• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سینیٹ ہارس ٹریڈنگ کے تناظر میں صائب زاویہ فکر ۔۔۔ظفرالاسلام سیفی

سینیٹ ہارس ٹریڈنگ کے تناظر میں صائب زاویہ فکر ۔۔۔ظفرالاسلام سیفی

امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب کا کہنا ہے کہ خٹک صاحب نے چیئرمین سینیٹ کے لیے حمایت مانگتے ہوئے کہا کہ وہ کون ہوگا اس کا تعین ”اوپر “ والے کریں گے،قبل ازیں وزیر اعظم پاکستان جناب شاہد خاقان عباسی بھی ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگاتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو مشکوک کردار قرار دے چکے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے جس بدترین ہارس ٹریڈنگ کی تخم ریزی کی گئی وہ نہ صرف لائق مذمت ہے بلکہ قابل نفرین عمل بھی ہے،اس طرز انتخاب پر منتخب کردہ چیئرمین کو عوام کا نمائندہ کہا جاسکتا ہے نہ اس کے منصب کو قابل عزت قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا سیاسی رویہ غیر سنجیدہ ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے،وہ اولا ً وزیراعظم کے ہارس ٹریڈنگ سے متعلق بیان پرسیخ پاہوئے اوربیک جنبش لب الیکشن کمیشن کے دروازے پر اپنی درخواست کی ہمراہی میں دستک دیتے ہوئے مطالبہ کر ڈالاکہ وزیراعظم کو طلب کرکے ان سے مبینہ ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خرید وفروخت بابت ثبوت مانگے جائیں کہ ریاست کے چیف ایگزیکٹو کا الزام ایک اہم ریاستی ایوان کے تقدس کو پامال کرنے کی دانستہ کوشش ہے مگر محض چند دنوں بعدہی ایک دھواں دار پریس کانفرنس میں اسی تقدس کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہوئے اپنے ہی بیس ممبران اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ کا اصل ہدف اورووٹوں کی خرید وفروخت میں نہ صرف ملوث قرار دیا بلکہ شوکاز نوٹس جاری کرکے پارٹی سے نکالنے کا اعلان بھی کردیا۔۔ان کا کہنا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کی یہ بدترین روایت تیس سے چالیس سالہ تسلسل کا نتیجہ ہے،ووٹ بیچنے والوں کو نہ صرف پارٹی سے نکالا جائے گا بلکہ ان کا معاملہ نیب کے حوالے بھی کیا جائے گا۔

ہمارا المیہ ہے کہ یہاں جمہوریت پنپ سکی نہ خلافت کو قریب پھٹکنے دیا گیا،جہاں اور جدھر دیکھو کرپشن وہوس کی داستانیں ہی ہیں جو رقم کی جارہی اور سنائی جا رہی ہیں،ریاستی نظم کا پہیہ  کس سمت چل رہا ہے اس کا احساس وزیر اعظم تک کو نہیں،ملک چل رہا ہے یہی غنیمت ہے مگر کیسے؟یہ سوال اقتدار کے ایوانوں میں بھی عقدہ لا ینحل ہے،کوئی کچھ کر نہیں رہا بلکہ سب ہورہا ہے،بڑی جماعتوں کے سربراہ اور وزیراعظم تک کے لوگ جب انگلی اوپر کی سمت اٹھارہے ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ جو  نظر آ رہا ہے وہ سب سکرین کے پردہ پر ڈرامائی کردار وں کا مچایا جانیوالا ڈرامہ ہے جن کی حقیقت کے ساتھ شناسائی ہے نہ دلچسپی۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مملکت کا داخلی نظم ایسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ ہے تو لاریب کہ آپ فکری مغالطے کا شکار ہیں،بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا فکر وفلسفہ ریاست کو خالصۃ اسلامی جمہوری نظم پر کھڑا کرنا تھا،روزنامہ ورکرز لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے آپ کا کہنا تھا کہ ”پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک جمہوری ملک بنانا میراخواب ومشن ہے جس کا رنگ ونسل سے کوئی تعلق نہ ہو اور جہاں حکومت مکمل عوامی امنگوں کی تابع ہو“ ایک دفعہ دلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں ایک شخص نے آپ کو ”شاہ پاکستان“ کہہ کر پکارا تو آپ نے سخت ناگواری کااظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ”پاکستان میں کوئی بادشاہ نہ ہوگا،یہاں خالص جمہوری حکومت ہوگی جو مکمل عوام کی تابع اور انکی امنگوں کی ترجمان ہوگی“

ہمارا مگر مسئلہ ریاست کے لیے کسی نظم حکومت کو یکسوئی سے طے نہ کرنا ہے،سترسال گذرنے کے باوجود ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے ہماری فکری کسمپرسی کی علامت نہیں تو کیا ہیں؟ریاستی اداروں کی باہمی خلش کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ تمام کسی ایک ریاست کے دائرے میں آتے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ ہر ادارہ اپنی ذات میں ایک الگ ریاست ہے جس کے مفادات کا تحفظ کسی بھی دوسرے ادارے کی کمزوری سے ہی ممکن ہے،مقننہ جن ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے وہ ستون بجائے خود مقننہ کے متوازی جہت میں کھڑے ہیں،کیا ایک جمہوری ملک میں کسی ”اوپر“ کا تصور کیا جا سکتا ہے؟سبھاش چندربوس نے جب جاپان کی مدد سے انڈین نیشنل آرمی قائم کی تھی تو معلوم ہے کہ قائد اعظم کا جواب کیا تھا؟ آپ نے سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ فوج کو سویلین اتھارٹی کی حکم عدولی کا کوئی حق حاصل نہیں۔

سترسالہ بوڑھا ملک جمہوریت کا ابھی بھی طفل شیر خوار ہے،سینیٹ کا الیکشن مگر اس بدنمائی کی ادنی جھلک ہے،عام عوام نہیں اراکین اسمبلی اور اکیس کروڑ عوام میں سے منتخب کردہ ممبران پارلیمنٹ تھے جن کے بھاؤ  کسی سبزی مارکیٹ کے ٹماٹر پیاز کی طرح لگائے گئے،یہ ہمارے اجتماعی شعور کی بے مائیگی ہے،ایک ایسی ریاست جس کا ایگزیکٹو بھی اس نظم انتخاب پہ سراپا احتجاج ہواس کا اللہ ہی حافظ ہوسکتا ہے،آخر کون ہے جو ووٹ کی عزت میں رکاوٹ ہے؟کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آ پ کا بیانیہ بھی مجمل ہے؟اس اجمال کی تفصیل کیے بغیر ایک گمنام دشمن کے خلاف پوری قوم کو لگانا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟

چیف جسٹس کے خلاف نعرے اس مسئلے کا حل نہیں،عدلیہ کو لاڈلے کا طعنہ بھی ایک کمزور نکتہ نظر ہے،اگر نکلنا لازم ٹھہرا تو پھر کچھ ہمت اور فرمائیے اور بتلائیے کہ کون ہے جسے ریاست کا جمہوری نظم منظور نہیں؟صادق سنجرانی کا طرز انتخاب اگر محل نظر ہے تو فرمائیے کہ اس کردار کا خالق کون تھا؟ دوبارہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب مسئلے کا حل ہے نہ صائب زاویہ فکر،درست یہ ہے کہ آپ اصل محرکات پر فوکس کر کے ڈائیلاگ واعتمادکی فضامیں فیصلے کرنے کی ہمت پیدا کریں،ہر ادارہ کو ڈسکیشن میں شامل کرکے ضد وانانیت کے بغیر جمہوری نظم کو مضبوط بنیادوں پر لانے کی کوشش کریں،آئین کو سامنے رکھ کر اس ”اوپر“ والے کو اعتماد کی فضامیں نیچے لائیں اور باور کروائیں کہ آپ کی نظر میں کسی ادارہ کی اہمیت کمتر ہے نہ آپ کسی کے خلوص ونیت پر شاکی ہیں،آپ ہرادارہ کی اہمیت وقربانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ریاستی نظم میں اسکے کردار کوتسلیم کرنے کی اخلاقی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے،شخصیات وافراد سے بالاتر ہوکر اداروں کے تقدس کو اس طرح ملحوظ رکھیں کہ ” پریت نہ جانے ذات کجات“

Advertisements
julia rana solicitors london

ریاستی تھنک ٹینک متوجہ ہوں،خدارا ملک کو اس ہیجان سے نکالیے،اگر آپ میں ریاست کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالنے کی استعداد نہیں تو پھر آپ بھی ووٹ کو عزت دیتے ہوئے دھمکا چوکڑی نہ مچائیں اور احتجاجا سسٹم سے علیحدہ ہوجائیں،ووٹ کی عزت صرف یہ نہیں کہ آپ کو منصب سے چمٹارکھا جائے ووٹ کی یہ بھی عزت ہے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا تو آپ ووٹ کے تقدس کو پامال ہونے سے بچاتے ہوئے حکومت چھوڑ دیں،میری نظر میں اس بات سے کہ بیس ممبران بکے اور فلاں فلاں بکے  زیادہ اہم یہ ہے کہ بکنے کے اصل محرکات کیا تھے؟ اور ہم نے ان محرکات کے ازالے کی کتنی کوشش کی ہے؟

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply