بادِ مخالف سے بِپَھرنے کا نام صبر ہے۔۔عمر خالد

ایک مرتبہ نبی کریم ﷺقبرستان سے گزر رہے تھے کہ ایک عورت اپنے عزیز کی قبر پر جزع فزع کرتی نظر آئی ،آپ نے فرمایا: صبر کرو اور اللہ سے ڈرو۔ اس پر عورت نے کہا کہ آپ کو میری مصیبت کا اندازہ نہیں۔ بعد میں جب عورت کو معلوم ہوا کہ وہ تو اللہ کے رسول تھے تو اس پر سکتہ طاری ہوگیا، پشیمانی سے دوڑتی ہوئی حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اصل صبر صدمہ پہنچتے وقت ہی ہوتا ہے۔

صبر عربی زبان کا لفظ ہے، سخت ہواؤں کے جھکڑ میں سر تانے کھڑے رہنا صبر ہے۔اس کی روح میں استقلال، عزم ، پامردی، ثابت قدمی، استقامت اور ڈٹ جانے کے معنی پوشیدہ ہیں۔ جنید بن محمد نے کہا تھا کہ ماتھے پر شکن پڑے بنا زمانے کی کڑوی کسیلی گھونٹ گھونٹ پینا صبر ہے۔ ابو عثمان کے نزدیک ”ناگواریوں کے خلاف جدوجہد کی عادت“ کو صبر کہتے ہیں۔ اردو میں صبر کا مفہوم ذرا محدود اور مختلف ہے، یہاں اسے کمزور اور ستم زدوں کا وطیرہ سمجھا جاتا ہے۔ تدبیر و بندوبست کا عجز، طاقت و دولت سے محرومی، اور جبراً زمانے کی تلخ زیادتیاں سہنا اس کا سادہ مفہوم ہے، اضطرار کی اس حالت کو مقامی زبان میں صبر کہتے ہیں ۔ مگر وہ کیفیت جس میں ڈٹنے کا اختیار ہو، جرات کا اظہار ہو اور عزم کی نمود ہو وہ بھی صبر ہی کی تعریف میں شامل ہے۔ اسے صبر اختیاری کہیے۔ یوسفؑ کا کنویں میں ، اور زلیخا کے فتنہ سے فرار، ایوب ؑ کی بیماری اور نبی ﷺ کے فقر میں یہی اختیار ی و اضطراری صبر ہے۔

ایک عرب شاعر صبر و برداشت کا نقشہ کھینچتا ہے تو شجاعت و فیاضی کی وسیع دنیا اس کے باطن میں سمٹ جاتی ہے۔ زمین کو بھونچال ہو تو پہاڑ ٹل جاتے ہیں ،مگر تاریخ عربوں کے عزم کی گواہ ہے۔ انسانی عقل معاشرے کے اچھے و برے معیارات کا گہرا شعور رکھتی ہے۔ اچھائی کے سانچے میں شخصیت ڈھالنا اور برائی کے شکنجہ سے برسر پیکار رہنے سے آدمی کو شناخت ملتی ہے۔ شجاعت، پاکدامنی، وقار، مروت، حلم، امانت و صداقت، وفا، درگزر جیسی خوبیاں عطربیز اور پسندیدہ ہیں۔ جبکہ بزدلی، کمینگی، طیش، ظلم ، خیانت اور جھوٹ سے طبیعتوں کو تنفر ہے۔ اچھائی اور برائی کی اسی کشمکش میں ثابت قدمی سے ٹھہرنے کو صبر کہتے ہیں۔

اخلاقیات میں صبر کا شمار بنیادی صفات میں ہوتا ہے، نفسیات کی خام کمزوریوں کا اس سے بہتر علاج نہیں ۔ عمرؓ سہولت پسندی سے حتی الامکان گریز کی تلقین کرتے تھے۔ دنیا میں کوئی مقصد بنا صبر کے حاصل نہیں ہوسکتا ” ہے جہدِ مسلسل کی جزا رفعت افلاک “،

آج جاپان اور جرمنی محنت و مشقت میں سرفہرست ہیں، دونوں ریاستوں کو جنگ عظیم دوم میں شکست ہوئی، اتحادیوں نے اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ان میں شکستگی اور جرم کاگھاؤ ایسا اثر چھوڑ گیاکہ نصف صدی میں کایا پلٹ گئی۔ عروج و زوال میں کردار کا سوتہ اسی قرینہ صبر سے پھوٹتا ہے ۔ صبر کی پختگی اور صحیح رخ کا تعین منزل مقصود کا ضامن ہے۔ ایک دوسری شئے  بھی پیش نظر ہو، اسےجزع فرع اورشکوہ و شکایت کہیے ، اس کی تہہ میں عاجزی و بے بسی پنہاں ہے۔ یہ صبر کا مخالف رخ ہے۔

مشہور کہاوت ہے کہ آدمی اپنے مخالفین سے وہ کچھ سیکھتا ہے جو ہم نواؤں کی صحبت میں ناقابل تصور ہے۔ ایک عربی کہاوت کے مطابق: اشیا کی حقیقت اس کی ضد سے متعین ہوتی ہے۔ سیاہ ،سفید کے ، اجالا، اندھیرے کے اور انصاف، ظلم کے بغیر ناقابل فہم ہے۔اشیا میں اضداد کا پایا جانا حیرت انگیز یوں بھی ہے کہ ان میں سازگاری پائی جاتی ہے۔ صبر دانائی کی علامت ہے جزع بے بسی کا ظہور ہے۔ ایک دور اندیشی ہے تو دوسری نا عاقبت اندیشی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قوم کے خود ساختہ دانشور دن رات جزع فزع کرتے نظر آتے ہیں۔ لعن طعن ، دشنام طرازی، مخالفین کی ٹانگیں کھینچنا، جملے کسنا، تنقیص کے پل باندھنا۔ یہ رونا دھونا عجز ہے، اپنی درماندگی کا واویلا ہے۔ مگر جہد مسلسل کرتے خاموش افراد ہزاروں نصیبوں کی شمع جلا جاتے ہیں۔ یہ نقارہ جب بجتا ہے تو تاریخ کے اوراق عزیمت اور صبر کی داستان سے پُر کئے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

عمر خالد
ستاروں کے جھرمٹ میں ایک ذرہ بے نشان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply