میرے تغيّرِ حال پہ مت جا۔۔۔۔۔شکور پٹھان

” چل تجھے پان کھلواؤں” چچا نے ایک اور دعوت دی۔

ہم کیفے گلوریا سے باہر آرہے تھے  اور یہ کیفے گلوریا بھی کیا چیز تھا۔ چچا نے کیپیٹل سنیما میں انگریزی فلم دکھائی تھی جو میرے بالکل پلّے نہیں پڑی تھی اور میں نیند کی کیفیت میں تھا ۔ لیکن کیفے گلوریا میں داخل ہوتے ہی جیسے ساری سستی کافور ہوگئی۔ بھاپ اڑاتی سبز چائے کی خوشبو نے جیسے دل ودماغ کے سارے درواز ے کھڑکیاں کھول دیے۔ بیرے بھی کمال کے تھے۔دونوں ہاتھوں میں تین تین پیالے اور پلیٹ لئے ، سرکس کے شعبدہ بازوں کی طرح گھررررر کرکے میزوں پر دھر رہے تھے۔
سبز چائے کے ساتھ ” مسکا بن” کھاکر میری طبیعت بشاش ہوگئی تھی اور فلم کی ساری کوفت بھی دور ہوگئی۔

کیفے سے نکل کر چچا برابر میں بنے ایک چھوٹے سے پان کے کھوکھے کی طرف چلے گئے ،میں سنیما کے دروازے کے باہر لگے لکڑی کے جالی دار فریم کے اندر لگی ، آنے والی فلموں کی تصویریں دیکھ رہا تھا۔ گاہے چچا کی طرف بھی نظر کر لیتا۔ چچا پان والے سے کچھ بات کررہے تھے۔ دکان کے ساتھ ہی ایک  سٹول پر گول ٹوپی اوڑھے ایک شخص بیٹھا تھا۔ چچا جھک کر اب اس سے باتیں کرنے لگے۔گول ٹوپی والے کا ایک ہاتھ جیب میں تھا۔ چچا نے کچھ پیسے جیب سے نکال کر اس کے ہاتھ میں منتقل کئے۔
چچا بہت زیادہ دیالو بھی نہیں تھے۔ ہم بچوں پر تو پیسے خرچ کرتے لیکن عموماً حساب کتاب سے چلتے۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ چچا نے عام فقیروں کی طرح بھیک نہیں دی بلکہ یہ رقم کچھ زیادہ ہی تھی۔ اس شخص سے ہاتھ ملاتے ہوئے چچا کا انداز فدویانہ تھا۔
پان لے کر چچا میری طرف آئے۔” پتہ ہے یہ کون ہے ؟”
ہم آگے بڑھ آئے تھے اور کیپیٹل سنیما کی گلی سے باہر آرہے تھے۔
” کون”
” جس سے میں باتیں کررہا تھا”
” پان والا؟” میں نے استفسار کیا۔
” نہیں دوسرا آدمی” چچا نے تصحیح کی۔
” وہ فقیر۔۔۔وہ جو  سٹول پر بیٹھا تھا؟”
‘ ہاں ! لیکن وہ فقیر نہیں ہے۔۔۔صادق علی ہے”
” صادق علی ؟ ”
” ہاں ۔۔۔ایک زمانے میں فلموں کا ہیرو تھا”
” ہیرو؟ یہ تو بڑا عجیب سا آدمی تھا، موالی ٹائپ کا”
” نہیں اس کے ایک ہاتھ میں فالج ہے جسے جیب میں رکھتا ہے۔ یہ کبھی پرنس آف منروا کہلاتا تھا” چچا نے مزید تفصیل بتائی۔

میں شاید چھٹی یا ساتویں میں پڑھ رہا تھا۔پہلی سے اب تک اردو ہی پڑھتا آیا تھا۔ پرنس کیا ہوتا ہے تو کچھ کچھ سمجھ آیا، منروا کیا چیز ہے، کسی جگہ کا نام لگتا ہے شاید؟ ۔ ہم اب صدر کے قریب فٹ پاتھ پر چل رہے تھے۔ میرا دھیان چچا کی باتوں میں نہیں تھا۔ میں آس پاس کی دکانوں، ٹراموں اور بسوں کو دیکھ رہا تھا۔
ہم شہر کے مضافات میں رہتے تھے اور صدر ، بندر روڈ یا کیماڑی کبھی کبھار ہی آنا ہوتا تھا اور میرے لئے شہر گھومنا ہی سب سے بڑی تفریح تھی۔

اور یہ کچھ سالوں کے بعد کی بات ہے۔ میرے بڑے چچا کی شادی تھی۔ ہم صدر کی ایک گلی میں درزی کی دکان میں کھڑے تھے۔ چچا نے شادی کے لئے سوٹ سلوایا تھا جس کاٹرائل دینے ہم یہاں آئے تھے۔ دکان کی دیواروں پر عیسٰی مسیح، کنواری مریم وغیرہ کی شبیہیں آویزاں تھیں ( یہ مجھے بعد میں علم ہوا، ورنہ اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کن کی تصویریں ہیں ) ۔ ایک تصویر میں یونانی  لباسوں والے بارہ تیرہ آدمی ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔
” یہ کس کا فوٹو ہے ماسٹر؟ ” چچا نے ایک اور بڑی سی تصویر کی طرف اشارہ کیا جس میں سوٹ بوٹ اور ہیٹ میں ایک وجیہ اور انگریزی فلموں جیسے شخص کی تصویر تھی۔
” تم کو نئیں مالوم ؟” ۔۔درزی شاید گوانی یا اینگلوانڈین تھا۔
” یہ ساڈک علی ہے۔ اس کا پکچر ‘پکار’ بہت فیمس ہوا تھا۔ تم دیکھا ہے پکار؟ نسیم بھی تھا اس میں” ۔ ماسٹرچچا کو آدھ سلا کوٹ پہناتے ہوئے بتارہا تھا۔
چچا نے کوٹ پہن کر سامنے لگے قد آدم آئینے میں خود کو بغور دیکھا۔ پھر ایک نظر دیوار پر لگی تصویر کی دیکھا۔ چہرے پر کچھ مایوسی کی سی جھلکی نظر آئی۔ چچا کا قد پکار کے ہیرو جیسا اونچا نہیں تھا اور وہ کوٹ میں شاید صادق علی جیسے نہیں لگ رہے تھے۔
مجھے چچا کی صادق علی سے ملاقات یاد آئی۔ پیچھے ہی کہیں کیپیٹل سنیما والی گلی تھی لیکن درزی کی دکان سے باہر آکر چچا نے ایک رکشہ کو رکنے کا اشارہ کیا۔
صادق علی کے بارے میں کبھی کبھار فلمی رسالوں یا اخبار میں پڑھتا اور اکثر تحریروں میں اس کی حالت پر تاسف کا اظہار کیا جاتا۔ میرے جی میں آئی کہ اب کبھی وہاں سے گزروں تو رک کر ضرور اسے دیکھوں گا،

میں کالج میں آگیاتھا۔۔۔ بوہری بازار سے گذرتے ہوئے ایک بار سوچا کہ اس پان کی دکان پر جاؤں لیکن بوہری بازار کی پر پیچ گلیوں میں مجھے کیپیٹل سنیما والی گلی نہیں ملی۔
اور پھر جب مجھے کیپیٹل والی گلی ملی، صادق علی وہاں نہیں تھا۔۔۔انہی دنوں اخبار میں اس کے مرنے کی خبر بھی آگئی۔
میرے کچھ دوست عمر میں مجھ سے کافی بڑے بلکہ دوایک تو شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔ کبھی صادق علی کا ذکر آتا تو ” پرنس آف منروا” اور پکار کا ذکر ضرور ہوتا۔ مجھے بھی اب معلوم ہوگیا تھا کہ منروا کا مطلب ” منروا مووی ٹون ” ہے جس کا مالک سہراب مودی تھا جو اپنے وقتوں کا بہت بڑا اداکار اور ہدایتکار مانا جاتا تھا۔ اسکی بنائی ہوئی فلمیں ” پکار” پرتھوی ولبھ” اور ” جیلر” ہندوستانی سینیما کی بڑی اور شہرہ آفاق فلمیں مانی جاتی تھیں۔
اور یہ صادق علی ، سہراب مودی کی آنکھ کا تارا تھا اور منروا والے اس کے ناز کسی شہزادے کی طرح اٹھاتے۔
وجیہ اور خوبصورت صادق علی اپنے وقتوں کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا۔ پری چہرہ نسیم، ثریا، لیلا چٹنس وغیرہ صادق علی کے ساتھ آنے پر فخر محسوس کرتے۔ سہراب مودی کی پکار، پرتھوی ولبھ،جیلر کے علاوہ سکندر، میٹھا زہر، خان بہادر میں تو وہ تھا ہی ، دوسری فلم کمپنی والے بھی اس کے دروازے پر کھڑے نظر آتے۔ ” ایک دن کا سلطان” الٹی گنگا” اور صادق علی کی دوسری فلمیں کھڑکی توڑ رش لیتیں۔
پھر پاکستان بن گیا۔ صادق علی بھی مسلمانوں کے لئے بنے نئے ملک میں آگیا۔ لیکن نئے ملک میں ابھی فلمی صنعت کا کوئی حال نہیں تھا اور جب تک نوزائیدہ فلم انڈسٹری اپنے پروں پر کھڑی ہوتی ، لوگ صادق علی کو بھول بھال گئے۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پرنس آف منروا اپنا فالج زدہ ہاتھ جیب میں چھپائے ہر آتے جاتے کو دزدیدہ اور سوالی نظروں سے دیکھتا۔ کوئی اس کے پاس بیٹھ جاتا تو اپنی فلموں کے قصے سنانے لگتا، کیپیٹل سنیما کے مالک نے شاید صادق علی کو مفت فلم دیکھنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ وہ راہگیروں اور سنیما بنیوں سے نئی فلم کے حسن و قبح پر تبصرے کرتا۔
اس کا وقت کب کا گذر چکا تھا اور وقت سے زیادہ ظالم چیز کوئی نہیں۔ وقت جس نے انسانوں کا اور قوموں کا عروج وزوال دیکھ رکھا ہے، وقت ، جس کی قسم رب نے کھائی اور یہ بھی بتادیا کہ انسان خسارے میں ہے، لیکن یہ بھی بتادیا کہ کن لوگوں کے لئے اس خسارے سے نجات ہے، لیکن گتنے ہیں جو یاد رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے صادق علی کی تصویر تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ مجھے اس کے عروج کے زمانے کی بہت سی تصویریں مل گئیں۔ وہ تصویر بھی مل گئی جو صدر کے گو انیز ٹیلر کے ہاں دیکھی تھی۔ لیکن مجھے صادق علی کی بوہری بازار والی تصویر چاہیے  تھی جو کہ تلاش بسیار کے باوجود کہیں نہیں ملی۔ البتہ اس کے بڑھاپے کی ایک تصویر، میرے محقق دوست، عقیل عباس جعفری کے شاندار کارنامے” پاکستان کرونیکل” میں مل گئی۔
عقیل صاحب نے بڑی محنت سے قیام پاکستان سے اب تک کے واقعات اور تصاویر کو جمع کیا ہے اور پاکستان سے متعلق جو تصویر آپ کو گوگل، ویکیپیڈیا وغیرہ پر بھی نہ مل سکے وہ ” پاکستان کرونیکل میں کہیں نہ کہیں ضرور مل جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن ایک تصویر مجھے پاکستان کرونیکل میں بھی نہیں مل سکی اوروہ ہے ” ماسٹر عزیز” کی۔
ماسٹر عزیز کی تصویر البتہ میری آنکھوں میں اب تک ہے۔

آخری بار ماسٹر کو ٹی وی پر دیکھا تھا۔

ہندوستان کی کرکٹ ٹیم اٹھارہ سال کے بعد تین ٹیسٹ کھیلنے پاکستان آئی تھی۔ لاہور اور فیصل آباد میں ہونے والے میچوں میں سے ایک پاکستان جیت چکاتھا۔ کراچی ٹسٹ بہت سارے نشیب وفراز  کے بعد پاکستان نے جیت لیا تھا۔
فاتح کپتان مشتاق محمد اپنی ٹیم کو لیکر ڈریسنگ روم کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ سیڑھیوں کے ساتھ بیٹھے سابق کھلاڑیوں اور وی آئی پی تماشائیوں میں ایک بھاری جسم اور اونچے قد والا شخص جس نے ایک بوسیدہ سا بلیزر پہن رکھا تھا جو نجانے پاکستان کا تھا یا کسی اسکول یا کالج کا۔ بلیزر والا شخص حسرت، مسرت اور فخر سے مشتاق کی جانب دیکھ رہا تھا جو بے نیاز  سی فاتحانہ مسکراہٹ لیے تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا جاتا تھا۔
یہ مشتاق کا استاد، ‘ ماسٹرعزیز تھا جو اپنے قابل شاگرد کی جانب ایک ٹک دیکھے جارہا تھا لیکن شاگرد اس وقت کسی اور ہی دنیا میں تھا۔ یوں بھی، ہندوستان کے خلاف چاہے کھیل کامیدان ہو یا جنگ کا، کسی بھی کامیابی کے بعد پھر ہم آپے میں مشکل ہی سے رہتے ہیں۔

ان ماسٹر عزیز کو میں بہت پہلے ایک بار مل چکا تھا۔

پرانی نمائش سے متصل کے جی اے گراؤنڈ میں انجمن اسلام بمبئی کے سابق طلبہ کی تنظیم کا سالانہ کرکٹ میچ تھا۔ میرے بڑے پھوپھا اس تنظیم کے صدر تھے۔ ان کے بیٹے اس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن میں بھی ان کا لاڈلا تھا۔ ان کی وجہ سے مجھے بھی کھیلنے کا موقع مل جاتا۔ اس میچ میں انجمن کے سابق طلبہ جن میں سے چند ایک نے رانجی ٹرافی اور دلیپ ٹرافی وغیرہ کھیل رکھی تھی۔ انہی میں پاکستان کی پہلی ٹسٹ ٹیم کے رکن ابو غزالی کے بھائی بھی تھے جو کہ فرسٹ کلاس کھلاڑی رہ چکے تھے اور اس عمر میں بھی جوانوں سے زیادہ چست تھے۔
میں بہت پہلے کے جی گراؤنڈ پہنچ گیا تھا۔ پویلئین خالی تھا ایک گوشے میں پختہ رنگت والا ایک شخص کرسی پر بیٹھا انگریزی اخبار کا مطالعہ کررہا تھا۔ اور اس نے وہی بلیز ر پہن رکھا تھا جو شاید کئی سال بعد میں نے ٹی وی پر دیکھا تھا۔ مجموعی طور پر یہ ایک خستہ حال شخص نظر آرہا تھا۔ میں چپ چاپ ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ شاید میں نے اس شخص کو سلام بھی نہیں کیا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد انجمن کے ایک اور ممبر، ممتاز شاعر انور حارث کا بیٹا اعجاز حارث بھی آن پہنچا، اعجاز میرے ساتھ ہی کالج میں پڑھتا تھا اور کالج کی ٹیم کے لئے کھیلتا تھا۔ سلام دعا اور مصافحےکے بعد اعجاز تیزی سے اس مفلوک الحال قسم کے شخص کی جانب آیا اور سلام کرکے ان کے پاس کھڑا ہوگیا۔ میں بھی اعجاز کے ساتھ ہی تھا۔
” یہ ماسٹر عزیز ہیں” اعجاز نے بتایا۔
مجھے یاد آیا کہ حنیف محمد کے ساتھ اکثر ماسٹر عزیز کا نام سننے میں آتا تھا۔ ماسٹر عزیز سندھ مدرسہ کے کوچ تھے اور حنیف، ان کے بھائی مشتاق کے علاوہ محمد مناف، اکرام الہی اور کراچی کے کئی کھلاڑی ماسٹر صاحب کے شاگرد تھے۔ میرے بڑے چچا بھی سندھ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے اور سندھ مدرسہ میرے لئے ایک خاص حیثیت رکھتا تھا جو کہ بابائے قوم کی بھی اولین درسگاہ تھا۔
سندھ مدرسہ، حنیف محمد اور چچا کی وجہ سے یہ ماسٹر عزیز بھی مجھے بہت اچھے لگے۔ اب میں نے انہیں سلام بھی کیا اور ہاتھ بھی ملایا۔ ہم ان کے آس پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اعجاز نے ان سے چند سوالات کئے اور وہ خندہ پیشانی سے بلے کی ” گرپ ” ، وکٹ پر کھڑا ہونے، بیٹ اور جسم کے فاصلے کے متعلق بتاتے رہے اور اعجاز غور سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔

” ارے کسی کو پتہ ہے اس بار رانجی کس نے جیتی۔ لاسٹ ویک فائنل تھا؟” ماسٹر نے اچانک سوال کیا۔
مجھے رانجی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن اتفاقاً دودن قبل ہی میں نے اخبار میں چھوٹی سی خبر پڑھی تھی جس میں رانجی کا ذکر تھا۔ میں نے ماسٹر کو بتایا کہ فاتح کون تھا۔ ماسٹر کے چہرے پر ہلکی سی مایوسی نظر آئی۔
” راجھستان فائنل میں ہار گئی” میں نے بتایا تو ماسٹر کے چہرے پر ایک فخر یہ مسکراہٹ جھلکنے لگی۔
” سلیم درانی راجھستان سے کھیلا ہے اس سال” ماسٹر نے بتایا۔
” کون سلیم درانی ؟” میں نے پوچھا۔
” میرا بیٹا” ماسٹر کے چہرے پر بشاشت تھی۔

یہ ماسٹر عزیز تھے۔ پاکستان کی کرکٹ ہمیشہ جن کی احسان مند رہے گی۔ محمد برادران کے علاوہ ان گنت کھلاڑیوں نے ماسٹر سے تربیت لی۔ ماسٹر عبدالعزیز درانی ،جب میں نے ان کا پورا نام گوگل پر پڑھا تو مجھے حیرت ہوئی۔ میں تو انہیں حنیف اور مشتاق کی طرح کا جوناگڑھ اور ‘کچھ ‘ ک طرف کا کچھی یا میمن سمجھتا تھا۔ یہ تو افغانی نکلے اور وہ بھی درانی۔

ماسٹر نے کرکٹ کے شوق میں ہندوستان آکر ” نواں نگر” میں سکونت اختیار کی، قیام پاکستان سے پہلے نواں نگر کی ٹیم کے ساتھ کراچی کا دورہ کیا اور کراچی کے خلاف میچ کھیلا۔ قیام پاکستان کے بعد مستقلا کراچی ہی آگئے لیکن ان کا خاندان نواں نگر میں ہی رہا،
ان کے بیٹے سلیم بہترین آل راؤنڈر تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں ہندوستان کا دورہ کرنے والی انگلستان کی ٹیم کے خلاف کامیابی میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ ان کا مشہور میچ سن اکہتر میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہے۔۔
ہندوستان میں کوئی بھی شخص ذرا نک سک سے درست ہو تو اسے فلموں میں کھینچ لیا جاتا ہے۔ سلیم درانی تو بہت خوبرو اور وجیہ تھے۔ اپنے وقتوں کی مشہور اور خوبصورت اداکارہ ‘ پروین بابی’ کے ساتھ ایک فلم میں انہیں بھی ہیرو لیا گیا۔
سلیم درانی کے فلم کیریر اور کرکٹ کا کیا ہوا مجھے اس بارے میں قطعاً  علم نہیں ۔ گوگل پر ڈھونڈوں تو ساری معلومات مل جائیں، لیکن سلیم درانی میرا موضوع ہی نہیں ہیں۔ یہ تو ماسٹر عزیز کی تصویر ڈھونڈنے گیا تو سلیم درانی کی تصویریں مل گئیں۔ سلیم کے بڑھاپے کی تصویر ماسٹر سے خاصی مشابہ ہے لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے ماسٹر کا رنگ اتنا صاف نہیں تھا۔

لیکن ماسٹر کا کردار ہماری کرکٹ کے لئے بہت صاف تھا۔ جس خلوص، محبت اور محنت سے انہوں نے ہماری کرکٹ کی آبیاری کی اس کا ادراک شاید بہت ہی کم لوگوں کو ہے۔ مجھے نہیں علم کہ انہیں کوئی قومی اعزاز دیا گیا یا نہیں۔ اور جس کی تصویر کہیں موجود نہیں بھلا اسے قومی اعزاز کہاں سے مل سکتا ہے۔ُ
مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ ماسٹر نے کیسی زندگی گزاری۔ ان کے مالی حالات کیسے تھے۔ ان کی وضع قطع سے تو وہ کچھ اچھے حالوں میں نظر نہیں آتے تھے۔ اوراچھے حال میں ہوتے بھی کیسے۔ وہ مملکت خداداد پاکستان کے ایک اسکول کے معمولی سے کرکٹ کوچ ہی تو تھے۔

اور اس وقت نے تو بڑے بڑوں کی قدر نہیں کی۔وقت نے قدر شاید انکی  کی جنہوں نے وقت کی قدر کی۔ بس یہی ہے نظام دنیا کا۔ دنیا ایسے ہی چلتی آئی ہے۔ البتہ دن اور رات کے بدلنے میں نشانیاں ہیں سمجھنے والوں کے لئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

فاعتبرو یا اولی الا بصار

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply