آدمی انسان نہ رہا۔۔ایس معشوق احمد

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کا منصب عطا کیا ہے۔ اسے بہت سارے اوصاف اور کمالات سے مزین کیا ہے۔اس میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی موجود ہیں ۔ایک طرف اس میں وہ گن رکھے کہ یہ دوسروں کے کام آتا ہے ،نیکی کرتا ہے ،خلائق کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے،ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے پر فدا اور قربان ہونے کے لیے تیار رہتا ہے۔

وہیں دوسری طرف یہی انسان شیطان بن جاتا ہے۔برائیوں میں لت پت، تفصیل اعمال اتنے بُرے کہ شیطان شرم کے مارے زمین میں گڑ  جائے۔حق گو اور صداقت شعار تو پہلے تھا اب یہ اپنے فائدے کے لیے جھوٹ ،مکروفریب اور بطالت سے کام لیتا ہے۔ پہلے انسان بے لوث ،پُر خلوص اور طاہر تھا اب آدمی ابن الغرض ، مطلب پرست ، حریص اور لالچی ہو گیا ہے۔ اسے جہاں اپنا فائدہ نظر آتا ہے وہاں یہ دوڈ کے جاتا ہے اور جہاں اسے اپنا ذاتی نقصان ہونے کا اندیشہ ہو وہاں جانے کے لیے یہ ہرگز تیار نہیں ہوتا ۔ اب یہ اپنا فائدہ دیکھ کر کلام کرتا ہے اور اپنے یافت کی خاطر تملق سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اب تو یہ دوستی اور رشتے بھی وہاں گانٹھ لیتا ہے جہاں اس کی مطلب پرست طبیعت کو قرار آئے۔اتنا مکار ،عیار اور فریبی ہوگیا ہے کہ اب یہ تمیز کرنا مشکل ہے کیا یہ واقعی انسان ہی رہا یا اپنی جون بدل کرکوئی اور مخلوق ہو گیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان سے ہی معاشرہ وجود پاتا ہے اور یہ بھی صداقت ہے کہ جیسا انسان ہوگا ویسا ہی معاشرہ ہوگا۔ہمارے معاشرے میں صرف ایک دو آدمیوں کی سوچ نجس نہیں ہوئی بلکہ پورے معاشرے کو عیاری،جھانسے بازی اور چکمے بازی کی  عادات پڑ گئی  ہیں ،اور قرب و جوار میں دغا بازوں، فریب کاروں   کا بول بالا ہے۔صادق القول ، سیدھے سادھے اور مخلص لوگ دھکے کھا رہے ہیں۔بنا مطلب کے مدد کرنے والوں کو بے وقوف اور احمق تصور کیا جاتا ہے۔انسان اتنا لالچی ہوگیا ہے کہ بِنا مطلب کوئی کام کرنے کو تیار نہیں، یہاں تک کہ عبادت بھی مطلب ،منفعت اور غرض کے لیے کرتا ہے۔جس دن بیمار، کبیدہ خاطر اور اندیشہ مند ہوگا اسی دن خدا کو یاد کرے گا ورنہ اپنی دھن میں مگن ، بےپروا اور تغافل شعار ہی رہتا ہے۔ اب حرام اور حلال کا تفاوت دھندلا ہو گیا ہے اور لگتا ہے وہ میزان ہی ٹوٹ گیا ہے جو یہ تمیز کر سکتا ۔

ہمارے معاشرے میں مطلب پرستی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کوئی بھی شخص کسی پر مکمل اعتبار نہیں کرتا حتی کہ اپنے آپ پر بھی نہیں۔انسان، انسان کو دھوکہ دولت کی لالچ اور اپنے مفاد کے لیے دیتا ہے اور یہی دولت اور لالچ ہے جس سے خود بھی جھانسے میں پھنس جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں نوکری کا  لالچ دے کر لوٹنا اور بے وقوف بنانا اب عام سا  چلن  ہےاور ہم بار بار اس جھانسے میں پھنس بھی جاتے ہیں۔محنت کرنا ہمارا وطیرہ نہیں رہا بلکہ ہم حیلے بہانے سے کامیابی کی سیڑھی چڑھنا چاہتے ہیں۔ چھل دینا ہماری عادت بن گئی ہے۔انسان، انسان کو صرف دھوکہ دینے کا عادی بن گیا ہے۔کبھی زر کے لیے تو کبھی حسد ،بغض اور کینہ پروری میں جل کر ایک انسان اپنے دوستوں اور عزیزوں کو یہ بنیاد بنا کر دھوکہ اور فریب دیتا ہے کہ اس کا حال احوال مجھے سے بہتر کیوں ہے اور یہ مجھ سے آگے کیوں نکل گیا ہے۔ ہم اپنی بہتری کے لیے اتنے کوشاں نہیں رہتے اور نہ ہی اتنے شاد ہوتے ہیں جتنے دوسروں کی بدتری اور تنزل سے خوش ہوتے ہیں۔

ہم حسد رکھنے اور کینہ پروری میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اشرف الخلوقات افضل الخلائق سے صرف اس لیے حسد اور بغض رکھتا ہے کہ وہ کامیابی اور کامرانی کے زینے کیوں چڑھ رہا ہے۔ایک دوسرے کی ترقی کے بجائے ہم ایک دوسرے کے اتلاف میں خرم ہے۔ہم ساری اخلاقی قدریں بھول گئے ہیں۔ اگر کوئی خلوص مند ہے اس خلوص مند ہونے کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی مدعا اور مقصد ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں چاہیے کہ اپنی سوچ بدل کر اجداد کی فکر کے سہارے چلیں، پکی اور سچی توبہ کرکے مکاری کا نقاب اتار کر سچائی کا مکٹ پہنیں اور اپنی روایات و مذہبی امور پر عمل کرکے پھر سے ویسے ہی  سچے ، اور جھوٹ سے نفرت کرنے والے بن جائیں تاکہ ہماری آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا بھی سنور جائے۔ہم نے خود کو جو دنیا کمانے میں لگایا ہے اور جس کے لیے ہم انسان کے منصب سے گر گئے ہیں ۔ہمارا آدمی سے انسان بننا تب تک ناممکن ہے جب تک ہمارا ذہن صاف نہ ہو،ہم مطلب پرست ہونے کے بجائے دوسروں کی بھلائی کا سوچیں اور اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کریں جس سے ان برائیوں کا قلع قمع ہو۔ہم آدمی سے انسان بن گئے تو یقیناً ہمارا معاشرہ پھر سے انسانوں کا صاف اور پاک معاشرہ بن جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply