں خود بھی ناول لکھنے لگا۔ ابتدا چھوٹی کہانیوں سے کی جس کا سلسلہ جماعت پنجم میں شروع ہوا تھا۔ دو تین صفحات کی مختصر کہانی۔ پھر جوں جوں ڈائجسٹ، عمران سیریز، جاسوسی دنیا وغیرہ کا سلسلہ بڑھتا گیا تو میری کہانیاں بھی لمبی ہوتی گئیں۔ پہلا ناول عمران سیریز کا لکھا اور اس وقت لکھا جب میں ساتویں جماعت میں تھا۔ اس پر مظہر کلیم کا اثر غالب تھا۔ آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے مجھے شرم آنے لگی تھی کہ ابن صفی کے کرداروں پر کیوں لکھ رہا ہوں۔ چنانچہ وہ پورا ناول دوبارہ لکھا۔ پلاٹ وہی رہا۔ کردار تبدیل کیے۔ بہت کچھ اس کے علاوہ بھی تبدیل کرنا پڑا۔ بہرحال اس ناول پر ابن صفی کا اثر غالب آگیا تھا۔
والد صاحب نے کبھی ناول یا ڈائجسٹ پڑھنے سے نہیں روکا لیکن وہ علمی کتابیں بھی پڑھنے کےلیے دیتے تھے۔ (علامہ شبلی کی سیرت النبی ﷺ کی پہلی جلد میں نے آٹھویں جماعت میں پڑھی تھی۔) تاہم آٹھویں جماعت میں پہلی دفعہ بورڈ کا امتحان درپیش تھا جسے اس زمانے میں بہت خطرناک چیز سمجھا جاتا تھا۔ والد صاحب نے دیگر دوستوں کے برعکس میرے ناول پڑھنے یا کرکٹ کھیلنے کے شوق پر پابندی نہیں لگائی لیکن کئی بار ایسا ہوا کہ کورس کی کتاب کے درمیان ابن صفی کا ناول پڑھتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ بالآخر تمام ناول ضبط کرلیے گئے اور کہا گیا کہ یہ امتحان کے بعد ہی ملیں گے۔ میں نے ایک دن امی کی منت سماجت کی تو (اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) چند ناول واپس مل گئے۔ پھر ایک دن والد صاحب کو معلوم ہوا لیکن اس وقت وہ غصے میں نہیں تھے (والد صاحب ویسے بھی بہت کم غصہ کرتے ہیں اور ہمیشہ خوشگوار موڈ میں ہوتے ہیں، اللہ انھیں دونوں جہانوں میں خوش رکھے) تو میں نے کہا کہ یہ والا ناول آپ ذرا پڑھ لیجیے ، پھر بتائیے گا اور انھیں عمران سیریز کا ناول “لاشوں کا بازار” دے دیا جس میں پہلی دفعہ عمران اور سنگ ہی کی ملاقات ہوتی ہے جب ابھی عمران لندن میں زیرتعلیم تھا۔ ناول پڑھ کر اگلے دن انھوں نے واپس کردیا اور اس پر اکبر الہ آبادی کا ایک شعر معمولی ترمیم کے ساتھ لکھ دیا تھا۔ ساتھ ہی دیگر ناول بھی واپس کردیے لیکن اب ناول پڑھنے کے اوقات مقرر ہوگئے۔
ایک دن چھوٹی بہن سے لڑائی ہوئی تو اس نے جا کر والد صاحب کو شکایت جڑ دی کہ آپ بھائی کو ناول پڑھنے سے روکتے ہیں جبکہ یہ ناول صرف پڑھتے ہی نہیں بلکہ لکھتے بھی ہیں۔ والد صاحب نے کہا، اچھا؟ یہ ناول لکھتا ہے؟ بلاؤ ذرا اسے۔ میرے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے۔ ڈرتا ڈرتا گیا۔ وہ بہت سنجیدہ تھے ۔ انھوں نے کہا کہ تم امتحان کی تیاری کے بجاے ناول لکھتے ہو؟ میں نے کہا تیاری سے فارغ ہونے کے بعد لکھتا ہوں۔ انھوں نے کہ جو کچھ تم نے لکھا ہے وہ ابھی لے آؤ۔ بہن کو آنکھوں ہی آنکھوں میں دھمکیاں یدتے ہوئے میں واپس اپنے کمرے میں گیا اور پھر مسودہ والد صاحب کو دے دیا۔ تھوڑی دیر بعد امی آئیں اور مجھے تسلی دی کہ وہ تمھارا ناول پڑھ رہے ہیں اور غصے میں بالکل بھی نہیں ہیں۔ (ہاں، یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ والدہ صاحبہ کے سرھانے تین کتابیں پڑی رہتی تھیں۔ ایک بہشتی زیور کا پشتور ترجمہ “جنتی کالے”، ایک فتاوی ودودیہ جو پشتو میں مرتب کیے گئے تھے اور ریاست سوات میں نافذ تھے۔ میرے دادا مرحوم نے ابھی ان کی ترتیب میں حصہ ڈالا تھا۔ اور تیسری کتاب کلیلہ و دمنہ کا پشتو ترجمہ تھا۔ قصے کہانیوں کا چسکا تو وہیں سے لگا تھا اور پشتو پڑھنے کا ذوق بھی وہیں سے ملا۔) بہرحال میں کشکمش میں مبتلا تھا کہ اب کیا ہوگا۔ اگلے دن کچھ نہیں ہوا اور سب کچھ نارمل رہا۔ دوسرے دن مجھے معلوم ہوا کہ والد صاحب نے وہ مسودہ میرے دادا جان کو دیا ہے۔ دادا جان حضرت علامہ مفتی مدرار اللہ مدرار نقشبندی رحمہ اللہ تو مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اب پھر مجھے پریشانی لاحق ہوئی کہ دادا جان یہ نہ کہہ دیں کہ اس ناہنجار نے یہ کیا بکواس لکھی ہے۔ (ناول میں ویسے میں نے بکواس اچھی خاصی لکھی تھی۔) شام کو بلاوا آیا۔ دادا جان کی گود میں مسودہ تھا اور انھوں نے کہیں کہیں اسے نشان زد بھی کیا ہوا تھا۔ والد صاحب بھی موجود تھے۔۔ دادا جان مسکرائے اور دونوں ہاتھ اٹھاکے مجھے گلے لگنے کو کہا۔ شاباشی دی۔ اور پھر پچاس روپے انعام دیا۔ پھر میرے والد صاحب سے کہا کہ جلد از جلد اس کی اشاعت کا بندوبست کریں۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔
یہ ناول والد صاحب نے شائع کیا اور اشاعت سے قبل اسے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ممتاز ادیب ، شاعر اور ڈراما نگار ہمایون ہماؔ صاحب کو دیا جنھوں نے اس پر وقیع پیش لفظ بھی لکھا۔ ناول کا عنوان رکھا: “فوکر کے تعاقب میں”۔ انھی دنوں پی آئی اے کا ایک فوکر طیارہ گلگت کے اطراف میں لاپتہ ہوا تھا۔ اسی پس منظر میں کہانی بنا ڈالی تھی۔ اس وقت کے صوبہ سرحد کی وزارت تعلیم کی جانب سے اس پر اعزازی سرٹیفیکیٹ بھی دیا گیا اور ڈاکٹر ظہور اعوان صاحب مرحوم نے، جو اس وقت وزارت تعلیم میں تھے اور روزنامہ مشرق میں کالم لکھتے تھے ، وزارت کی جانب سے اسے صوبے کے تمام کالجز کی لائبریریوں کےلیے مںظور بھی کروایا۔ انھوں نے اس پر ایک کالم بھی “ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” کے عنوان سے لکھا تھا۔
ناول میں نے آٹھویں جماعت میں لکھا تھا لیکن شائع ہوتے ہوتے میں نویں جماعت میں پہنچ گیا تھا۔ سوچا کہ مظہر کلیم اگر نام کے ساتھ ایم اے لکھ سکتے ہیں اور ابن صفی نام کے ساتھ بی اے لکھ سکتے ہیں تو میں نام کے ساتھ کیا لکھوں؟ انڈر میٹرک؟ پھر والد صاحب کے کہنے پر لکھا: “متعلم جماعت نہم”!

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply