میری کہانی۔۔

یہ اللہ تعالی کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے مجھے اشرف المخلوقات پیدا کیا اور اس سے بھی بڑھ کر مجھے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا فرما کر ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا۔ میں انسان ہوں فرشتہ نہیں اور انسانوں میں بھی اعمال کے لحاظ سے سب سے کمزور ترین ۔۔۔۔میں جب رسول اکرمﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں لیکن یہ کیفیت زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتی۔۔ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات پڑھتا ہوں تو میرے اندر ایمانی قوت اور غیرت جاگ جاتی ہے لیکن یہ بھی وقتی طور پر۔ ۔میں اولیاء اور صوفیاء کرام کا تذکرہ سنتا ہوں تو ایمان کو تازگی اور راحت محسوس ہوتی ہے لیکن ایک خاص لمحے تک۔۔ میں داعی دین کی خدمات اور مفکرین اسلام کی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں تو دوران مطالعہ میں دعوت دین اور فکر اسلام کی مٹھاس اور اہمیت کو دل سے محسوس کرتا ہوں لیکن کتاب بند ہونے تک۔۔ میں اسلامی تحریکوں کے حالات و واقعات دیکھتا ہوں تو میرے اندر شریعت کا نفاذ، خلافت کا قیام، اسلامی انقلاب کی جستجو، جذبہ جہاد اور شوق ِ شہادت امڈ آتے ہیں لیکن اس مقصد کے لئے میرے پیر غبار آلود ہونے کو تیار نہیں ۔۔ میں سیکولر، لبرل، ماڈرن ذہنیت سے نفرت تو کرتا ہوں لیکن خود مجھے اسلام کے افکار و نظریات پر عبور حاصل نہیں ہے۔۔
العرض بہت سے ایسے کام جن کو میں گناہ سمجھتا ہوں لیکن پھر بھی وہ مجھ سے سرزد ہوتے ہیں۔ میں ایک طالب علم ہوں جو حصول تعلیم کی خاطر گھر سے کوسوں دور رہتا ہے۔ یونیورسٹی میں مجھے جو تعلیم دی جاتی ہے اس کا آغاز مخلوط نظام تعلیم سے شروع ہوتا ہے اور اختتام ڈگری اور نوکری تک پہنچ کر ہوتا ہے۔۔ بحیثیت مسلمان مجھے اپنے مشن (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کے بارے میں بھی معلوم ہے۔ ۔ میرے ذہن کے اندر آنحضرتﷺ کی وہ حدیث مبارکہ بھی ہے” کہ تم میں سے اگر کوئی برائی کو ہوتا دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روکے۔،اگر وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے روکے۔،اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنے دل میں اس برائی کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے”۔۔ میں جب برائی کواستطاعت رکھتے ہوئے ہاتھ سے روکتا ہوں تو مجھے طعنہ ملتا ہے کہ غنڈہ گردی کرتا ہے۔۔ میں جب زبان سے اس برائی کے خلاف آواز اٹھاتا ہوں تو اسلام کا ٹھیکیدار ملزم ٹھہرتا ہوں۔۔
سرِ محفل جو بولوں تو زمانے کو کھٹکتا ہوں
رہوں میں‌چُپ تو اندر کی بغاوت مار دیتی ہے
دل اس تو اس کو برا جان ہی جاتا ہوں لیکن دل میں ایک شرر موجود ہے جو مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ برائی کو نہتا چھوڑ دینا بھی بالواسطہ برائی کی حمایت ہے۔۔ میں اس شرر کی جلن محسوس کرتا ہوں کہ کہیں میں ایمان کے اس کمزور ترین درجے سے بھی ذلت اور رسوائی کی پستی میں منہ کے بل نہ گر جاؤں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ان طعنوں سے بچنے کے لئے یہ آخری درجہ ہی اپنا لوں اور پھر آہستہ آہستہ میں اس درجے کو بھی دل سے نکال کر ان طعنہ دینے والوں کی صف میں شامل ہو کر دوسروں کو طعنہ دینے والا بن جاؤں۔۔ یہی شرر میرے لئے امید بھی ہے کہ ہو سکتا ہے اللہ اسی شرر کو میرے دل کے اندر بھڑکائے اور یہ شعلہ بن کر میرے اندر مثبت تبدیلی کا باعث بنے۔۔ لیکن یہاں مجھے اک حوصلہ بھی ملتا ہے کہ میں غنڈہ سہی لیکن میرے لئے یہی کافی ہے کہ میری نسبت اللہ سے ہے۔۔ میں اسلام کا ٹھیکیدار سہی لیکن خوش نصیبی ہے کہ میری نسبت اسلام سے ہے۔۔

Facebook Comments

عبدالحلیم شرر
اک سنگ بدنما ہے بظاہر میرا تعارف ۔۔ کوئی تراش لے تو بڑے کام کا ہوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply