• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بین الاقوامی مارکسی رجحان کا سامراجی “مارکسزم”۔۔۔شاداب مرتضٰی

بین الاقوامی مارکسی رجحان کا سامراجی “مارکسزم”۔۔۔شاداب مرتضٰی

بین الاقوامی مارکسی رجحان (IMT) جو درحقیقت کمیونسٹ تحریک میں بین الاقوامی سامراجی رجحان ہے اس سے تعلق رکھنے والے ایک ٹراٹسکائیٹ آدم پال نے مارکس کی 200 ویں سالگرہ پر ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں انہوں نے مارکس کی عظمت بیان کرنے کے بعد سامراجی ایجنڈہ کی حسبِ روایت پیروی کرتے ہوئے عظیم مارکسی رہنما اسٹالن پر تبرے بھیج کر اسٹالن کو مارکسزم کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ٹراٹسکی کی سامراج نوازی پر ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔

ان کی دلیل وہی گھسا پٹا اور ثابت شدہ جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ ہے کہ اسٹالن نے ایک ملک میں سوشلزم کا قوم پرستانہ نظریہ اختیار کر کے عالمی سوشلسٹ انقلاب کا گلا گھونٹ دیا اور اس طرح مارکسزم کے آدرشوں سے غداری کی۔

حالانکہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ایک ملک میں سوشلزم کا نظریہ اسٹالن نے نہیں بلکہ لینن نے ٹراٹسکی کے مستقل اور عالمی انقلاب کے احمقانہ اور غیر مارکسی نظریے کے جواب میں پیش کیا تھا لیکن سامراج نواز ٹراٹسکیوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس معاملے پر لینن اور ٹراٹسکی کے درمیان مباحثہ، اور بالشویک پارٹی کے فیصلوں کی دستاویز موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ملک میں سوشلزم کا نظریہ لینن کا تھا۔ اسٹالن نے لینن کے شاگرد کی حیثیت سے اس کی محض پیروی کی۔

تاہم، چونکہ ٹراٹسکائیٹوں کو حقائق سے کوئی دلچسپی نہیں اور ان کا “انقلابی نصب العین” ایک فرد واحد، اسٹالن، کی دشمنی کی آڑ میں کمیونزم اور سوویت یونین کے خلاف سامراجی ایجنڈہ کو آگے بڑھانا ہے اس لیے ان کے لیے نہیں بلکہ غیرجانبدار قارئین کے لیے ہم لینن اور ٹراٹسکی کے درمیان ایک ملک میں سوشلزم کے بارے میں ہونے والی بحث کے متعلقہ اقتباسات یہاں پیش کردیتے ہیں تاکہ وہ انٹرنیشنل “سامراجی” رجحان اور اس کے نمائندوں کا حقیقی انقلابی کردار پرکھ سکیں۔ حوالے آخر میں دے دیے گئے ہیں:

ایک ملک میں انقلاب یا براہ راست عالمی انقلاب؟ اس حوالے سے مباحثے میں لینن نے ٹراٹسکی کے “یونائیٹڈ اسٹیٹس آف در ورلڈ” کے نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے 1915 میں کہا کہ “یونائیٹڈ اسٹیٹس آف دی ورلڈ” کا نعرہ (جس کا تعلق ٹراٹسکی کے عالمی انقلاب سے تھا) بمشکل ہی درست ہو گا، اول، تواس وجہ سے کہ یہ سوشلزم کے ساتھ خود کو ضم کرتا ہے؛ دوئم، اس وجہ سے کہ یہ (نعرہ) “ایک ملک میں سوشلزم کی کامیابی” اور اس طرح کے ملک کے باقی دنیا کے ساتھ تعلقات کی غلط تشریح کرتا ہے اوراس کے ناممکن ہونے کے خیال میں اضافہ کرتا ہے۔

ناہموارمعاشی اورسیاسی ترقی کا قانون سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مطلق قانون ہے۔ چنانچہ، سوشلزم کی کامیابی پہلےکئی ملکوں میں اورحتی کہ ایک سرمایہ دارملک میں علیحدہ سے ممکن ہے۔ اس ملک کا فاتح پرولتاریہ، سرمایہ داروں کونکال باہرکرکے اورسوشلسٹ پیداوارکومنظم کرکے، باقی دنیا کے خلاف، سرمایہ داردنیا کے خلاف، کھڑا ہوگا، دوسرے ملکوں کے کچلے ہوئے طبقوں کواپنی جانب کھینچ کر، ان ملکوں میں سرمایہ داری کے خلاف بغاوتیں کھڑی کرکے، اوربوقت ضرورت استحصالی طبقوں اوران کی ریاستوں کے خلاف مسلح طاقت کے ساتھ۔۔۔۔کیونکہ قوموں کے مابین آزاد اتحاد سوشلسٹ جمہوریائوں کی پچھڑی ہوئی ریاستوں کے خلاف مستقل اورطویل جدوجہد کے بغیرناممکن ہے۔۔۔”

لینن کے اختلافِ رائے کا جواب ٹراٹسکی نے ان الفاظ میں دیا: “یونائیٹڈ اسٹیٹس آف یورپ” کے نعرے کے خلاف واحد ٹھوس اورتاریخی دلیل جو پیش کی گئی ہے اسے سوئس سوشل ڈیموکریٹ (اس وقت بالشویک پارٹی کا نمائندہ اخبارجس میں لینن کا مندرجہ بالا مضمون شائع ہوا) میں اس جملے میں پیش کیا گیا ہے:
” ناہموارمعاشی اورسیاسی ترقی کا قانون سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مطلق قانون ہے۔”
اس سے سوشل ڈیموکریٹ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایک ملک میں سوشلزم کی کامیابی ممکن ہے، اوراس وجہ سے، یونائیٹڈ اسٹیٹس آف یورپ کے قیام کے لئے ہرعلیحدہ ملک میں پرولتاریہ کی آمریت لانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کہ مختلف ملکوں میں سرمایہ دارانہ ترقی ناہموار ہے، ایک مکمل غیرمتنازع دلیل ہے۔ لیکن یہ ناہمواری بذات خود ناہموارہے۔ برطانیہ، آسٹریا، جرمنی اورفرانس میں سرمایہ داری کی سطح ایک جیسی نہیں ہے۔ لیکن افریقہ اورایشیاء کے مقابلے میں یہ تمام ملک سرمایہ دار”یورپ” کی ترجمانی کرتے ہیں، جوسماجی انقلاب کے لئے پک کرتیار ہوچکا ہے۔ کہ کسی ملک کو اپنی جدوجہد کے لئے دوسروں کا “انتظار” نہیں کرنا چاہیے ایک بنیادی خیال ہے جس کا اعادہ کرنا ضروری اورکارآمد ہے تاکہ مسلسل بین الاقوامی عمل کے خیال کی جگہ عارضی بین الاقوامی بے عملی نہ لے لے۔ دوسروں کا انتظارکئے بغیر، ہم قومی سطح پرجدوجہد شروع کرتے ہیں اوراسے جاری رکھتے ہیں، اس مکمل اعتماد کے ساتھ کہ ہمارا پہلا قدم دوسرے ملکوں میں جدوجہد کوتیزترکرے گا؛ لیکن اگرایسا نہیں ہوتا، تویہ سوچنا بےکارہوگا – جیسا کہ تاریخی تجربے اورنظریاتی غوروخوص سے ثابت ہوتا ہے – کہ، مثال کے طورپر، ایک انقلابی روس اعتدال پسند یورپ کے سامنے ٹک سکے گا، یا یہ کہ ایک سوشلسٹ جرمنی سرمایہ دارانہ دنیا میں علیحدہ سے وجود رکھ سکے گا۔۔۔۔”

ٹراٹسکی نے مزید کہا کہ: “۔۔۔۔(ایک ملک میں) اقتدارحاصل کرکے، پرولتاریہ نہ صرف ان تمام سرمایہ دارگروہوں کے ساتھ مخاصمانہ ٹکرائو میں آجائے گا جنہوں نے انقلاب کے ابتدائی مرحلوں میں انقلابی جدوجہد میں اس کی حمایت کی بلکہ کسانوں کی وسیع عوام کے ساتھ بھی، جس کی مدد کے ساتھ یہ اقتدارمیں آیا ہے۔ ایک پچھڑے ہوئے ملک میں مزدوروں کی حکومت کی پوزیشن اور کسانوں کی غالب اکثریت کے ساتھ اس کے تضادات کو صرف بین الاقوامی سطح پرہی حل کیا جا سکتا ہے، عالمی پرولتاریہ انقلاب کے میدان میں۔”

اکتوبر 1917 کے انقلاب کے بعد جس نے ایک ملک میں سوشلزم کے لیننی نظریے کو درست اور ٹراٹسکی کے نظریے کو غلط ثابت کردیا تھا، ٹراٹسکی نے لینن اور بالشویک پارٹی کی مخالفت کی غرض سے اس بحث کو ایک نئے زوایے سے شروع کردیا۔

لینن نے 1922 میں ایک ملک میں سوشلزم کی تعمیر کے حوالے سے کہا کہ “۔۔۔سوشلزم اب مزید دورپرے کے مستقبل کا معاملہ، یا ایک مجردتصویر، یا شبیہ نہیں ہے۔۔۔۔ہم سوشلزم کو روزمرہ زندگی میں گھسیٹ لائے ہیں اوریہیں ہمیں اپنا راستہ لازمی طورپرتلاش کرنا ہے۔ یہ اس وقت ہمارا فرض ہے، ہمارے عہد کا فرض۔ مجھے اس پریقین اظہارکے ساتھ اپنی بات ختم کرنے کی اجازت دیجئے کہ یہ کام مشکل ہوسکتا ہے، پچھلے کاموں کے مقابلے میں نیا ہوسکتا ہے، اورخواہ اس میں کتنی ہی مشکلیں سامنے آئیں، ہم سب – ایک دن میں نہیں بلکہ سالہا سال کے عرصے میں – ہم سب مل کر اسے پورا کریں گے چاہے کچھ بھی ہوجائے تاکہ نئی اقتصادی پالیسی کا روس سوشلسٹ روس بن جائے۔”

ٹراٹسکی نے اپنی مخالفت کا اظہار ان الفاظ میں کیا: “۔۔۔امن کے پروگرام میں کئی باردوہرائی جانے والی بات، کہ پرولتاری انقلاب قومی حدود میں کامیابی سے انجام پذیرنہیں ہوسکتا، کچھ قارئین کوہماری سوویت جمہوریہ کے قریبا پانچ سالہ تجربے کی بنا پر شاید غلط ثابت ہوتی دکھائی دے۔ لیکن یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہو گا۔ یہ حقیقت کہ مزدوروں کی ریاست پوری دنیا کے خلاف ایک ملک میں ٹکی رہی ہے، اورایک ایسے پچھڑے ہوئے ملک میں، یہ پرولتاریہ کی دیو ہیکل طاقت کو ثابت کرتی ہے، جو دوسرے زیادہ ترقی یافتہ، تہذیب یافتہ ملکوں میں پرولتاریہ کوکرشماتی کاردکردگی دکھانے کے یقینا قابل بنائے گی۔ لیکن، حالانکہ ہم نے سیاسی اورعسکری حیثیت سے ایک ریاست کے طورپراپنے قدم جما لئے ہیں، ہم ابھی سوشلسٹ معیشت کی تخلیق تک نہ ہی پہنچے ہیں اورنہ ہی یہاں تک پہنچنے کا عمل شروع کیا ہے۔۔۔۔جب تک یورپ کے دوسرے ملکوں میں سرمایہ داراقتدارمیں ہیں، ہم اقتصادی علیحدگی کے خلاف اپنی جدوجہد میں سرمایہ داردنیا کے ساتھ معاہدے کی کوشش کرنے پرمجبوررہیں گے؛ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ایسے معاہدے زیادہ سے زیادہ اپنی چند اقتصادی خرابیوں کو دورکرنے میں، کوئی ایک یا دوسرا قدم آگےبڑھانے میں، ہمارے لئے مددگارہوں گے۔ لیکن روس میں حقیقی ترقی صرف بڑے یورپی ملکوں میں پرولتاریہ کی کامیابی کے بعد ہی ممکن ہوگی۔”

سو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک جانب لینن ناہموار ترقی کے قانون کی رو سے ایک ملک میں سوشلسٹ انقلاب کو ممکن سمجھنے اور روس میں انقلاب لانے کی بات کررہا ہے اور دوسری طرف ٹراٹسکی مختلف حیلوں بہانوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ ایک ملک میں انقلاب ممکن نہیں اور روس میں انقلاب آنے اور مستحکم ہونے کے بعد ایک ملک میں انقلاب کی کامیابی کو یہ عذر تراش کر رد کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس بات کو دیوہیکل پرولتاریہ نے ممکن بنایا ہے۔

آئیے دیکھیں اسٹالن نے اس مباحثے میں کیا نکتہِ نظر اپنایا۔ 1926 میں اسٹالن نے کہا کہ:
“۔۔۔ایک ملک میں سوشلزم کی کامیابی کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ پرولتاریہ کی آمریت تک پہنچا جائے اورسوشلزم کومکمل طورپرقائم کیا جائے اوراس طرح اپنے انقلاب کی اندرونی طاقتوں کے ذریعے اپنی معیشت میں سرمایہ دارعناصر پرغلبہ حاصل کیا جائے۔
اورہمارے ملک میں سوشلزم کی حتمی، آخری فتح کا مطلب کیا ہے؟اس کا مطلب ہے کم از کم بہت سے دوسرے ملکوں میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے دراندازی اور بحالی (سرمایہ دارانہ نظام کی) کے خلاف مکمل ضمانت۔
ایک ملک میں سوشلزم کی کامیابی کے ممکن ہونے کا مطلب ہے اندرونی تضادات کو حل کرنے کا ممکن ہونا، جنہیں ایک ملک مکمل طورپرحل کرسکتا ہے (جس سے مراد، ظاہرہے، ہماراملک (روس) ہے)۔ سوشلزم کی حتمی و آخری فتح کے ممکن ہونے کا مطلب ہے سوشلزم کے ملک اورسرمایہ دارملکوں کے درمیان بیرونی تضادات کو حل کرنا، ایسے تضادات جنہیں متعدد ملکوں میں پرولتاری انقلاب کے نتیجے میں ہی حل کیا جا سکتا ہے۔۔۔جو کوئی بھی تضادات کی ان دو قسموں کو الجھاتا ہے وہ یا تومایوس کن حد تک گھن چکر ہے یا ناقابل تصیح موقع پرست۔” ٹراٹسکی میں یہ دونوں خاصیتیں تھیں۔

ایک ملک میں انقلاب یا براہِ راست عالمی انقلاب؟ اس سوال پر ہونے والی طویل بحث کو بالآخر سمیٹتے ہوئے روسی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی قرارداد میں کہا کہ “۔۔۔عمومی طورپر ایک ملک میں سوشلزم کی کامیابی (حتمی اورآخری کامیابی کے معنی میں نہیں) بلا شک وہ شبہ ممکن ہے۔۔۔۔دو بالکل مخالف سماجی نظاموں کی موجودگی سرمایہ دارانہ پابندیوں کی مستقل لعنت کو، اقتصادی دبائو کی دوسری قسموں کو، مسلح دراندازی کو، بحالی کوبڑھاوا دیتی ہے۔ چنانچہ، سوشلزم کی حمتی اورآخری فتح کی ضمانت، یعنی (سرمایہ دارانہ) بحالی کے خلاف ضمانت، بہت سے ملکوں میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب ہے۔۔۔۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ روس جیسے پسماندہ ملک میں “ریاستی امداد” (جیسا کہ ٹراٹسکی کہتا ہے) کے بغیرمکمل سوشلسٹ معاشرہ قائم کرنا ناممکن ہے۔ ٹراٹسکی کے مستقل انقلاب کے نظریے کا ایک بنیادی جز یہ یقین ہے کہ “روس میں سوشلسٹ معیشت کی حقیقی ترقی صرف بڑے یورپی ملکوں میں پرولتاریہ کی فتح کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی” – ایک ایسا یقین جو موجودہ دور میں سوویت یونین کے پرولتاریہ کومہلک بے عملی کی خاطرملامت کرتا ہے۔ ایسے “نظریوں” کی مخالف میں کامریڈ لینن نے لکھا تھا: “یہ دلیل بے حد فرسودہ ہے جو انہوں نے مغربی یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کی ترقی کے دوران رٹے لگا کرحفظ کی ہے، یعنی، ہم اب تک سوشلزم کے لئے تیارنہیں ہوئے ہیں، جو، جیسے کہ ان میں موجود کچھ مخصوص “عالم فاضل” شرفاء ظاہر کرتے ہیں، کہ ہمارے ملک میں سوشلزم کے لئے معروضی اقتصادی لوازمات موجود نہیں ہیں۔”

سو، حالانکہ آدم پال نے بڑے کروفر سے مارکسزم کے بھیس میں چھپے مارکسزم کے دشمنوں کو بے نقاب کرنے کی بات کی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ بین الاقوامی مارکسی رجحان کے ٹراٹسکائیٹ رٹو طوطوں کا مارکسزم خود ایک ایسا نام نہاد “مارکسی” رجحان ہے جو مارکسزم کے نام پر اسٹالن کی شخصیت پرستانہ دشمنی کی آڑ میں کمیونزم کی مخالفت کے سامراجی ایجنڈے کی خدمت گزاری کر رہا ہے۔

حوالہ جات:
Lenin: On The Slogan of “United States of Europe”: August 23, 1915

Trotsky: Peace Programme: Collected Works, Vol. III, Part 1, pp.89-90.

Trotsky: “Preface” (written in 1922) to the book “The Year 1905”

Lenin: Collected Works, Vol. XXVII, p. 336

Trotsky: “Post Script” to his pamphlet “Peace Program”: 1922

Lenin: “On Cooperation”, Collected Works, Vol. XXVII, p.392.

Stalin: The Social Democratic Deviation in our Party: Report delivered at the 15th Conference of C.P.S.U. (B.), November 1, 1926

Advertisements
julia rana solicitors

Resolution of the 14th Conference of R.C.P. (B.) on “The Tasks of the Comintern and the R.C.P. (B). in Connection with the Enlarged Plenum of the E.C.CI.

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply