• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • محسن داوڑ گروپ بمقابلہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا مستقبل(قسط 2)۔۔۔عارف خٹک

محسن داوڑ گروپ بمقابلہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا مستقبل(قسط 2)۔۔۔عارف خٹک

خڑ کمر، پارلیمانی نشے کا نتیجہ یا ایک سازش

میرے پہلے کالم کی  پہلی  قسط محسن داوڑ کے کارناموں اور تحریک کو نقصان پہنچانے پر مشتمل تھی مگر سنید داوڑ نامی لڑکے نے میرا پہلا کالم پڑھنے کے بعد سانحہ خڑ کمر کے بارے میں سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ سو میں اپنی دوسری قسط کو ابھی فی الحال کچھ وقت کیلئے پوسٹ نہیں کررہا۔ تآنکہ میں سنید داوڑ کے اٹھائے گئے سوالات کے تسلی بخش جوابات نہ دیدوں۔جب آپ حقائق کے متلاشی ہوتے ہیں تو قاری کا حق بنتا ہے، کہ آپ اُن کو دستیاب حقائق سے آگاہ کریں۔ آئیں سانحہ خڑ کمر کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔

جیسا کہ میرے پچھلے کالم میں بیان ہوچکا کہ میرا بچپن میرعلی، میرانشاہ اور رزمک میں گزرا ہے۔ میں نے قبائلی سسٹم کی محبت کے ساتھ ساتھ، وہاں آباد مختلف قبائلی اقوام کی آپس کی چپقلش،قبائلی تعصب اور کینہ بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وزیرستان میں محسود قبیلہ وزیر قبیلے کو پسند نہیں کرتا، وزیر قبیلہ محسود اور داوڑ قبیلے کو پسند نہیں کرتا  اور داوڑ قبیلہ وزیر قبیلے کو ناپسند کرتا  ہے۔ ایسی درجنوں قبائلی لڑائیوں کا میں خود بھی شاہد رہا ہوں۔ یہی صورتحال دیگر پشتون اقوام کی بھی ہے۔

بہرحال، الیکشن میں پی محسن داوڑکی جیت وزیر قبائل سے ہضم نہ ہوسکی اور “وزیر قومی جرگہ” نام سے ڈاکٹر گل عالم کی سربراہی میں وزیر ملکان، مشران، افسران اور سیاسی لوگوں کا ایک اتحاد بنا جس کا مقصد صوبائی الیکشن میں شمالی وزیرستان کے دونوں حلقوں یعنی PK-111 اور PK-112 سے وزیر نمائندگان کو جتوانا مقصود تھا، جس میں حلقہ PK-112 گل عالم نے اپنے لئے مختص کیا ہوا تھا۔

مسئلہ یہ تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ نے بکا خیل کیمپ کو خالی کرانے کیلئے ایک زبردست پریشر ڈویلپ کیا تھا، کیمپ میں دتہ خیل تحصیل کے لوگ  زیادہ تھے، ظاہری بات تھی فوج نے دتہ خیل اور آس پاس  کا علاقہ کلئیر کرنا تھا اور لوگوں کو واپس ان علاقوں میں بھیجنا تھا۔ مذکورہ علاقوں میں فوج کا ٹارگٹڈ آپریشن جاری تھا اور سانحہ خڑ کمر واقعہ سے قبل تک اس آپریشن میں 9فوجی جوان شہید ہوچکے تھے۔ علاقہ خڑ کمر میں فوجیوں نے طالبان سہولت کار کو گرفتار کرنے کیلئے ایک گھر پر ریڈ کیا، بقول مقامی لوگ چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ جبکہ پولیٹیکل محرر غلام خان غنی وزیر جو خود موقع پر موجود تھےکا کہنا تھا کہ “نہ چاردیواری کا تقدس پامال ہوا ہے نہ ہی کسی خاتون کا ہاتھ توڑا گیا”۔ بہرحال علاقے کے لوگوں نے کوئی 30 رکنی چھوٹا سا دھرنا دیا، جس میں اکثریت 19 سال سے کم عمر   لڑکوں کی تھی (جو ویڈیوز میں دیکھے جاسکتے ہیں)۔ دھرنے کے شرکاء کو اعتراض اس بات پر تھا کہ فوج نے چادر اور چاردیواری کا تقدس کیوں پامال کیا ،نا کہ سہولت کار کی  گرفتاری پر ان کو کوئی اعتراض تھا۔

اس افراتفری کے ماحول میں موجودہ حالات کو کیش کرنے کیلئے ڈاکٹر عالم وزیر آگے بڑھے اور علی وزیر کو فون کیا کہ آپ جلدی یہاں پہنچیں۔ علی وزیر کی چونکہ اس پورے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ علی وزیر، گل عالم کے ساتھ جانا نہیں چاہتے تھے جبکہ محسن داوڑ کی دلچسپی تھی کہ وہ موقع پر جاکر ان حالات کو کیش کرسکے، مگر گل عالم محسن داوڑ کو لے کر جانا نہیں چاہتے تھے۔ گل عالم نے علی کو مجبور کیا تو علی وزیر نے محسن داوڑ کو کہا کہ چلتے ہیں۔ محسن داوڑ نے جمال داوڑ اور میرکلام وزیر کو فون کیا کہ آپ لوگ خڑکمر پہنچیں۔ یہاں مسئلہ یہ تھا کہ گل عالم، علی وزیر کے کندھوں پر خڑکمر دھرنے میں اپنا سیاسی تعارف کروا کر صوبائی اسمبلی کیلئے راہ ہموار کرنا چاہ رہے تھے، تو دوسری طرف محسن داوڑ میرکلام کی سیاسی انٹری اور مکمل لانچنگ کا فیصلہ کرچکے تھے۔ یہاں بھی خدمت کی بجائے پارلیمنٹ، ووٹ اور طاقت کی لالچ ہی مدنظر تھی۔

واضح رہے کہ سینیٹر عثمان کاکڑ نے ضم شدہ اضلاع میں سیاسی انٹری مارنے کیلئے PKMAP (پشتونخوا ملی عوامی پارٹی) کی طرف سے اپنے صوبائی امیدواروں کو 20، 20 لاکھ روپے نقد دیے تھے، جن میں میرکلام بھی شامل تھے، میرکلام کو ٹکٹ بھی دیا گیا تھا مگر PTM کی مشہوری کے سبب اس کو پی ٹی ایم کا برانڈ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی  اور PKMAP کا ٹکٹ واپس لے لیا گیا تھا ،پر  رقم واپس نہ لی گئی۔

بہرحال، علی وزیر اور محسن داوڑ دونوں خڑکمر پہنچے، باوجود اسکے کہ انہیں معلوم تھا کہ یہاں کرفیو نافذ ہے۔ یہ دونوں سیاسی نمائندے تھے۔ دونوں کو اپنی حدود اور اختیارات کا بخوبی علم تھا، مگر سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ دونوں طاقت یا جہالت میں اتنے اندھے کیوں ہوگئے تھے کہ نہ تو کور کمانڈر پشاور کے خصوصی نوٹس کو خاطر میں لائے، نہ جی او سی میرانشاہ کی درخواست کو درخور اعتنا سمجھا، حتیٰ  کہ ڈی سی کو بھی ان دونوں نے اپنی اس حرکت سے مکمل طور پر لاعلم رکھا۔ حالانکہ یہ دونوں کی جہالت یا لاپرواہی بالکل نہیں تھی بلکہ یہ کھیل مکمل پلانٹڈ تھا۔ علی وزیر تو اپنی روایتی جذباتی پن سے مار کھا گیا ،مگر محسن داوڑ نے وہ حاصل کیا جس کا انہوں نے فیصلہ کیا تھا۔ لہذا کرفیو کو زبردستی توڑنے پر بضد رہے۔ ویڈیوز میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کیساتھ موجود لڑکوں نے فوجی چیک پوسٹ پر توڑ پھوڑ کی، گالیاں دیں اور جب گالیوں کے جواب میں گولیاں چلیں تو کُل 83 بندے زخمی ہوئے ،جن میں 64 کے علاوہ باقی شہید ہوچکے تھے۔ ان سب زخمیوں اور شہید ہونیوالوں میں سے پشتون تحفظ موومنٹ کا ایک بندہ بھی  شہید ہوا، اور  نہ زخمی، سارے کے سارے مقامی سادہ لوح اور جذباتی لڑکوں کا نقصان ہوا۔

سانحہ خڑ کمر کی انکوائری ایک میجر جنرل کی سربراہی میں ہوئی۔ اس سانحے میں ملوث فوجیوں کا کورٹ مارشل ہوا، ان کو سزائیں ہوئیں، کسی کی نوکری گئی تو کسی کی جان گئی اور بدلے میں پشتون تحفظ موومنٹ، محسن داوڑ اور علی وزیر کو واہ واہ اور شاباشیاں ملیں۔اور انہوں نے اس واقعہ کو بھرپور طریقے سے کیش کیا۔

محسن داوڑ کو اپنا وہ تاریخی اور ریکارڈڈ جھوٹ ضرور یاد ہوگا جب اس نے دوران روپوشی ایک غیر ملکی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ “میں بھی زخمی ہوا ہوں”۔ کچھ دن خودساختہ روپوشی کے بعد بالآخر اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور خود کو بغیر کسی “زخم” کے فوج کے حوالے کردیا۔

محسن داوڑ اور علی وزیر کا گروپ منظور پشتین پر مسلسل پریشر ڈالتا رہا کہ وہ میرانشاہ دھرنے میں پہنچے تاکہ یہ دونوں بچ سکیں ،مگر منظور پشتین دھرنا نہیں دے رہا تھا۔ منظور پشتین نے دونوں کو منع کردیا۔ منظور کا موقف تھا کہ “آپ دونوں کس کی اجازت اور کس کے مشورے سے خڑ کمر گئے؟”۔ محسن گرفتار ہوا تو چیف آف داوڑ ملک جان محمد کی کوشش تھی کہ معاملات اس کے ذریعے حل ہوں ،بہرحال ملک میرقادر، ملک حبیب اللہ عرف بے بے، ملک جان فراز، ملک خان مرجان وغیرہ نے محسن داوڑ کی ذمہ داری اٹھائی۔ جیل میں ان دونوں نے کیا گل کھلائے، ان کی آڈیوز (ریکارڈڈ) میں کیا منتیں ترلے ہیں، کیا کچھ انہوں نے لکھ کر دیا اور یہ کیا ٹاسک لے کر نکلے، اگر بیان کردوں تو میری بھی خیر نہیں۔۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ محسن داوڑ کی بے باکی اور نڈرپن کے پیچھے ایجنسیوں کا ایک مخصوص ٹولہ موجود ہے ورنہ جو جرم محسن داوڑ اور علی وزیر کرچکے ہیں وہ قطعا ً فوجی قوانین کے تحت ناقابل معافی جرم ہے۔ اس بات میں وزن اس لئے بھی ہے کہ دونوں کو فوری طور پر فوج کی حراست سے نکال کر مقامی عدلیہ کے حوالے کردیا گیا۔ تجزیہ نگار اس بات پر ابھی تک حیران ہیں کہ فوج کن مصلحتوں کے تحت ان دونوں کو ڈھیل دیتی رہی ہےاور کیوں ملکان ضمانت اور عدالت ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

مذکورہ دونوں مشران نے فقط تحریک کو “پارلیمانی” کرنے کی ذاتی خواہش میں بیگناہ لوگوں کو بھی مروایا، فوجی بھی نوکریوں سے گئے، اور آج بھی پشتون تحفظ موومنٹ کو “پارلیمانی حیثیت” میں لانے کا بھاری ٹاسک اپنے کندھوں پر لیے پھر رہے ہیں۔ مشترکہ مفادات کے قانون کے تحت عوامی نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک اور بشریٰ  گوہر کا بھی اس کھیل میں بھرپور ہاتھ ہے ،تاکہ مستقبل میں وہ لوگ تحریک کی سربراہی کرسکیں ۔

مزے کی بات یہ کہ آج تک نہ تو گُل عالم گرفتار ہوا، نہ جمال داوڑ و میرکلام نے محسن و علی کے حق میں دھرنے اور ریلیاں نکالیں۔ الٹا منظور پشتین کو گالیاں تک دی گئیں۔اور بقول منظور کے قریبی ساتھیوں کے کہ آج بھی منظور پشتین ان کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔

ہم اگلے مضامین میں اس گروپ کے  طریقہ واردات پر بات کریں گے۔ اور بتائیں گے کہ محسن داوڑ نے اپنا پریشر گروپ کیسے اور کن کی مدد سے بنایا۔ درپردہ کون کون ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ گلالئی  اسماعیل کیسے باہر گئی ، بین الاقومی میڈیا پر ان کے  سپانسر کون کون ہیں اور لروبر کے پرکشش نعرے کا دھوکہ دیکر کیسے مخلص اور سادہ دل پشتونوں کو اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply