والدہ کی قبر پر۔۔۔آمنہ خورشید

مجھے لگتا تھا یہ دنیا ہی سب کچھ ہے۔ ہم ایسے ہی ہنسی خوشی یہاں رہتے رہیں گے۔ میں امی کے گھر جاؤں گی تو امی مسکراتے ہوئے ملیں گی اور کہیں گی۔ موہنی! اتنی دیر! بندہ جلدی گھر سے نکلتا ہے۔ مجھے لگتا تھا میں جب بھی امی کے نمبر پر کال کروں گی تو امی جی فون اٹھا لیں گی اور کہیں گی۔ مونو کیا حال ہے؟
لیکن کچھ دنوں سے نماز کے وقت موبائل آف ملتا تھا امی کا۔ پھر پریشان ہو کر فائزہ کو کال کرتی تھی۔
“امی نماز پڑھ رہی ہیں۔ اس لیے موبائل آف کیا ہے۔”
میں اتنا حیران ہوتی۔ اب پتہ لگا ہے وہ عادت ڈال رہی تھیں کہ میرے پیارے بچو! اب میرا موبائل آف رہے گا۔ اب اس میں میری آواز نہیں آئے گی۔

مجھے لگتا تھا امی جی یونہی ابو سے جھوٹ موٹ کا جھگڑتی رہیں گی۔ “آپ نے روٹی کے دونوں طرف دیسی گھی کیوں لگایا ہے۔ پتہ بھی ہے دل مسئلہ کر جاتا ہے آپ کا۔ اب یہ ڈبہ میں چھپا کر رکھوں گی”
لیکن امی جی ایک دن یکدم ہنستے مسکراتے سے چپ چاپ ہو گئیں۔ ایسی بے حس و بے حرکت ہوئیں کہ جب ہم نے ان کے بالوں میں شیمپو کیا تو وہ اپنا سر بھی خود نہ اٹھا سکیں۔ پھر فاتی اور میں نے ان کے بال سیدھے کیے اور باجی نے انہیں شیمپو کیا۔ جب چہرہ قبلہ رخ رکھنے کا وقت آیا تو میں نے دیکھا امی ساکت تھیں۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا پھر ان کا چہرہ ہلکا سا دائیں رخ پر کر دیا۔ وہ پھر بھی کچھ نہ کہہ سکیں۔ کہہ سکتی ہوتیں تو شاید وہی جملہ کہتیں جو وہ اکثر کہا کرتی تھیں۔ “موہنی اللہ تیرا بھلا کرے۔”

اس دن میں نے ایک سبق سیکھ لیا۔ جسم کچھ بھی نہیں ہوتا۔ میں جتنے بھی اچھے کھانے کھا لوں بہترین لباس پہن لوں ایک دن مجھے یونہی لکڑی کے تختے پر لیٹنا پڑے گا ایسے کہ اگر میرابازو تختے کے نیچے گر گیا تو میں اٹھا نہیں سکوں گی۔

ابھی ابھی میں گھبرا کر اٹھ گئی ہوں۔ مجھے لگتا ہے امی کہیں سے ہی سہی آ جائیں گی ناں۔ اور کہیں گی۔ موہنی ابھی تک نہیں سوئی۔ سو جا۔ فجر لازمی پڑھنی ہے۔ کاش ایک بار بس ایک بار امی جی کی آواز آ جائے کسی کمرے سے۔ اوپر والے بر آمدے سے، کچن سے، چھت سے۔ کہیں سے بھی۔۔ تو میں بھاگی جاؤں  گی اور کہوں گی امی جی آپ کی آواز سنے پانچ دن ہو گئے تھے۔ سب کچھ سونا سونا خالی خالی سا لگ رہا تھا۔ لگتا تھا زندگی ہی ختم ہوگئی ہے۔

کئی ماہ سے سخت پریشانی میں تھیں۔ بار بار وضو کرتی تھیں اور ایک گھنٹے تک کرتی رہتی تھیں۔ پھر نماز کی چار رکعتوں میں بھی پونا گھنٹہ  لگ جاتا تھا۔ وہم ہوتا رہتا تھا کتنی رکعت پڑھی۔ لفظ اٹک اٹک جاتے تھے بار بار پڑھنے کے باجود زبان سے ادا نہیں ہوتے تھے۔ ابو نے سمجھایا، بھائی نے منع کیا کہ جب تک دوا لے  رہی ہیں نماز چھوڑ دیں۔ لیکن جب اذان ہوتی سارے کام چھوڑ کر وضو کرنے لگتیں اور پھر کرتی جاتیں۔ آخری دن ابو سے بحث ہوگئی۔ مغرب کا وضو بھی ایسے ہی بار بار کر رہی تھیں جب ابو نےکہا۔ آپ کا وضو ہو گیا ہے۔ بس اب آ جائیں۔
تو خفگی سے کہنے لگیں۔ آپ کو کیا پتہ میں کتنی ٹینشن میں ہوں۔ اللہ نہ کرے یہ بیماری کسی کو ہو۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد کمرے میں آ کر بیڈ پر بیٹھ گئیں اور سر جھکا کر ابو سے کہنے لگیں۔
مجھے معاف کر دیں۔ میں سخت بول گئی تھی۔

آئے ہائے امی جان! کیا ہی پیارا سبق سکھا کر چلی گئیں۔ شوہر کا احترام و رتبہ کا لحاظ۔ غلطی نہ ہونے پر بھی معافی مانگ لینا۔
ابو نے کہا۔ رہنے دیں کوئی بات نہیں۔ میں آپ کے فائدے کے لیے کہہ رہا تھا۔ پانی بھی اتنا زیادہ خرچ کرتی ہیں۔ پھر تھک جاتی ہیں وضو کر کر کے۔ بس ایک بار وضو کیا کریں۔ پھر سارے وہم کو جھٹک دیں۔
لیکن یہ ان کے بس میں نہیں رہا تھا۔۔

جب تصور میں امی کو دیوار کے ساتھ ڈھلکے، ہوئے دونوں بازو گرے ہوئے، ادھ کھلی آنکھیں اور پاؤں   کی انگلیاں خلال کے سے انداز میں سخت ہو چکی دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں وہ کون سا لمحہ ہو گا جب ملک الموت آیا ہو گا اور اس نے کہا ہو گا۔ بس اب چلی چلو۔ بہت ٹینشن لے لی نماز کی۔۔بہت بھول چکی وضو میں ناک میں پانی ڈالا تھا یا نہیں۔ بہت وہم کر لیا دو رکعت ہوئیں یا تین۔ بس اب چلو۔ ۔۔اور امی چلی گئیں۔

اے ملک الموت!کیا تم واقعی ہمارے اس گھر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ آئے تھے؟ اے ملک الموت! کیا تم واقعی ہمارے اتنے قریب سے ہو گئے ہو؟ اے ملک الموت اگر تم یونہی بندوں کو ان کے رب کے  پاس لے جاتے ہو تو پھر میں اس دنیا میں کیوں جی لگاؤں؟ جب میں نے ایک دن اپنے سب کپڑے سب زیور گھر بچے اپنی فیورٹ چیزیں سب کچھ چھوڑ کر تمھارے ہمراہ چلے آنا ہے تو میری توبہ ،جو میں اس فانی زندگی کے دلفریب دھوکے میں آؤں۔۔

قربان جاؤں، اپنے نبی کی سنت سنت پر واری جاؤں اپنے نبی کی بات بات اور لفظ لفظ پر۔ بیان سن رہی تھی تو حدیث بتائی گئی۔ جس کا مفہوم تھا۔ جس کی ماں نہیں رہی وہ اپنی خالہ کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مطلب وہ اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھے۔ تنہا نہ خیال کرے۔ یہ سوچے کہ اس کہ خالہ ہے ناں  اس کی امی کی جگہ پر۔

بس اسی لمحے میں نے سوچ لیا میں آما کو امی سمجھا کروں گی۔ آما جو میری امی سے پندرہ سولہ سال چھوٹی اور ہم سے کچھ ہی سال بڑی اکلوتی خالہ ہیں۔ آما جو کراچی سے آئی ہوئی ہیں اور بار بار کہتی ہیں۔۔ابھی تک سب کچھ خواب سا لگتا ہے۔ آما جو میرے ساتھ دو راتوں سے سو رہی ہیں اور ہم کتنے ہی چائے کے کپ اکھٹے پی چکے ہیں۔ یہ وہی آما ہیں جو میری جان بوجھ کر کہی ہوئی الٹی سیدھی باتوں پر ہنستے ہنستے آنکھیں بند کر لیتی ہیں اور جب آنکھیں کھولتی ہیں تو ان میں آنسو چمک رہے ہوتے ہیں۔آج سارا دن بچوں کو چیزیں دلاتی رہی ہیں۔ رات کو لیٹتے ہی کہتی ہیں یہ لائٹ میری آنکھوں پر پڑتی ہے پردہ آگے کرو۔ سب باتیں امی جیسی کرنے والی آما کو میں کیوں نہ امی سمجھوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امی کی قبر کی تصویر محفوظ کر لی ہے۔ میں نے غور کیا ہے امی کی قبر پر امی جیسی چھاؤں ہے۔ دھوپ ظاہری طور پر ہو گی لیکن محبت پیار خلوص اور بے لوث چاہتوں کے سائے بہت گہرے ہیں۔ ہو سکتا ہے پھولوں کی یہ پتیاں اب تک مرجھا گئی ہوں لیکن خوشبو آتی رہے گی۔۔ اس نفیس و خوش رو بدن سے جو محبتوں اور شفقتوں کی مٹی سے گوندھا گیا تھا۔۔ جو اپنے بچوں پر لمبی لمبی دعاؤں  کے ایسے حصار باندھ گیا جو بہت مضبوط اور تادیر قائم رہنے والے ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply