“سنو اے آدم!
میں کہ حوا!
تمہارے جیسی!
تمہارا پرتو،تمہارا سانچہ!
مکیں عدن کے،زمیں کے ساتھی!
اے میرے ہمدم،اے میرے آدم!
سنو کہ تم سے مفر نہیں ہے !
سنو کہ تنہا گزر نہیں ہے !!
میں کہ حوا!
تمہارے جیسی!
تمہارا پرتو،تمہارا سانچہ!
مکیں عدن کے،زمیں کے ساتھی!
اے میرے ہمدم،اے میرے آدم!
سنو کہ تم سے مفر نہیں ہے !
سنو کہ تنہا گزر نہیں ہے !!
سنو! کہ مجھ سے وجود آدم بقا کے سوتے کو کھوجتے ہیں!
سنو! کہ آدھے ادھورے باطن تمہارے پیکر میں کوکتے ہیں!!
وجود آدم ہی میرے ہونے پہ اک اکیلی دلیل ٹھہری
کہ میں بھی صورت حق شناسی کے یک رنگی کی تمثیل ٹھہری!!
دہر کے اس قرن میں جانے رواج کیسا یہ چل پڑا ہے
وجود حوا کے رد کو آدم بڑے فخر سے تلا کھڑا ہے
اور حوا کا حال کہیے تو وہ بھی اس سے الگ نہیں ہے۔۔
وہ اپنی ہستی کے آدھے پن کو،وجود سالم سمجھ رہی ہے۔۔
سنو اے آدم ! سنو اے حوا!!
ہم ایک دوجے کے نصف حصوں کی یکجئی سے فرارچاہیں تو بے توازن ہی مر مٹیں گے۔۔
بقا کے خلیوں کی زندگی کو اس دوئی سے مفر نہیں ہے۔۔
سنو اے آدم بجز دوئی کے نشاط ہستی کا اور کوئی ثمر نہیں ہے!
سنو! کہ آدھے ادھورے باطن تمہارے پیکر میں کوکتے ہیں!!
وجود آدم ہی میرے ہونے پہ اک اکیلی دلیل ٹھہری
کہ میں بھی صورت حق شناسی کے یک رنگی کی تمثیل ٹھہری!!
دہر کے اس قرن میں جانے رواج کیسا یہ چل پڑا ہے
وجود حوا کے رد کو آدم بڑے فخر سے تلا کھڑا ہے
اور حوا کا حال کہیے تو وہ بھی اس سے الگ نہیں ہے۔۔
وہ اپنی ہستی کے آدھے پن کو،وجود سالم سمجھ رہی ہے۔۔
سنو اے آدم ! سنو اے حوا!!
ہم ایک دوجے کے نصف حصوں کی یکجئی سے فرارچاہیں تو بے توازن ہی مر مٹیں گے۔۔
بقا کے خلیوں کی زندگی کو اس دوئی سے مفر نہیں ہے۔۔
سنو اے آدم بجز دوئی کے نشاط ہستی کا اور کوئی ثمر نہیں ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں