دیواروں کا نوحہ ۔۔۔علی اختر

اس دنیا میں پیغام رسانی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ کسی زمانے میں یہ کام قاصدوں سے لیا جاتا تھا۔ مخاطب کو پیغام پسند آ یا تو قاصد انعام و اکرام کے ساتھ نہیں تو بغیر جواب اور سر کے واپس کر دیا جاتا تھا ۔ پھر کبوتر مارکیٹ میں آ ئے جو بعض علاقوں میں خوشی خوشی تو بعد جگہوں پر ایک پر سے اڑ کر پیغام پہنچا دیا کرتے تھے۔

پیغام کی ایک قسم وہ بھی ہے جو ہر خاص و عام تک بغیر کوئی  فرق رکھے پہنچایا جاتا ہے۔ جیسے پہلے زمانے میں ایک آ دمی کان پھاڑ ڈھول بجا کر اعلان کرتا تھا۔ “ہر خاص و عام کو مطلع کیا جاتا ہے……” یا پھر لاؤ ڈاسپیکر کی ایجاد کے بعد “حضرات ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیں ۔ فلاں صاحب کی بیگم کل سے لاپتہ ہیں ۔ اگر کسی کو ملیں تو کچھ اور دور چھوڑ آ ئے”  وغیرہ وغیرہ۔

اس قسم کے پیغامات لوگوں تک پہنچانے کے لیے  اعلانات کے بعد اخبارات و پمفلٹ اور پھر ویب سائٹس اور ٹوئٹ کا دور شروع ہوا لیکن ہمارے شہر کراچی میں اس مقصد کے لیے  دیواروں کا سہارا لیا گیا جو کہ  کافی موثر ثابت ہوا۔

اس دیواروں والےطریقے کے  ذریعے جہاں ایک طرف معاشرے  کے مسائل حل ہونا شروع ہوئے۔ وہاں دوسری طرف اسے ناقابل تلافی فوائد بھی حاصل ہوئے۔ مثلاً اگر آ پ موہنجو دڑو اور ہڑپہ کی تباہی کی وجوہات کا مطالعہ کریں تو آ پ کو پتاچلے  گا کے وہاں” مردانہ کمزوری” اور” بانجھ پن ” وبائی  مرض کی صورت حال اختیار کر گیا تھا اور آ خر وہی ان کے دنیا سے ختم ہونے کا باعث بھی بنا۔ حتی کہ  مایہ تہذیب کی لیبارٹری کے کھنڈرات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ  وہاں ہونے والی آ خری ریسرچ بھی اسی موذی وبائی  مرض کے علاج سے متعلق تھی۔ قریب تھا کہ مردانہ کمزوری اور بانجھ پن ہمارے شہر کو بھی موہنجو دڑو بنا دیتا کہ  دو بھائی  میدان میں آ ئے اور شہر کی دیواروں کو “مردانہ کمزوری سے نجات” کے اشتہاروں سے بھر دیا۔ تاریخ کراچی میں ان بھائیوں کو “بڑے حکیم صاحب” اور “چھوٹے حکیم صاحب” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اس موذی مرض سے چھٹکارے کے ساتھ ساتھ بچوں کی  کم سے کم تعداد بارہ تک پہنچا کر کراچی کی معاشی ترقی میں اہم کردار بھی ادا کیا۔ اس روایت کے شروع ہوتے ہی بہت سے مزید نیک دل لوگ میدان میں آ ئے اور دیواریں ، “جریان موت ہے” “نسوانی حسن میں اضافہ” ” یہ دوا کھانے کی ہے لگانے کی نہیں” جیسے مفید اورفائد مند جملوں سے بھر گئیں ، آ ج ماشاللہ ہر طرح کے پوشیدہ اور پوشیدہ ترین امراض کا علاج کراچی کی سڑکوں پر کھلم کھلا دستیاب ہے۔

یہاں دو اور وجوہات کی طرف آ پ کی توجہ دلانا چاہوں گا۔ ان مسائل کی وجہ سے کراچی کی آ بادی معدومی کی سطح کو چھونا شروع ہوگئی تھی۔ پہلا مسئلہ آ ج کا نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی معلوم تاریخ سے چلا آ رہا ہے اور وہ ہے ” محبوب کی سنگدلی”۔ اس سنگدلی ہی کی وجہ سے ہفتہ وار بنیادوں پر سینکڑوں افراد نیٹی جیٹی کا رخ کرتے تھے اور جو غریب کرایہ نہ ہونے یا چھت پر سفر کرنے کی ہمت نہ ہونے کی وجہ سے W-11 افورڈ نہیں کر سکتے تھے نائلون کی رسی اور پنکھے کا آسان استعمال کر کے محبت کے جذبات کو آخری تسکین دیا کرتے تھے۔

دوسرا مسئلہ جس کا شکار اکثر خوبصورت خواتین اور ہینڈسم مرد حضرات ہوتے تھے وہ رشتوں کی بندش کا تھا۔ جہاں ہینڈسم آ دمی دیکھا نہیں فوراً  شادی کا پیغام بھیجا جاتا تھا اور نہ ہونے کی صورت میں ” ہم نہیں کھیلیں گے تو کسی کو بھی نہیں کھیلنے دینگے ” کے  مصداق رشتوں میں بندش کرادی جاتی تھی کہ  بچے اب شادی کر کے دکھا۔ راقم خود بھی درج بالا صفت (ہینڈسم ہونا) کی بدولت عرصہ دراز  سے  اس مسئلہ کا شکار ہے اور ایک عامل سے شافی علاج کرا رہا ہے۔

ان دو مسئلوں کو حل کرنے لئے کچھ خدا ترس  سامنے آ ئے اور شہر کی دیواروں کو “عامل جنید بنگالی”٬” عامل گوہر کالیہ”٬ “بی بی اماں بنگالن”, ” عامل پوپٹ رام” کے اشتہاروں سے کالا کر دیا۔ آج خدا کے فضل اور ان خدا ترسوں کی کاوشوں سے محبوب کی سنگدلی کی وجہ سے ہونے والی خودکشیوں کی شرح 0.5 فی صد رہ گئی  ہے۔

اب تک کے بیان کے مطابق وال چاکنگ کو ایک مفید عمل بتایا گیا ہے لیکن راقم ایسے ہی اسکے مفید ہونے کا قائل نہیں ہوا بلکہ پوری تحقیق کے بعد یہ بات لکھ رہا ہے۔ شروع شروع میں ایسے کچھ اشکالات تھے جو بتدریج ختم ہوتے گئے۔ پہلا اعتراض  دل نازک میں اس وقت پیدا ہوتا جب راقم کسی دیوار پر کسی فرقہ کے نام کے ساتھ کافر لکھا ہوا دیکھتا ۔ بظاہر اسکا کوئی  خاص فائدہ سمجھ سے بالا تر تھا ۔

وہ تو بھلا ہو ایک مولوی صاحب کا جنہوں نے بتایا کہ  ایک خاص وقت اور تعداد میں اگر کسی کے نام کے ساتھ کراچی کی دیواروں پر کافر لکھا جائے تو ایک وقت ایسا بھی آ تا ہے جب اس فرقہ کے ماننے والے سو کر اٹھتے ہیں تو ان کا ایمان سلب ہو چکا ہوتا ہےاور ان کا خاتمہ کفر پر ہوتا ہے۔ بس اسی  واسطے  یہ ساری محنت ہے۔ یہ سن کر راقم کی آنکھیں مولوی صاحب کی عقیدت میں بھر آئیں اور وہ کراچی کی دیواروں کی کرامت کا بھی معترف ہو گیا۔

اسے یہ بھی سمجھ آ نے لگا کہ  کس طرح” امریکہ واسرائیل مردہ باد” کے نعرے لکھنے سے امریکہ کے جنگلات میں پراسرار آ گ بھڑک اٹھتی ہے، کیسے اسرائیل میں ہیٹ اسٹروک سے اموات شروع ہوتی ہیں ۔ اسے ہندوستان میں ایڈز کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیچھے “ہندوستان مردہ باد” کی وال چاکنگ نظر آنا شروع ہو گئی،
کشمیر و فلسطین کی آزادی کی تحریکوں میں “کشمیر کو آزاد ی دو” اور” فلسطینیوں قدم بڑھاؤ ” کے نعرے کارفرما نظر آ ئے۔ اور تو اور “فیاض کا اگم حلوہ دادو کی سوغات” کراچی میں لکھا جاتا ہے اور سیل دادو میں بڑھتی ہے۔ راقم حیران تھا کہ  اب تک یہ سب اسکے مشاہدہ سے اوجھل کیسے رہا۔

سو اب راقم نے سنجیدہ بنیادوں پر کراچی کی وال چاکنگ پر ریسرچ شروع کی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ  معاملہ اتنا سیدھا نہیں جتنا وہ سمجھتا تھا۔ بعض نعرے اور ہدایات ایسی بھی تھیں جنہیں دیواروں پر لکھنے کے نتائج برعکس بھی آرہے تھے مثلاً کراچی کی طلسماتی دیواروں پر اگر کوئی  ہدایت لکھی جاتی ہے جیسے ” یہاں کچرا پھینکنا منع ہے” یا “فالتو بیٹھ کر وقت ضائع نہ کریں” تو یہاں کے لوگوں پر فرض عین ہو جاتا ہے کہ  اس ہدایت کے الٹ کر کے دکھائیں ۔ مثلاً پبلک ٹوائلٹ لوگ اکثر استعمال کرتے ہیں لیکن اگر آ پ اسکے دروازے پر “ٹوائلٹ استعمال کے بعد پانی ڈال دیں” لکھا دیکھیں تو راقم گارنٹی لیتا ہے کہ  دروازہ کھولتے ہی آ پ کی ناک کے بال مع بو محسوس کرنے والے حساس سینسرز سمیت بھک سے راکھ ہو جائیں گے  اور آ پ کم سے کم ایک سال اندر کے منظر کی  ہولناکی اور درندگی دیکھ کر سکتہ کی کیفیت میں گزاریں گے تو خدارا ایسا رسک کبھی نہ لیں۔

اس کے علاوہ اگر کسی کے نام کے ساتھ لفظ” جیے”کراچی کی دیواروں پر لکھا دیکھیں تو فوراً اسکے کفن دفن کا بندو بست کرلیں۔ اس موذی لفظ کی شروعات ” جیے  بھٹو” کے نعرے سے ہوئی  اور دیکھتے ہی دیکھتے بھٹو کی نسل دنیا سے ناپید ہو گئی۔ “جیے  مہاجر” کے نعرے نے یکے بعد دیگرے کراچی آ پریشن کی راہ ہموار کی تو “جیے  الطاف” کی تحریروں کے ذریعے الطاف بھائی کو راندہ  ء درگاہ کیا گیا۔ اوہ میرے خدا یہ تو مکمل سبجیکٹ ہے اور پس پردہ کوئی  منظم مافیا۔ جو کبھی “جیے  بھٹو بے نظیر” کا نعرہ لکھ کر ملک کی بنیادیں ہلا دیتا ہے تو کبھی صرف جگہ جگہ “کچرا نہ پھینکیں” اور ” ماحول کو گندگی سے بچائیں” لکھ کر شہر میں جگہ جگہ گندگی پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ یہ سوچ سوچ کر راقم پریشان ہو گیا اور مشورہ کے لیے  اپنے واحد دانشور دوست” شاہی “کے گھر کی طرف مشورہ کی غرض سے دوڑ گیا۔(جو کہ  آ ج کل پاکستان کے خصوصی دورے پر سویڈن سے تشریف لائے ہوئے ہیں)

شاہی نے تمام معاملہ بغور سننے کے بعد اسے ناممکن اور ناقابل یقین اور بیکار تحقیق قرار دیا لیکن کافی بحث و مباحثہ کے بعد اس بات پر راضی ہوا کہ  پہلے خود تجربہ کیا جائے پھر کسی نتیجہ پر پہنچا جائے۔ سو ہم نے محض تجربہ کی نیت سے تجربہ گاہ کے عین سامنے دیوار پر جلی حروف میں ” یہاں پیشاب کرنا منع ہے ” تحریر کر دیا ۔

کچھ ہی دیر میں یہ خبر علاقے میں جنگل کی آ گ گی طرح پھیل گئی  اورلوگ جوق درجوق، گروہ در گروہ اس دیوار کے سائے میں رفع حاجت کی سعادت حاصل کرنا شروع ہو گئے۔
یہ سلسلہ تمام دن یونہی  چلتا رہا ۔ آخر اگلے دن جب تجرباتی سائٹ کا وزٹ کیا گیا تو لوگ اپنے نومولود بچوں کو اٹھائے شی شی  کی آوازیں نکالتے پائے گئے۔ راقم نے فخریہ انداز سے شاہی کی جانب دیکھا۔ تجربہ امید سے بڑھ  کر کامیاب رہا تھا۔

تجربہ کی کامیابی سے میں بہت خوش اور ایکسائٹڈ تھا ۔ شاہی سوچو ہم اس   تجربے  کے ذریعے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ہم اس دیوار پر لکھیں گے ” یہاں موبائل چھیننا منع ہے ” اور تمام موبائل چور یہیں سے گرفتار کرا دیں گے میں جوش میں بولے چلے جا رہا تھا لیکن شاہی کے چہرے پر گہرا سکوت طاری تھا ۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہم سب سے پہلے اس دیوار پر لکھیں گے ۔”یہاں پتنگ بازی و کبوتر بازی کے علاوہ ہر طرح کی بازی منع ہے” ۔ شاید وہ یہ لکھ کر بچپن میں ہونے والے کسی ظلم کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔

انور مسعود کہتے ہیں کہ بہترین مزاح وہ ہے جسے نچوڑو تو اندر سے آنسو نکل آئے۔ یہ تحریر ہمارے شہر کا نوحہ ہے جسے ان بیہودہ تحریروں کے ذریعے بدصورت بنا دیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دیواروں کا نوحہ ۔۔۔علی اختر

Leave a Reply