بلوچستان کےکیڈٹ کالجوں کا کرب

دونوں خبروں کا تعلق ملازمین سے ہے۔
دونوں خبروں کی شہ سرخی ملازمین ہی ہیں ۔
ایک خبر خوشی سے لبریز کہ : وفاقی ملازمین کو تین ماہ کی اعزازی تنخواہیں ملیں گی۔ایک ایسی خبر جو عیدالفطر کی خوشیاں دوچند کررہی ہے ،ایسی خبر جس سے وفاقی ملازمین کے تمام دلدر دور ہوجانے کی امید ہے، تین تنخواہیں کم نہیں ہیں وہ بھی عید کے موقع پر۔ تنخواہ دار طبقہ بخوبی جانتا ہے کہ عیدین، بچوں کا نیا تعلیمی سیشن اور کوئئ قریبی شادی آپکی تنخواہ کے کریا کرم کے لئے کافی ہوتی ہے۔ا یسے موقع پر تین تنخواہوں کا مل جانا نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ۔
دوسری خبر ایک تصویر پر مشتمل ہے ،تصویر میں ایک ملازم ہے ،اس کے بائیں شانے سے شانہ ملاتی اسکی تین ساڑھے تین سالہ بچی اپنے ابو کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑی ہے گویا تسلی دے رہی ہو ،دائیں جانب کھڑی معصوم کو تو صرف اتنا پتہ ہے کہ تصویر کھینچی جارہی ہے ،اور گود میں بیٹھا بچہ بھی کیمرے کی طرف یا تصویر کھینچنے والے کی طرف دیکھ رہا ہے۔ تصویر پر ایک کیپشن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ کیپشن نہیں!!!!!

نوحہ ہے۔۔۔۔۔۔۔
بےبسی کانوحہ۔۔۔

یہ تصویر نہیں مرثیہ ہے ۔۔۔مردہ انسانیت کا۔۔۔۔۔
یہ اسکے الفاظ نہیں ۔۔۔۔طمانچہ ہے نام نہاد میڈیا کے منہ پر جسے یہ تلخ حقیقت نظر نہیں آرہی۔

تصویر کے کیپشن کے الفاظ یہ ہیں کہ “میں کیڈٹ کالج پشین کا ملازم ہوں اور مجھے چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی مجھے یا میرے بچوں کو کچھ ہوگیا تو زمہ دار حکومت بلوچستان ہوگی یا کالج کی انتظامیہ”۔

ذرا تصور کریں کون سر بازار اپنا دامن یوں برہنہ کرتا ہے؟

ذرا تصور کریں کون بچوں کی یوں تصویر لگا کر بے بسی کا اظہار کرتا ہے ؟

ذرا تصور کریں کہ دل میں کتنے نشتر چھبے ہوں گے جب یہ تصویر فیس بک کی زینت بنی ہوگی ۔بھوک نے کس قدر ستایا ہوگا کہ یہ قدم اٹھایا گیا۔ادھار مانگنے والوں نے کس قدر ناطقہ بند کیا ہوگا کہ یوں ضبط کے سارے بندھن توڑے گئے۔

اور یہ ملازم تو وہ ہے جس نے ہمت کی اپنے آنسوؤں کو زبان دینے کی۔یہ کہانی صرف اس کی نہیں ،بلوچستان کے چاروں مرکزی کیڈٹ کالجز (مستونگ،عہ سیف اللہ، پشین اور جعفرآباد) کے ملازمین عرصہ چار ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ پورے ایک سو بیس دن سے وہ اسی کرب کا شکار ہیں۔ یہ کہانی سب کی ہے۔

سب کے گھروں میں اندیشے رقصاں ہیں، سب کے گھروں میں رمضان میں قناعت پسندی کا بھرم ٹوٹا ہوا ہے ، سب کے گھروں میں عید کے قریب آنے کی خوشی نہیں بلکہ ڈر ہے کہ کیا ہوگا کیونکہ تنخواہ کا کچھ علم نہیں۔ سب کے پاس معصوم بچوں کی ننھی خواہشوں کو رد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

جو لوگ بلوچستان کے نظام تعلیم سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں معیاری تعلیم اب صرف بلوچستان ریذیڈیشنل کالجز(بی آ ر سی) کی شاخوں میں میسر ہے ، کویٹہ کے چند نجی اداروں میں یا پھر کیڈٹ کالجز میں ۔ انھیں اداروں کی پیداوار ہی زیادہ تر ہر میدان میں سرگرم عمل نظر آئے گی ۔

بی آر سی والوں نے تو لڑ جھگڑ کر ہڑتالیں کر کر کے خود کو اس جھنجھٹ سے نکال لیا اور اپنے تمام مطالبات منوا لیے ۔لیکن کیڈٹ کالجز والے کہاں جائیں نہ ہڑتال کر سکتے ہیں کہ پیڈا قانون کی براہ راست زد میں ہیں ،نہ دھرنا دے سکتے ہیں کہ کم سے کم ان تعلیمی اداروں کی شایان شان نہیں۔ اور اب وہ ہیں اور انکا درد لادوا اور چارہ گر کی بے حسی۔

چار ماہ بغیر تنخواہوں کے پڑھایا،اپنے فرائض منصبی ادا کئے ،کہیں آپ نے خبر سنی کوئئ ہڑتال یا دھرنے کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب یہی ایک حل بچا ہے کہ یہ ملازمین اپنے بچوں کی تصاویر لگائیں ، اپنی بے بسی ،بے کسی کا تماشہ بنائیں ،اپنا دکھڑا سنائیں ،شاید اس سے ہی رحم آ جائے ان کو جنہیں شاید فاقے کی ابجد بھی معلوم نہیں ، جن کے بچوں نے کبھی اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو آنسوؤں سے رد ہوتے نہیں دیکھا۔جنہوں نے کبھی خواب میں بھی ایسا سوکھا رمضان اور پریشان عید نہیں دیکھی ۔
شاید انھیں رحم آ جائے۔
شاید وہ کیڈٹ کالج والوں کے کرب کو محسوس کر سکیں ،شاید وہ بلوچستان کے کیڈٹ کالجز کے ملازمین کے حال کے محرم بن جائیں ،شاید وہ اس دکھ کو محسوس کرسکیں کو جو اس تصویر سے ہویدا ہے۔

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بلوچستان کےکیڈٹ کالجوں کا کرب

  1. when a teacher has been deprived of his basic rights and needs for no reason at all, how he is going to pay his complete attention and focus towards grooming of the young generation
    May Allah Almighty help us all to overcome these problems.

Leave a Reply