امی جان کے نام ایک خط ( ہپی مدڑز ڈے)

پیاری امی جان
مجھے یاد ہے آپ بتاتی تھیں کہ جب آپ کراچی سے لاہور بیاہ کر آئیں تو آپ نانی اماں کو کتنے خط لکھا کرتی تھیں ۔ اور فون پر بات کرنے کے لئے جو اس زمانے میں نایاب تھا کس قدر تڑپتی تھیں ۔
آج سمارٹ فونز نے ہر مشکل آسان کر دی ۔ ایک کلک پر آپ کی آواز بھی سنی جا سکتی ہے اور ہم ایک دوسرے کو دیکھ بھی پاتے ہیں ۔کبھی کبھی تو ایک دوسرے کی آنکھوں کی نمی بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ابھی تک سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی کہ میں آپ کو یہاں کراچی سے ہی گلے لگا سکوں ۔آپ کا وہ پرسکون لمس محسوس کر سکوں ۔ جس دن یہ ہوا میں ٹیکنالوجی کو مانوں گی ۔
امی میں جب بھی اسکول جاتے بچوں کو دیکھتی ہوں یاد آتا ہے کہ آپ ہمیں اسکول چھوڑنے اور لینے آیا کرتی تھیں اور جب عبدالله پیدا ہوا ( چھوٹا بھائی ) تو ہم تینوں بہن بھائی جو تھے،آپ کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے آپ ہمیں اسکول چھوڑنے اور لینے نہیں آ پاتی تھیں ۔ مجھے یاد ہے ہم سمن آباد اسلامیہ پارک میں فلیٹ میں رہتے تھے اور میں آپ کی سب سے لاڈلی بیٹی شدید گرمی میں جب اسکول سے واپس آتی تو اوپر دیکھتی اور کھڑکی سے آپ ہمیں دیکھ رہی ہوتی تھیں اور شربت کا جگ دکھایا کرتی تھیں کہ جلدی سے اوپر آجاؤ شربت تیار ہے ۔
امی مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب سب کی مخالفت کے باوجود آپ نے مجھے میٹرک میں سائنس مضامین پڑھنے دیے ۔ یہ بھی یاد آتا ہے کہ جب بہت بیمار ہو گئی اور سب میرے بی۔ اے میں داخلے کے خلاف تھے اور آپ نے جا کر چپ چاپ ایڈمیشن کروا دیا تھا ۔آج میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ ایک بہترین ماں ہیں لیکن آپ نے جو ہم سب بہن بھائیوں کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کیا ۔ اسکا کوئی ثانی نہیں ۔ امی مجھے ستائیس سالوں میں آپ سے اچھا دوست نہ ملا نہ ملنے کی کوئی امید ہے ۔
زندگی میں جو ایک مسلسل کمی ہم نے پائی آپ نے اسے کم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اسکول ، کا لج ، یونیورسٹی سے لے کر میری شادی تک جو میرے سر پر ہاتھ رکھنے کے لئے بھی موجود نہ تھے آپ نے ان کی بھی عزت کرنا سکھایا ۔ میں کئی بار یہ سوال خود سے کرتی ہوں کہ آپ نے یہ سب کیسے کر لیا ؟ آپ نے ایک انجان شہر میں نہ صرف خود سر اٹھا کر ہمت سے زندگی گزاری بلکہ ہمیں بھی اعتماد دینے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ آج بھی میری بہترین دوست اور بہترین رازدار ہیں ۔ آج بھی مجھے سب سے مخلص مشورہ آپ ہی سے ملتا ہے ۔ آج بھی آپ کی نصیحت اتنی ہی اہم ہے جتنی بچپن میں تھی ۔
امی آج اگر کوئی میرے بارے میں ایک لمحہ بھی اچھا گماں کرتا ہے تو وہ آپکی بدولت ہے ۔ اگر میرے کہے میرے لکھے ہوۓ کی کوئی بھی تعریف ہے تو اسکی وجہ آپ ہیں ۔ ہم سب کہاں کر پاتے یہ سب اگر آپ ہمارا ساتھ نہ دیتیں ؟ آپ ہیں تو ہم ہیں آپ کے بغیر ہمارا کوئی وجود نہیں ۔ ہمارے لبوں پر ایک مسکان لانے کی خاطر ، اچھی تعلیم دلانے کی خاطر آپ نے سب کی مخالفت برداشت کی ہے اور اپنوں کا ظلم برداشت کیا ہے امی ۔۔۔
امی شاید ہم اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار آپ کی طرح کھل کر نہیں کر سکتے ، نہ ہی ساری زندگی ویسے نبھا سکتے ہیں جیسے آپ نے ہمارے لئے نبھائی، لیکن اس محبت ، پیار اور لاڈ کے علاوہ آپ کے لئے دل میں ایک اور جذبہ ہے۔ امی، آپ میری آئیڈیل ہیں ۔ میں آپ جیسی بننا چاہتی ہوں ۔ مضبوط اور مثبت ، پڑھی لکھی ، صاف دل اور دماغ کی عورت بننا میرا خواب ہے ۔ میری زندگی میں ہونے والے تمام تر تلخ تجربات کے باوجود اگر میں ہر وقت معاشرے کے مردوں کے لئے منفی سوچ نہیں رکھتی ۔ان کے خلاف نہیں لکھتی ۔ مثبت سوچتی اور لکھتی ہوں تو یہ سب آپ ہی کےمرہون منت ہے ۔امی آپ نے جتنی محبت ، پیار اور خلوص سے ہماری تربیت کی ، سب بچے درحقیقت آپ کی تمام تر کاوشوں کے لئے آپ کے ممنون ہیں ۔میں ہر گذرتے لمحے کے ساتھ آپ کو یاد کرتی ہوں امی ۔۔۔
اللّه آپ کا سایہ ہم پر سلامت رکھے ۔
آپ سے بے پناہ محبت کرنے والی آپ کی پردیسی بیٹی

Facebook Comments

آمنہ احسن
کتابیں اور چہرے پڑھنے کا شوق ہے ... معاملات کو بات کر کے حل کرنے پر یقین رکھتی ہوں ....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply