میں قطعاً خود کو توپ نہیں سمجھتا۔۔۔وقار اسلم

قارئین کرام بہت دکھی اور سنجیدہ آ رزو دل آپ کے گوش گزار کرنے جارہا ہوں کہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اس بات پر اتفاق کرنے کو تیار ہی نہیں کہ کوئی دوسرا ہم سے اتفاق نہیں رکھتا اس کا مطمع نظر کچھ اور ہےہم کسی دوسرے کی رائے یا بیانیے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے پروردہ ہی نہیں رہے جب بھی بڑے ادب سے اختلاف کیا ہے تو سننے کو ملا ہے کہ خود کو بڑا توپ سمجھتا ہے جبکہ کسی پر تنقید کے نشتر چلانے والے پر یہ شرط ہرگز لاگو نہیں  ہوتی ہے کہ وہ خود کو تمام خامیوں سے مبرا سمجھنے لگے نہ ہی میں نے کبھی پرلے درجے تک کی دانشمندی کا  اظہار کرنا مناسب سمجھا ہے نہself assertiveاگر کوئی ملک و قوم کی تضحیک کو اپنا معمول بنا لے گا تو اسے بھرپور جواب تو لازماً دینا ہی ہوگا چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اپنی پتنگ کو اونچی اڑان دلوانے کے لئے ملک کو ہی بدنام کرنے والے کسی طور تعظیم کے لائق نہیں ہوتے ہیں. تمکنت سے انعام حاصل کرتے اور اپنے چرچوں کی ندا سنتے یہ چند بے حس لوگ ملک کےتاثر کو تہہ وبالا کرتے ہیں ۔

حال ہی میں پشتون تحفظ موومنٹ کی اٹھنے والی تحریک چکا چوند شہرت اور مقبولیت پاگئی جو کہ بحیثیتِ قوم بڑے تفاخر کی بات ہے کہ ظلم کے ضابطے توڑنے کے لئے ہم پرعزم ہیں .منفی انداز فکر کو سامنے رکھ کر مرعوب کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔پروفیسر نصیر تائب نے بتایا کہ پارلیمان تک کسی شہری سے اس کے بنیادی حقوق سلب نہیں کرسکتا۔
جب دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمیں جھونک دیا گیا تو یہ بھی سچ ہے عام شہری اس سے بہت متاثر ہوئے لیکن ان کی بحالی کے لئے اگر کوئی میدان میں نظر آ یا تو وہ پاک افواج ہی تھیں انفراسٹرکچر بنانا ان کا کام نہیں تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے مستعدی سے ری ہیبلیٹیشن کو یقینی بنایا۔ملٹری آ پریشن کے بعد مختلف قبائل کے تحفظات رہے لیکن کنیئرڈڈ کالج فار ویمن یونیورسٹی کی پروفیسر خوشبو اعجاز نے  متاثرہ علاقوں کے لوگوں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ رفاحی کام میں پاک فوج کا سب سے بڑھ کر کردار رہا۔

ایک نوجوان منظور پشتین جو خود زیادتیوں کا  شکار رہا اور اس trauma سے گزرا، اب PTM کو لیڈ کر رہا ہے جس میں کئی لوگ ملتے گئے اور اب یہ ایک کارواں  کی شکل  اختیار   کر گئی ہے جو پختونوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کے کئے جانے والے استحصال کے خلاف برسرِ پیکار ہے ۔باشعور ہوتے  سٹوڈنٹس کی آ گہی کو ٹھیس پہنچانا اور فکر توقف کو پنپنے سے روکنا بھی پتہ نہیں کس کا ایجنڈا ہے۔پی یو کے پروفیسر ڈاکٹر عمار جان کو اس لئے برطرف کردیا گیا کہ ان کے طلباء احتجاجوں میں شامل رہے ہیں۔جب نا انصافیاں حد سے بڑھنے لگیں تو آ واز اٹھانی پڑتی ہے.کسی کو  اٹھ کھڑا ہونا ہوتا ہے اور پھر بہتان تراشیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ دونوں اطراف سے شروع ہوتا ہے۔یہ وہی منظور پشتین ہے جس کے مطالبات اب بھی وہی ہیں ۔۔

اس کا کہنا ہے کہ قبائلیوں کا ماورائے عدالت قتل بند کیا جائے ،لاپتہ افراد کو بازیاب کروایا جائے ،اگر کسی پر کوئی جرم کرنے کا الزام ہے تو عدالتوں میں پیش کیا جائے، اس کے مطالبات سو فیصد جائز ہیں۔میرے عزت مآب پروفیسر ڈاکٹر ثاقب وڑائچ نے کلاس میں موجود پختونوں کے اعتراضات سنے انہیں اپنا مسئلہ بتانے کا کہا جس پر انہوں نے ان مندرجات میں بات مکمل کی کہ ان سے حقارت آمیز رویہ رکھا جاتا ہے۔ ان کی تذلیل کی جاتی ہے انہیں مشکوک سمجھا جاتا ہے عزت نفس کو اچھالا جاتا ہے۔ڈاکٹر ثاقب نے انہیں بغیر کسی لسانی تفریق کے بہت شگفتہ اور مشفقانہ انداز میں سمجھایا کہ ملک جس دوراہے سے گزر رہا ہے اس میں ہم سب کو تعاون کرنے کی ضرورت ہے.

ایمل خان بابر ایک نوجوان جو ان سب سخت حالات سے گزرا ہے اسے اور اس کے ساتھیوں کو حبس بے جا میں حوالات کے اندر رکھا گیا نہ کوئی جواز نہ ہی کوئی جرم ایسے واقعات کی صرف مذمت ہی نہیں بلکہ روک تھام بھی کرنی چاہیے ، اگر ہم واقعی سنجیدگی سے انتشار سے بچنے کے حواہاں ہیں۔یہاں یہ بات بھی دھیان  میں رہے کہ جدھر ڈاکٹرعامر لیاقت حسین نے ایک سلگتے موضوع کو راء ،این ڈی ایس کی سازش قرار دے کر حقائق کو بھنبھوڑ ڈالا ہے اور ڈس انفارمیشن پھیلائی ہے وہیں ان کی یہ بات ہے کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے فگرز کو بہت بڑا ٹوئسٹ دیا گیا ہے تاکہ عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی جا سکے۔

بچپن سے سنتا آیا ہوں جو کروا رہا ہے امریکا کروا رہا ہے لیکن ہر بات کا ذمہ امریکا پر ڈالنا یا اسے اغیار پر ڈال دینا واقعی حالات کی دکھتی رگ کو جھٹک دینے کے مترادف ہے۔محسود تحفظ موومنٹ سے آغاز کرنے والا منظور احمد ایک خواندہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے اس نے تکلیفیں خود بھگتی ہیں، اس استبداد کا خود شکار رہا ہے اور وزیرستان کے حالات کو اس لئے بھی سمجھتا ہے کیونکہ خود بھی وہاں کا رہائشی ہے ،اگر کچھ عرصے پہلے تک سیاسی قائدین اس کے مطالبات کی توثیق کر رہے تھے تو اچانک اسے ایجنٹ کیوں قرار دیا جانے لگا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہزارہ کے مقتولین کے ورثا سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں انصاف کے طلبگار ہیں مگر کوئی ان کی دہائی سننے والا نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کے بارے میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ ملک دشمن ایجنڈے پر کاربند ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خلق خدا کی آ واز سنی جانی چاہیے ، بحیثیتِ پنجابی مجھے پختونوں سے ہمدردی ہے اور ان کے لئے آواز اٹھانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔جو سکیورٹی فورسز کے بارے میں زبان استعمال ہوئی وہ قابل مذمت ہے ،فہم و فراست سے  ہی مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ ملک میں امن کے قیام کے لئے پاک فوج اپنے ملک پر اپنی جانیں وارتی گئی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔لبرلزم کی لت میں آج کچھ عناصر عجیب و غریب نعرے لگا رہے ہیں جو ان کی ذہنی حالت کو عیاں کرتے ہیں۔ایشوز کوافہام و تفہیم کے ساتھ ایڈرس کیا جانا چاہیے ہم جس نازک دورسے گزر رہے ہیں اتمام حجت ناگزیر جزو بن چکی ہے۔ملک پاکستان پانچ صوبوں کا گلستان ہے اگر ہم اس طرح اتنی ارزاں جذباتیت میں دشمن کے آلہ کار بنتے گئے تو ہمارے لئے منعفت بخش ثابت نہ ہوگا بلکہ تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرے گا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply