کہنے میں کیا ہرج ہے۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

آج میں نے جب قلم اٹھایا تو میری خواہش تھی کہ ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور غیر جمہوری رویوں پر لکھوں۔ ابھی چند سطور ہی لکھی تھیں کہ ڈور بیل بجی۔ باہر جا کر دیکھا تو نذیر تھا۔۔ زمانہ طالب علمی میں اس سے کافی دعا سلام تھی جب ہم اچھرہ کے ایک ہاسٹل میں مقیم تھے۔۔ اُسے اندر بلایا اور چائے منگوائی۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ اس کا بیٹا چلڈرن ہسپتال میں داخل ہے اس کا آپریشن ہوا تھا، چلڈرن ہسپتال میری رہائش سے قریب ہی پڑتا تھا۔۔ چائے پینے کے بعد میں بھی اس کیساتھ ہی ہو لیا۔۔ چلڈرن ہسپتال سرجیکل یونٹ میں گیا تو عجیب منظر دیکھا۔ ایک ایک بیڈ پر تین تین بچے داخل تھے۔۔ مریضوں کے بے پناہ رش کی وجہ سے ڈاکٹر بیچارے کبھی ادھر بھاگ رہے تھے کبھی ادھر۔نرسز کا حال بھی ان سے مختلف نہ تھا۔۔ وارڈ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔۔ اور سوچنے لگا کہ یہ معصوم بھی اسی پاکستان کے شہری ہیں۔۔

ایک دوست ڈاکٹر سے جب تذکرہ کیا تو وہ کہنے لگا کہ یہ مسئلہ صرف چلڈرن ہسپتال کا نہیں ہے۔ لاہور کے تمام بڑے ہسپتال اسی طرح مریضوں سے کھچا کھچ  بھرے ہوئے ہیں جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو ایک مکمل جنرل ہسپتال بنا دیا جائے۔۔ اگرچہ ہمارے پاس پروفیسر ڈاکٹرز کی تعداد بہت کم ہے لہذا رولز میں ترمیم بھی کی جا سکتی ہے جس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور سینئر اسسٹنٹ پروفیسر کو ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بنایا جا سکتا ہے۔۔ ان میڈیکل کالجز /ہسپتالوں میں تمام بیماریوں کے اسسٹنٹ پروفیسرز اور سینئر رجسٹرار ڈاکٹرز موجود ہوں۔اس ضلع کے مریض بچے، بوڑھے، خواتین اور مرد اپنے ضلع کے ہسپتال میں ہی علاج کی سہولیات سے استفادہ کریں۔ انھیں بڑے شہروں میں ریفر نہ کیا جائے، اس طرح بڑے شہروں میں ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ خود بخود کم ہو جائے گا۔ ہر ضلع کے ہسپتال کو میڈیکل کالج کا درجہ بھی دے دیا جائے اور یہ ہر سال صرف پچاس طلبہ کو ایم بی بی ایس میں داخلہ دیں، اس طرح ڈاکٹرز کی کمی کو بھی چند سال میں ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔

میرا یہ مشاہدہ ہے کہ اسسٹنٹ پروفیسر لیول کے ڈاکٹرز بھی اپنی سپیشلائزیشن میں ہر پیچیدہ مرض کا علاج بہترین طریقے  سے کرتے ہیں اور وہ نئے ڈاکٹرز کو ٹریننگ بھی بہت بہترین دے  سکتے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹر پروفیسرز کی بہت کمی ہے۔ ایسے میں وقتی طور پر ان ایسوسی ایٹ اور اسسٹنٹ پروفیسرز کو ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ وہ لیکچرز بھی دیں گے، لیکچرز، کیس سٹڈی اور ٹریننگ کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔۔ پروفیسرز کے لیکچرز کیلئے لائیو ویڈیو لیکچر کا طریقہ آج کل پوری دنیا میں کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔۔ اب تو بہت سی پیچیدہ بیماریوں کا علاج بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے سینئر پروفیسرز کیساتھ لائیو ویڈیو کے ذریعے مریض کی مکمل ہسٹری شیئر کرکے ہو رہا ہے۔۔ پھر ہم اس جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیوں نہیں کر سکتے؟

کیا اچھا علاج اور اچھی تعلیم ہماری بنیادی ضروریات نہیں؟ کیا فی الوقت تعلیم اور صحت ہمارے بنیادی مسائل نہیں ہیں؟ آج اگر تمام پاکستانی نیوز چینلز کی مانیٹرنگ کریں تو ان بنیادی معاشرتی مسائل پر مبنی پروگراموں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔۔ اگر کوئی ایسا پروگرام ہو بھی تو ناظرین دیکھنا پسند ہی نہیں کرتے کیونکہ ایسے پروگراموں میں ناظرین کے چسکے کا سامان ہی نہیں ہوتا۔۔ اینکرز وہی پروگرام کرتے ہیں جن کی ریٹنگ اچھی آئے۔۔ چونکہ بنیادی مسائل کے پروگرام ناظرین دیکھنا ہی پسند نہیں کرتے لہٰذا اینکرز بھی ایسے پروگرام نہیں کرتے۔۔ جب بھی کسی سماجی موضوع پر کوئی ٹاک شو ہو تو ناظرین فوراً چینل سوئچ کرکے اگلے چینل پر چلے  جاتے  ہیں۔۔ اخبار پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور سماجی موضوعات کو سِرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں۔۔ ہم تو سیاستدانوں کی باتیں سننا چاہتے ہیں۔ لہٰذا میڈیا بھی ہمارے لیے وہی انتظام کرتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔۔ ہم سننا چاہتے ہیں کہ سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں، ایک دوسرے پر دشنام طرازی کریں،سیاستدانوں کی سرگرمیوں کو میڈیا لائیو کوریج دیتا ہے۔۔ ان سیاستدانوں کی سیاسی باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں دکھایا اور بتایا جاتا اور نہ ہی ہم سننا چاہتے ہیں۔۔ ابھی میاں صاحب کی طبیعت خراب ہے، ابھی فلاں وزیر کو نزلہ ہوا ہے، ابھی فلاں شخصیت کے بیٹے کی شادی پر فلاں فلاں وزراء نے شرکت کی۔۔ یہ وہ سب ہے جو ہمارا میڈیا دکھاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں اور دیکھنا پسند کرتے ہیں۔۔

ایک دوست کہہ رہا تھا کہ میڈیا اصل معاشرتی اور عوامی ایشوز اٹھاتا ہی نہیں ہے۔۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ دراصل ہم ان مسائل پر بات کرنا اور سننا ہی نہیں چاہتے۔ گھر میں بوڑھے ماں باپ اور بچے علاج کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بیماریوں سے مر رہے ہیں لیکن ہماری بلا سے۔ ہمارے لیڈروں کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا علاج باہر ممالک سے ہی ہونا چاہیے، بھلے پاکستان کی غریب مائیں اپنے بچے رکشوں میں پیدا کریں یا ہسپتالوں کے کاریڈورز میں۔ بھلے ہمارے بچے ناکافی سہولیات والے ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے رہیں۔۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر 53000 بچے مختلف انفیکشنز کا شکار ہو کر اس دار فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔۔ کیا ہمارا اس طرف دھیان کبھی نہیں گیا؟ اس کیلئے میڈیا کے ذریعے نہ صرف آگاہی دینے کی ضرورت ہے بلکہ مناسب سہولیات دینے کی بھی ضرورت ہے۔۔

پانی اس کرہ ارض پر موجود ہر ذی روح کی اہم اور بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر گزارہ ممکن ہی نہیں ہے۔۔ پاکستان ایک ایسا ترقی پذیر ملک ہے جس کی آبادی کا بیشتر حصہ گندا پانی پینے پر مجبور ہے۔۔ جی ہاں ہمارے ملک کے اکثر علاقوں کا زیر زمین پانی پینے کے قابل ہی نہیں ہے لیکن ان علاقوں میں رہنے والی عوام وہ پانی پینے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ اور دیگر انفیکشنز تیزی سے پھیل رہے ہیں۔۔ ان مسائل کے سدباب کیلئے آج تک عملی اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہماری ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں ہے۔۔ انڈر پاس بنانے کیلئے تو اربوں روپے ہیں اور چند ماہ کے اندر بن بھی جاتے ہیں۔۔ لیکن اچھی صحت اور صاف پانی کی فراہمی جیسے منصوبہ جات ہماری ناقص پالیسیوں اور فنڈز کی کمی کی بدولت تاحال بارآور ثابت نہیں ہو رہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply