دہشتگردی، وردی ، جاگ میرے پنجاب۔۔۔منصور ندیم

جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا
ٹوٹ چلے سب خواب کہ پاکستان چلا
سندھ بلوچستان تو کب سے روتے ہیں
اور اہل پنجاب ابھی تک سوتے ہیں
آنکھیں ہیں پُر آب کہ پاکستان چلا
جاگ میرے پنجاب کہ پاکستاں چلا
جن کو ذات کا غم ہے کب وہ مانے ہیں
بے بس لوگوں پر بندوقیں تانے ہیں
قاتل ہیں اسباب کہ پاکستان چلا
جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا
آگ کی بارش سے ہے گلشن دھواں دھواں
روش روش اب کلیوں کی مہکار کہاں
زعم ہے یہ بلوانوں کو ہم جیتں گئے
اور کہوں میں دکھ کے یہ دن بیتں گئے
انہی چلن سے ہم سے جدا بنگال ہوا
پوچھ نہ اس دکھ سے جو دل کا حال ہوا
روکو یہ سیلاب کہ پاکستان چلا۔۔

یہ نظم حبیب جالب نے ۱۹۷۰ کے انتخابات کے بعد اس وقت لکھی تھی جب  ایک ڈکٹیٹر جنرل یحیی خان نے اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل نہیں کیا تھا بلکہ ان کے جواب میں مشرقی پاکستان میں گولیاں چلوائی تھیں۔ اس وقت حبیب جالب بھی ان چند لوگوں میں سے جو لاہور میں مال روڈ پر  احتجاج کے لئے اکٹھے ہوئے تھے، اس وقت انہوں نے پنجاب کے لوگوں سے یہی کہا تھا کہ لوگوں آج خاموش رہنا بزدلی ہے۔آج پھر کچھ لوگ لاہور میں جمع ہورہے ہیں اپنی قانونی اور آئینی حق کے لئے،گذشتہ روز  پختون تحفظ موومنٹ کے کچھ رہنماؤں  کو لاہور کے   ایک  ہوٹل سے انسداد دہشتگردی کی عدالت نے حراست میں لیا تھا، ابھی تک میں منظور پشین اور پختون تحفظ موومنٹ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھا، مجھے ابھی بھی خاصے تحفظات ہیں لیکن ریاستی عسکری ادارے اور مسلم لیگ نواز کی حکومت نے  پاکستان کے  عوام کو شاید یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ ریاست کسی کو یہ حق نہیں دینا چاہتی کہ وہ پرامن اور دستوری طریقے سے اپنے حقوق ، آزادی رائے اور مطالبات کو پاکستانی ریاست سے جائز مطالبہ کرے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی ملک میں ایسے عناصر جیسے مولوی خادم رضوی ناجائز ، غیر دستوری اور غیر قانونی مطالبات کے لئے پاکستان کی سڑکیں حتی کہ اس ملک کا درالخلافہ تک یرغمال بنادیتے ہیں لیکن یہی ریاستی عسکری ادارے ان کو نہ صرف سہولتیں فراہم کرتے ہیں   بلکہ   حکومتی پارٹی مسلم لیگ  نواز بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی رہی۔پاکستان میں فقط نام نہاد دفاع پاکستان اور دفاع اسلام سے نکلنے والے جلوس ، ریلیاں اور احتجاج کرنے والوں کو ہمیشہ یہ حق رہا کہ وہ اپنے احتجاج میں تھوڑا پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کریں، ملکی املاک کو نقصان پہنچائیں اور پوری دنیا میں پاکستان اور اسلام کا تمسخر بنائیں ، لیکن ہماری حکومتوں اور عسکری اداروں نے ہمیشہ انتہائی بے شرمی اور بے غیرتی سے ان کو ہر ممکن سہولت مہیا کی ۔حیرت کی بات ہے ، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو  کرپشن اور غیر دستوری امور پر  ہمیشہ سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے،  لیکن خصوصاً  نواز شریف کی حالیہ عدالتی معطلی پر عوام نے ان کا ساتھ دیا،مجموعی  طور پر  یہ ایک انتہائی شرمناک معاملہ رہا کہ مسلم لیگ نواز جو کبھی نظریاتی بننے اور ووٹ کو عزت دینے کا دعوی کرتے رہے، پنجاب حکومت نے ہی لاہور میں جمع ہونے والے پختونوں کو آئینی اور قانونی طور پر احتجاج کرنے روکنے کے لئے غیر قانونی اور طاقت کا استعمال کیا ہے۔ جس  گراؤنڈ  میں جلسہ ہونا تھا وہاں پانی چھوڑ کر تالاب بنا دیا ہے۔محترمہ عصمت  شاہ جہاں اور علی  وزیر اور دیگر ساتھیوں کو جس طرح گرفتار کیا، تشدد کیا گیا، عصمت جہاں کو دھکے دیئے گئے ، دھمکیاں دی گئی تمام ریاستی اداروں کے افراد نے ان کو خوب لعن طعن کی اور وہی بالآخر مجبوراً   چھوڑ دیا۔پنجاب کی یونیورسٹیوں سے پختون طلباء کو بھی غائب کیا گیا ہے۔

حیرت کی بات ہے ۷۰ سالوں اس ریاست  سے کھیلنے والے یہ عسکری اشرافیہ  آج بھی وہی بے شرمی اور بے غیرتی کی انہی راہوں پر چل رہے ہیں، بنگالیوں کے ساتھ جو ہم نے کیا وہ بھی قابل شرم تھا، بلوچوں کے ساتھ جو کیا ، اردو بولنے والوں کو جیسے تقسیم در تقسیم سیاسی طور پر ریاستی سرپرستی میں کیا جارہا ہے اور آج ان پختونوں کے ساتھ بھی وہی کیا جارہا ہے اس ملک میں جب بھی کسی نے آئینی اور قانونی طور پر اپنے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھائی ، ان کو ایسے ہی پریشان کیا جاتا ہے، لیکن جو لوگ اس ملک میں افراتفری ، اور مذہبی فرقہ پرستی کرکے  اس ملک کی جڑیں کھوکھلے کرتے ہیں یہ اس عسکری اشرافیہ  کی چھتری تلے آجاتا ہے۔

یہی پختون موومنٹ دس دن تک پشاور میں دھرنا دیئے بیٹھے رہے، کیا کچھ فساد ہوا، لیکن ان کے مطالبات نہیں سنے گئے بلکہ ان کو خریدنے یا دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے ورنہ ان کو غدار قرار دے دیا جائے گا۔عسکری اشرافیہ کی بیوقوفی دیکھیے، یہ فقط ان سیاسی پیدا غیر پارٹیوں کو جنہوں نے ان کی گود میں آنکھیں کھولی ہیں صرف ان کو قابو کرکے سمجھتے ہیں کہ شائد ۲۰ کروڑ عوام کے کوئی حقوق نہیں ہیں اور وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں، اگر روئیے نہیں بدلے تو یہ ریاست قائم نہیں رہے گی لوگوں کی ریاست سے محبت کو  واہگہ بارڈر  پر اونچی  ٹانگیں اٹھانے سے مشروط نہ کیا جائے۔ کیا انٹر نیٹ بند کرنے سے اور میڈیا کو پختون موومنٹ کی کوریج کو روک دینے سے یہ تحریک ختم ہوجائے گی۔ہر گز نہیں۔۔

پختونوں کو دہشتگرد کہنے والے شائد بھول رہے ہیں کہ ۱۹۵۶ سے کارگل تک ہر جنگ میں انہی چوکیداروان کی پتلونیں گیلی ہوتی تھیں تو یہی قبائلی  پختون  پاکستان کا دفاع کرنے نکلتے تھے، کشمیر کے لئے بھی انہی پختونوں کو استعمال کیا گیا، افغانستان سے ڈالر لے کر انہی پشتونوں کو جہاد پر بھیجا گیا، انہی پختونوں کو ریاست سے گوانتانامو بے میں پیسے لے کر بیچا، آج ان کو ایک لڑنے والی قوم کے طور پر دکھایا جارہا ہے، آج پنجابیوں کا امتحان ہے ، اپنے پختون بھائیوں کے جائز مطالبات کے لئے انہیں اپنے شہر میں جگہہ دیجئے ان کو عزت دیں ان کو بتا دیں کہ ہم پنجابی بھی ان کا درد اتنا ہی محسوس کرتے ہیں، ہمیں جنگیں نہیں چاہیے ، ہمیں ایٹم بم اور اسلحے کے ڈھیر نہیں چاہیے، بلکہ ہمیں تعلیم چاہیے ، ہمیں عزت اور اپنے بچوں کی صحت چاہیے  ۔ان پختونوں کو احتجاج کا حق دیں، ان کی تحریک کے جائز مطالبات سنے جائیں۔ اگر ان کو روکا جائے گا، میڈیا کوریج روکی جائی گی، ان کو غداری کے سرٹیفیکیٹ  دییے جائیں،ان کو دھمکیاں دی جائیں گی ، ان کے بنیادی حقوق  سلب کئے جائیں گے تو ریاستی اداروں پر نعرے لگیں گے ، اسلام آباد کے جلسے تک کوئی پاکستان مخالف نعرہ نہیں لگا تھا۔ ان کے ناجائز طور پر  تنگ مت کیجئے ورنہ عسکری ادارے اس ملک کو مزید تباہی کی طرف لے جانے کے ذمہ دار ہوں  گے۔

مجھے ہمیشہ یہ تکلیف رہی کہ  جب بنگال پر ہماری فوج ظلم ڈھا رہی تھی اس وقت پنجاب خاموش تھا، لیکن آج ایسا لگ رہا ہے کہ پنجاب جاگ گیا ہے ۔ وہ جان گیا ہے کہ یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔وردی والوں کو جان لینا چاہیے جس کام کے لئے ان کو قوم نے تنخواہ پر چوکیدار رکھا ہے وہی کام کریں اور ان جمہوریت کے  نام نہادچمونوں کو بھی بتا دیں کہ یہ جمہوریت “ج” والی جمہوریت ہے ، ہمیں تمہاری “چ” والی جمہوریت قبول نہیں ہے۔۔۔

احمد فراز نے ۱۹۸۰ سنہ ء میں  ان وردی والوں کے لئے یہ نظم لکھی تھی جو شائد آج کے لئے ہی لکھی گئی تھی ۔۔

میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے
میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے
اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
پا بہ زنجیر یاروں سے نادم ہوں میں
اپنے گیتوں کی عظمت سے شرمندہ ہوں
سرحدوں نے کبھی جب پکارا تمہیں
آنسووں سے تمہیں الوداعیں کہیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہار کر بھی نہ جی سے اتارا تمہیں
جس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست و کف در دہاں آئے تھے
طوق در گردنوں پا بہ جولاں گئے
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خوں منہ کو ملنے کو تم آئے تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
انکی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
انکی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
جیسے برطانوی راج میں ڈوگرے
جیسے سفاک گورے تھے ویتنام میں
تم بھی ان سے ذرا مختلف تو نہیں
حق پرستوں پہ الزام انکے بھی تھے
وحشیوں سے چلن عام انکے بھی تھے
رائفلیں وردیاں نام انکے بھی تھے
آج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کے ایما پر ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کے آگے ہو تم سرنگوں غازیو
آج شاعر پہ ہی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں۔
آج تم آئینہ ہو میرے سامنے
پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: اس جلسے کا مقام موچی گیٹ ہے، اس لئے شاید موچیوں کو  خاصی تکلیف ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply